ColumnMazhar Ch

عوام کا اعتماد اور ریاست .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

 

کہتے ہیںکہ چینی دانش ور کنفیوشس سے بادشاہ وقت نے پوچھا، ریاست کو چلانے کیلئے کون سی تین چیزیں از حد ضروری ہیں؟کنفیوشس نے جواب دیا’’روٹی، فوج اور عوام کا اعتماد‘‘ بادشاہ نے عرض کیا کہ اگر ریاست بحالت مجبوری ان میں سے ایک چیز نہ دے تو ان میں سے کس چیز کے بغیرگذارا ہو سکتا ہے؟ کنفیوشس نے جواب دیا ، فوج کے بغیر ریاست چل سکتی ہے۔ بادشاہ نے پھر عرض کیا کہ اگرریاست ان میں سے دو چیزیں نہ دے سکے تو ؟ کنفیوشس نے کہا، فوج اور روٹی کے بغیر گذارا ہو سکتا ہے لیکن اگر ریاست عوام کا اعتماد کھو دے تو ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتوں میں پے در پے کیے جانے والے اضافوں کے نتیجے میں ہونے والی کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی اکثریت کا حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی اعتماد متزلزل کر دیا ہے۔چند سال قبل تک ہمارے ہاں معیشت کی زبوں حالی اوربے تحاشا لیے جانے والے قرضوں کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی کی ذمہ دار صرف حکومت وقت کو سمجھا جاتا تھا لیکن اب عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی تنقید کرتی دکھائی دیتی ہے۔اپنے بڑے بوڑھوں کی طرح ہم بھی شروع سے ہی ’’ملک کے نازک دور‘‘سے گذرنے کی باتیں سنتے آ رہے تھے لیکن گذشتہ دو تین سالوں سے یہ جملہ ترمیم (انتہائی نازک دور) کے ساتھ سنائی دے رہا تھا کہ اب کہیں کہیں یہ بھی سننے کو مل رہا ہے کہ 75سالوں سے نازک دور سے گذرنے والا پاکستان اب پل صراط پر پہنچ گیا ہے۔کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ اب دو ہی صورتوں میں بہتری کی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ایک یہ کہ حکمران اشرافیہ خود سے حالات کی سنجیدگی کا ادراک کرتے ہوئے خود کو حاصل اربوں ڈالر کی مراعات سے بتدریج دست بردار ہونے کو تیار ہو جائے ، بصورت دیگرغریب عوام اور سفید پوش طبقہ اپنے معاشی استحصال کے خلاف خود اٹھ کھڑا ہو گا۔
دو سال قبل اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں طاقت ور اشرافیہ(کارپوریٹ سیکٹر،جاگیر دار، سیاسی طبقہ اورفوج ) کو دی جانے والی اقتصادی مراعات کا تخمینہ 17.4ارب ڈالر بنتا ہے۔ یہ رپورٹ ’’طاقت، عوام اور پالیسی‘‘کے پرزم پر مبنی ، عدم مساوات سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے ملک میں آمدنی اور اقتصادی مواقع کے واضح تفاوت کا جائزہ لیتی ہے۔ اس رپورٹ میںایک اور تشویش ناک حقیقت متوسط طبقے کی شرح میں آنے والا مسلسل سکڑائو ہے۔اعدادوشمار کے مطابق درمیانی آمدنی والے افراد موجودہ صدی کی دوسری دہائی میں آبادی کے42فیصد سے کم ہو کر 36فیصد رہ گئے جب کہ اب ایک اندازے کے مطابق مڈل انکم رکھنے والے افراد کی شرح بمشکل30فیصد رہ گئی ہے۔گذشتہ دنوں سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سینیٹر نے ججز، جرنیلوں اور قانون سازوں کو حاصل مراعات کی تفصیلات بتاتے ہوئے ان میں کمی یا خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔سینیٹر مشتاق احمد کے مطابق ایک جج کو ماہانہ پنشن کی مد میں دس لاکھ روپے ملتے ہیں ، اس کے علاوہ اسے بجلی کے دو ہزار مفت یونٹس، تین سو لیٹر مفت پٹرول اور تین ہزار روپے کی مفت فون کالز ملتی ہیں ۔پروٹوکول کلچر کو ختم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے سینیٹر نے کہا کہ 60بلٹ پروف لگژری گاڑیاں صرف کابینہ کے ارکان کے استعمال میں ہیںجب کہ’’دیگر بڑے افراد‘‘ کے پاس ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک ٹرک جتنا تیل استعمال کرتی ہیں۔سینیٹر نے منی بجٹ کو غریبوں کیلئے ڈیتھ وارنٹ قرار دیتے ہوئے زور دے کر کہا کہ آپ غریبوں پر بوجھ ڈالتے ہیں ، اب کچھ بوجھ اشرافیہ پر ڈال دیں ۔اس حوالے سے راقم نے فیس بک پر پوسٹ بھی کی تھی جس پر کسی نے سوال اٹھایا کہ سیاسی حکومتیں ججز سمیت اشرافیہ کو حاصل مراعات ختم کرنے کی قانون سازی کیوں نہیں کرتے۔اس پر راقم کا جواب تھا کہ ایک دو جماعتوں پر مشتمل کسی حکومت کیلئے ججز او راسٹیبلشمنٹ سمیت حکمران اشرافیہ کی مراعات ختم کرنے کی قانون سازی کرنا آسان نہیں۔ ایسی قانون سازی کیلئے پہلے ملک کی بڑی تمام سیاسی جماعتوں کو قانون سازادارے اور کابینہ کی مراعات کم سے کم کرنے پر اتفاق کریں اور اس کے بعد ججز اور سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو حاصل مراعات کے خاتمے کی کوشش کریں تو شاید بات بن جائے۔
حکمران اشرافیہ کی مراعات میں کمی کی باتیں نہ صرف سوشل میڈیا پر زبان زد عام ہیں بلکہ تھڑے پر بیٹھے عام افراد بھی اشرافیہ کو حاصل مراعات کے خاتمے کے متمنی ہیں۔کہتے ہیں زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے لیکن ہمارے ارباب اقتدارابھی بھی ہوش کے ناخن نہیں لے رہے۔زبان خلق دہائی دے رہی ہے کہ اب غریبوں میں مزید مہنگائی اور ٹیکسز کا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی۔مہنگائی اور قرضوں کا بوجھ یا تو اشرافیہ پر ڈالا جائے یا پھر اشرافیہ کی تفریح اور آسائش کیلئے بنے 200گولف کلبوں میں سے چند ایک بیچ دئیے جائیں۔گذشتہ دنوں وزیردفاع خواجہ آصف نے ملک کے دیوالیہ ہونے بارے تلخ حقائق بیان کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ سرکاری زمین پر پندرہ پندرہ سو کنال پر گالف کلب بنے ہوئے ہیں، ان میں سے دو گالف کلب بیچ دیں تو ملک کاایک چوتھائی قرضہ اتر سکتا ہے۔کوئی شک نہیں کہ کرونا اورروس یوکرین تنازعے کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک معاشی مشکلات کا شکار ہوئے ہیں لیکن دنیا کے زیادہ تر ممالک حکومتی و سماجی سطح پر کفایت شعاری مہم کے زریعے اپنی مشکلات پر قابو پا رہے ہیں۔ہمارے ہاں حکمران اشرافیہ اپنے لائف سٹائل میں تبدیلی اور مراعات میں کمی پر تیار نہیں۔حکمران اشرافیہ اپنی مراعات میں کمی کرتے ہوئے کفایت شعاری اختیار کرے تو ملک اور معاشرے میں سادگی کا کلچر خود بخود فروغ پا سکتا ہے۔ہمارے حکمرانوںکے شاہانہ طور طریقوں کو دیکھ دیکھ کر اب بڑی معاشی طاقتیں پاکستان کو سیلاب جیسی قدرتی آفات میں بھی امداد کی بجائے قرض دینے کو ترجیح دیتی ہیں۔اب تو آئی ایم ایف کے سربراہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ حکومت کی جانب سے دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ امیروں کو نہیں، غریبوں کو ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر آنے والی حکومت سابقہ حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کر کے خود کو بری الزمہ قرار دینے کی کوشش کرتی ہے لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملک کو اس نہج تک پہنچانے میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ مقتدر ہ کا اہم کردار ہے جو اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کیلئے سیاسی حکومتوں کی کااکھاڑ پچھاڑ میں ملوث رہتی ہے۔حرف آخر یہی کہ حکمران اشرافیہ عوام پر مہنگائی اور قرضوں کامزید بوجھ ڈالنے کی بجائے اپنی مراعات میں کمی کیلئے بڑے اقدامات کرے ورنہ آپ اور آپ کی ریاست عوام کے اعتماد سے یکسر محروم ہو جائیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button