انتخاباتتازہ ترینخبریں

انتخابی شیڈول کیس: پشاور ہائی کورٹ کی گورنر کو جواب جمع کرانے کیلئے 2 روز کی مہلت

پشاور ہائی کورٹ نے ورنر خیبرپختونخوا کو صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے دائر درخواستوں کا جواب داخل کرنے کے لیے 2 روز کی مہلت دے دی۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم اور جسٹس سید ارشد علی پر مشتمل بینچ نے 18 جنوری کو تحلیل ہونے والی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے شیڈول کے اعلان میں تاخیر کے خلاف 2 درخواستوں کی آئندہ سماعت 20 فروری تک ملتوی کردی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر گورنر کی جانب سے اس دوران جواب داخل نہیں کیا گیا تو عدالت دستیاب ریکارڈ کی روشنی میں معاملے کا فیصلہ کرے گی اور گورنر سمیت دیگر جواب دہندگان کو اپنا جواب داخل کرنے کے لیے مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک اہم آئینی معاملہ ہے، عدالت اس میں تاخیر کے حوالے سے کوئی عذر برداشت نہیں کرے گی۔

یہ درخواستیں پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سیکریٹری جنرل اسد عمر اور پارٹی کی خاتون وکیل مشال اعظم کے توسط سے دائر کی تھیں۔

درخواست گزاروں نے پشاور ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ گورنر خیبر پختونخوا کو اسمبلی کی تحلیل کے 90 روز کے اندر آئین پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست گزاروں نے عدالت عالیہ سے گورنر کے اس بیان کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دینے کی بھی استدعا کی کہ انتخابات کا فیصلہ انٹیلی جنس اور دیگر ایجنسیوں کی رپورٹس کی روشنی میں کیا جائے گا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکلا قاضی محمد انور، محمد معظم بٹ اور شمائل احمد بٹ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ صوبائی حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بالترتیب ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید اور ایڈووکیٹ محسن کامران صدیق پیش ہوئے۔

قاضی محمد انور نے بینچ کو مطلع کیا کہ انہیں کل رات پی ٹی آئی سربراہ عمران خان کا فون آیا جس میں ان کو اس معاملے پر ان کی نمائندگی کرنے کا کہا گیا۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت یہ مؤقف اختیار کر رہی ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان انتخابات کے انعقاد کے لیے گورنر سے مشاورت کا پابند ہے۔

تاہم وکیل نے کہا کہ کچھ معاملات پر گورنر سے مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن الیکشن کمیشن پاکستان کچھ معاملات پر از خود کارروائی کر سکتا ہے اور الیکشن شیڈول کا اعلان بھی خود اپنے طور پر کر سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید نے بینچ کو آگاہ کیا کہ درخواستوں پر عدالت کے حکم پر گورنر کی جانب جواب ان کی ’متعدد مصروفیات‘ کی وجہ سے داخل نہیں کرایا جا سکا۔

انہوں نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ انہوں نے گورنر کے پرنسپل سیکریٹری کو اس معاملے سے آگاہ کر دیا تھا لیکن گورنر نے دیگر مصروفیات کے علاوہ ہزارہ یونیورسٹی کے کانووکیشن میں شرکت کرنی تھی اس لیے جواب داخل نہیں کرایا جاسکا۔

ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید نے کہا کہ آئندہ سماعت سے قبل گورنر کا جواب عدالت میں جمع کرا دیا جائے گا۔

درخواست گزار کے وکیل معظم بٹ نے مؤقف اپنایا کہ گورنر تاخیری حربے استعمال کر رہے ہیں، انہوں نے استدعا کی کہ عدالت یقینی بنائے کہ گورنر درخواستوں پر اپنا جواب جمع کرائیں۔

معظم بٹ نے استدلال کیا کہ آئین کے تحت اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 روز کے اندر انتخابات کرانا ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے تاحال اس کیس میں اپنا جواب جمع نہیں کرایا۔

جسٹس اشتیاق ابراہیم نے ریمارکس دیے کہ ایڈووکیٹ جنرل صوبے کے پرنسپل لا افسر ہونے کی وجہ سے بینچ نے ان سے گورنر کا جواب داخل کرنے کو کہا تھا، اگر ضرورت پڑے تو گورنر جواب جمع کرانے کے لیے اپنا وکیل نامزد کر سکتے ہیں۔

سابق گورنر اور پی ٹی آئی رہنما شاہ فرمان بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اس مدت کے ختم ہونے سے کم از کم 54 دن پہلے انتخابی عمل شروع کرنا ہوگا، اس حساب سے انتخابات کی تاریخ 23 فروری تک دی جانی چاہیے۔

14 فروری کوگزشتہ سماعت کے دوران، بینچ نے صوبائی ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید سے استفسار کیا کہ انہوں نے گورنر کی جانب سے درخواستوں پر اپنا جواب کیوں نہیں جمع کرایا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 248 گورنر کو استثنیٰ دیتا ہے، اس لیے وہ کسی بھی عدالت کے سامنے اپنے اختیارات کا استعمال کرنے، اس کے دفتری امور کی انجام دہی اور کارکردگی کے حوالے سے جوابدہ نہیں ہیں۔

تاہم بینچ نے انہیں ہدایت کی کہ وہ درخواستوں پر جو بھی اعتراضات رکھتے ہیں، ان کا تحریری جواب میں ذکر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button