سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی

وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے آنے کے بعد سٹیٹ بینک آف پاکستان کی دوسری مانیٹری پالیسی میں شرح سود 15سے بڑھاکر16فیصد کردی گئی ہے جو اب تک کی بلند ترین سطح ہے۔ ڈیڑھ ماہ کے لیے اعلان کردہ زری پالیسی کے اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ مہنگائی اگلے سال بھی رہے گی،گرانی کا دباؤ مسلسل اور توقعات سے زیادہ ہے،اِس کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود15سے بڑھا کر 16 فیصد کی گئی ہے۔رپورٹ میں امکان ظاہر کیاگیا ہے کہ بلند غذائی قیمتیں اور قوزی گرانی اوسط مہنگائی کو مالی سال 23ء میں بڑھا کر21سے 23 فیصد تک لے جائیں گی اور بلاشبہ یہ بھی تاریخ کی بلند ترین سطح ہوگی۔ جہاں تک شرح سود بڑھانے کا معاملہ ہے تو یہ فارمولاڈالر کی قیمت کو قابو میں رکھنے کے لیے ناگزیر سمجھاجاتا ہے لہٰذا اسی لیے شرح سود میں ایک فیصد اضافہ کیاگیا ہے یعنی پندرہ فیصد کو سولہ فیصد کردیاگیا ہے۔ شرح سود میں اضافہ اور نئے سال میں بھی مزید مہنگائی ہونا اِس لیے بھی یقینی نظر آرہا تھا کہ ہم نے سال رواں کا آغاز ہی ملکی سیاست میں ہیجان برپا کرکے کیا جو آج تک جاری ہے، مرکز میں حکومت بدل گئی، پنجاب میں بھی اقتدار کے لیے کشمکش جاری رہی اسی دوران تاریخ کا بدترین سیلاب آیا جو بچی کھچی آس اور امیدیں بھی بہا لے گیا لہٰذا سیاسی کشمکش کے نتائج ایسے ہی برآمد ہونے ہیں جیسا سٹیٹ بینک آف پاکستان عندیہ دے رہا ہے۔ شرح سود بڑھانے کا ایک اور مقصد بھی ہے جو درحقیقت معیشت کی دگرگوں حالت کا بھی عندیہ دیتا ہے کہ اِس فیصلے کا دوسرا مقصد بڑے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستانی بینکوں میں سرمایہ جمع کرانے کے لیے راغب کرنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ شرح سود کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کار اپنا سرمایہ پاکستانی بینکوں میں جمع کرائیں اور اس کے نتیجے میں نظام مملکت چلانے کے لیے آسانی میسر آئے جو سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مشکل سے مشکل ہوتی جارہی ہے لیکن ہماری کشتی کسی بھی کنارے لگنے کی بجائے بیچ سمندر کے تندو تیز لہروں میں ہچکولے بھی کھارہی ہے اور طرفین ڈوبنے کے خطرے سے بے خوف و بے نیاز ایک دوسرے کو زیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں حالانکہ اسی کشتی میں پوری قوم بھی سوار ہے۔ ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، ہمیں برملااعتراف کرنا چاہیے، ہمارے پاس اِس کو بچانے کے لیے عارضی دائو پیچ کے سوا کوئی چارہ نہیں یہ بھی ہم بخوبی جانتے ہیں کیونکہ اِس مشکل معاشی بحران سے نکلنے کے لیے دیر پا معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے
جس کا ہمیشہ سے ہمارے ہاں فقدان رہا ہے، ہر حکومت نئی معاشی پالیسیاں ترتیب دیتی ہے، پس معیشت کا وہی حال ہونا ہوتا ہے جواب تک ہوچکا ہے۔ سیاست دان معاشی حالات کی سنگینی کا زبانی ادراک تو کرتے ہیں مگر ان کی انا ّ انہیں مل بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتی۔امسال درآمدات 20.6 ارب ڈالراور برآمدات9.8رہیں اور ملک میں سیاسی عدم استحکام برقرار رہا تو خدانخواستہ برآمدات اِس سے بھی نیچے جاسکتی ہیں، ایسا نہیں کہ صرف عامۃ الناس یعنی ہم اور آپ ہی یہ حقیقت جانتے ہیں، دراصل وہ بھی بخوبی جانتے ہیں جو ارباب اختیار ہیں لیکن اِس معاشی مسئلے کا طویل اور دیرپا حل اختیار کرنے کے لیے سیاسی قیادت یعنی حزب اقتدار اور حزب اختلاف سنجیدگی کے ساتھ تیار نظر نہیں آتی کیونکہ سیاست کو ریاست کے برابرسمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ سیاست تو ہمہ وقت ہوتی نظر آتی ہے لیکن ریاست اور ریاستی امور ترجیحات میں کہیں نیچے ہوتے ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت نے ملک کو معاشی مسائل سے باہر نکالنے کا دعویٰ کیا اور اِسی کو بنیاد بناکر اقتدار حاصل کیا پس معاشی حالات کیونکر بگڑ رہے ہیں حالانکہ مفتاح اسماعیل کی جگہ اسحق ڈار لے چکے ہیں۔ عام پاکستانی تو مہنگائی کی وجہ سے نحیف و لاغر ہوچکا ہے اور درحقیقت عوام کے لیے ہر سہولت ناپید ہوچکی ہے اور اگلے سال جب مزید مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا تو عامۃ الناس کا سراپا احتجاج ہونا فطری عمل ہے۔ اگرچہ عالمی سطح پر کساد بازاری سی صورت حال ہے اور خطے کے حالات خصوصاً روس یوکرین جنگ نے بھی معاشی مسائل پیدا کئے ہیں اور پوری دنیا میں افراتفری سی صورت حال ہے مگر دیکھا جائے تو وہاں حکومتیں سنجیدگی کے ساتھ چیلنجز سے نبرد آزما بھی ہورہی ہیں مگر ہمارے ہاں سیاسی عدم استحکام ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا اور افسوس کہ جنہیں ہم بزرگ سیاست دان سمجھتے ہیں وہی حالیہ دنوں میں سیاسی دائو پیچ آزمارہے ہیں ، اُن کی دلچسپی کا سامان اپنی جگہ لیکن ملک و قوم جن حالات سے گذر رہے ہیں کسی غیر ملکی طاقت نے آکر باہر نہیں نکالنا لہٰذا انہی کو ترجیحات بدلنا پڑیں گی کیونکہ موجودہ معاشی سست روی کے اس دور میں مہنگائی کو مسلسل عالمی اور ملکی رسدی دھچکوں کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ تحریک مل رہی ہے جس سے لاگت میں اضافہ ہورہا ہے، پھر ان دھچکوں کے اثرات وسیع تر نرخوں اور اجرتوں پر پڑرہے ہیں جس کی بنا پر مہنگائی کی توقعات اپنے مقام سے ہٹ سکتی ہیں۔ شرح سود بڑھنے سے لوگ کاروبار کے جھنجھٹ میں پڑنے کی بجائے بینکوں میں پیسہ جمع کرانے کو ترجیح دیں گے نتیجے میں مارکیٹ سے پیسہ نکل کر بینکوں میں چلا جائے گا اور روزگار کے مواقعے مزید کم ہوں گے، پس یہ تو طے ہے کہ ایسے عارضی حل ملکوں کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کافی نہیں ہوتے، جب بحرانوں سے نمٹنا ہو تو سب سے پہلے خلوص نیت کاہونا ضروری ہے جس کا ہمارے ہاں فقدان نظر آتا ہے، ہم معاشی ، سماجی اور سیاسی مسائل کو سابقین سے جوڑ کر بری الذمہ ہونے کی طویل تاریخ و روایت رکھتے ہیں لہٰذا شرح سود اور مہنگائی میں متوقع اضافہ جیسی افسوس ناک خبریں عامۃ الناس کے لیے نئی نہیں ہیں۔ ملک کے معاشی حالات اور عوام بار بار متوجہ کررہے ہیں، مگر پھر بھی ارباب اختیار متوجہ نہیں ہورہے۔ مہنگی ترین بجلی اور گیس، ٹیکس کا بے ترتیب نظام اور بلند شرح سود کے ساتھ ہم برآمدات بڑھانے کی امید رکھتے ہیں، جو مقامی چھوٹا سرمایہ دار بینک سے زیادہ شرح سود کا قرض لے گا اس کی تیار کردہ ہر شے مقامی منڈی میں مہنگی فروخت ہوگی اور جب عالمی مارکیٹ میں جائے گا تو نسبتاً کم قیمت اشیا پہلے ہی فروخت کے لیے دستیاب ہوں گی، لہٰذا ریاستی معاملات پر ہمارے قائدین کی سنجیدگی اور توجہ کا لب لباب اور نتیجہ آج ملک و قوم بھگت رہے ہیں اور قائدین کا اختلاف بحرانوں سے نبرد آزما ہونے سے متعلق قطعی نہیں بلکہ حصول اقتدار کے لیے ہے، پاکستان تحریک انصاف کو موجودہ اتحادی حکومت نے ناکام ترین حکومت قرار دیا لیکن اِن کے اپنے ہی دور میں معاشی حالات سابقہ حکومت سے بدتر ین ہیں اور عام پاکستانی بھی سوچنے پر مجبور ہیں کہ سابقہ اور موجودہ حکومت کے بعد اب کون مسیحا آئے گا؟ وطن عزیز بیک وقت کئی بحرانوں کا سامناکررہا ہے لیکن موجودہ حکومت کی بھی کوئی حکمت عملی بظاہر ایسی نظر نہیں آرہی جس کو معاشی استحکام کی طرف اٹھایاگیا پہلا قدم قرار دیا جاسکے، ہر طرف سے معاشی ڈیفالٹ کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے لیکن حکومتی سطح پر اِس کے برعکس دعوے کئے جارہے ہیں مگر سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ ملکی خزانے کے درون خانہ حالات کی خاموش عکاسی کررہی ہے جو قطعی اطمینان بخش معلوم نہیں ہوتے۔ ڈیفالٹ کے منڈلاتے خطرات، تاریخ ساز مہنگائی کا طوفان، سیلاب کی تباہی سے اناج کا قحط کے خطرات ہمہ وقت موجود ہیں اور ہر نئے دن کے ساتھ اِن میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے مگر اِن سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہماری تیاریاں ناکافی ہی نہیں غیر تسلی بخش بھی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ بحرانوں کا مقابلہ عارضی اقدامات سے نہیں ہوتا بلکہ اِس کے لیے مستقل پالیسیوں اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہے مگر ہمارے یہاں اِن کا ہمیشہ سے فقدان رہا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ نئی مانیٹری پالیسی کے نتائج ارباب اختیار کو بھی متوجہ کریں گے۔