ColumnKashif Bashir Khan

عوام کو ایجنڈا بتائیں! کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

پاکستان کے عوام آج تک غریب،بے بس اور بنیادی حق سے محروم کیوں ہیں؟یہ وہ سوال ہے جو آج دنیا بھر کے رہنے والوں کی زبانوں پر ہے۔ اس تلخ حقیقت کا جواب مشکل نہیں لیکن پاکستان کے حکمران اور ارباب اختیار اس کا جواب دینے سے گریزاں ہیں۔گریزاں اس لئے ہیں کہ عوام کی محرومیوں اور غربت کے ذمہ دار وہ خود ہیں۔ پاکستان کو ایک علیحدہ آزاد مملکت بنانے والوں کا مقصد یہاں صرف اور صرف انصاف پر مبنی نظام کو نافذ کرکے مسلمانوں اور اقلیتوں کو یکساں طور پر زندگیاں گزارنے کے مواقعے فراہم کرنا تھا۔ آزادی حاصل کرنے کے فوری بعد اسلاف کی عظیم جانی ومالی قربانیوں کو فراموش کر کے ملک پاکستان میں لوٹ مار اور مار دھاڑ کا نظام رائج کر کے ریاست پاکستان کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔پاکستان کے ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمیں ندامت اور تلخیوں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ہجرت کر کے آزاد ملک میں آنے والوں کے ساتھ ظلم و ستم کے پہاڑ تو اس وقت ہی توڑ دیئے گئے تھے جب سرحدکے اس پار اپنی املاک چھوڑ کر، اپنے پیاروں کی جانوں کی قربانی دے کر آزاد ملک میں آنے والوں کے ساتھ ان کی املاک کے کلیم میں بے ایمانی کی گئی اور انہیں ان کے جائز حق سے محروم کر کے آزادی سے قبل متوسط طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو غریب بنا کر بے آسرا چھوڑ دیا گیا اور وہ آزاد ملک میں اپنے سروں کی چھتوں سے محروم ہو گئے تھے۔
بے پناہ قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال پاکستان کے عوام کو ہمیشہ ہی ڈگڈگی بجانے والوں نے اندھیرے میں رکھ کر اپنے اقتدار و مالی مفادات کیلئے استعمال کیا۔اگرہم عوام کے اس استحصال اور معاشی قتل عام کا ذمہ دار صرف سیاسی حکمرانوں کو قرار دیں تو یہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کو بیان کرنے میں شدید بد دیانتی ہو گی۔پاکستان کو مال مفت کی طرح دل بے رحم کے ساتھ لوٹنے والے اور آج کی تشویشناک حالت میں پہنچانے والوں میں بیوروکریسی،عسکری حکمران اور سیاستدان برابر کے شریک ہیں۔جو ملک قائد اعظم نے جمہوری اقدار کیلئے بنایا تھا اسے غیر جمہوری اور آمریت کی گود میں ڈالنے والے اوپر لکھے تمام ہی طبقات تھے۔ عوام تو ہمیشہ ہی تماشائی بنے رہے۔پاکستان میں کرپشن کوئی نیا مسئلہ نہیں ، ایوب خان کے دور میں گندھارا انڈسٹریز اور صنعتیں لگانے کے نام نہاد دھندے میں کرپشن کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ایوب خان کے ہی دور میں پاکستان کے مشہور زمانہ 22 امیر ترین خاندان سامنے آئے تھے جنہوں نے ملکی وسائل و صنعتوں پر اجارہ داری قائم کی ہوئی تھی۔عوام تو اس دور میں بھی بے بس اور محروم ہی تھی۔ایوب خان نے بھی اقتدار سے رخصتی کے وقت عنان اقتدار اپنے بنائے ہوئے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو سونپ کر اس ملک کے ساتھ وہ کیا جو دنیاکی تاریخ میں کم ہی ہوا ہو گا۔
پاکستان اپنے معرض وجود میں آنے کے ساتھ ہی دو حصوں پر مشتمل تھا،مغربی اور مشرقی پاکستان، یہ تقسیم اس لئے بھی مشکل ترین تھی کہ ان دو حصوں
کے بیچ میں قریباً ایک ہزار میل کے رقبے پر ہمارا ازلی دشمن بھارت تھا۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے دونوں حصے بھائیوں کی طرح رہتے لیکن ایسا ہو نہ سکا اور ہم نے صرف اس لئے مشرقی پاکستان کو بلکہ وہاں رہنے والے عوام کو ان کے حق سے محروم کرنا شروع کر دیا کہ اقتدار 1958 کے بعد مغربی پاکستان کے پاس تھا(ایوبی آمریت)۔ جب دو بھائیوں میں سے ایک جو بڑا بھی ہو اور طاقت رکھتا ہو چھوٹے سے مسلسل زیادتی کرتا ہو تو لا محالہ ایک دن چھوٹا بھائی بھی گھر چھوڑ کر علیحدہ ہو جاتا ہے اور یہاں تو دنیا کی اس وقت کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے کروڑوں عوام(مشرقی پاکستان)کا معاملہ تھا، ابھی چند یوم قبل ہی پاکستان کے 29نومبرکو ریٹائر ہونے والے سپہ سالار نے مشرقی پاکستان پر جو بیان دیا وہ میری دانست میں غیر ضروری اور بے وقت کی راگنی تھی۔ اس بات سے اتفاق کرنا لازم نہیں ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب صرف سیاسی تھے۔اگر مشرقی پاکستان کی1971 کی تاریخ کا بغور جائزہ لیں تو صاف معلوم پڑتا ہے کہ ایوبی آمریت میں ہی ڈھاکہ میں طالب علموں کا جو قتل عام ہوا تھا اس نے بعد میں شعلوں کو ہوا دی تھی اور بنگالی زبان سے شروع ہونے والے جھگڑے نے ایک ملک کے دو حصوں کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ہمیں ایک حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ 1971میں حکمران کون تھا اور قائداعظم کے فرمودات کے خلاف اس وقت کی عسکری قیادت سیاست کر رہی تھی اور جنرل آغا محمد یحییٰ خان صدر پاکستان بھی تھے۔خیر گیا وقت اور گرا ہوا پانی واپس نہیں آتا۔ پاکستان کے عوام آج جس درد،بے حسی،محرومی اور معاشی مصیبت کا شکار ہیں اس کا اندازہ اشرافیہ، بیوروکریسی،سیاست دان اور اہم عہدوں پر بیٹھے تمام ہی طبقات کو نہ کبھی تھا اور نہ ہی اب ہے۔ روٹی، کپڑا اور مکان،قرض اتارو ملک سنوارو۔ریاست مدینہ اور دوسرے دلکش نعروں کے علاؤہ عوام کو آج تک کچھ نہیں دیا گیا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مفت صحت کارڈ کی سہولت عوام کو دی گئی جو قابل داد ہے لیکن پاکستان آج جس قابل رحم معاشی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے اس میں یہ سب بھی پیچھے چلا جاتا ہے اور عوام سماجی، معاشی اور معاشرتی انصاف کے متلاشی ہیں۔
اس قوم کو آزادی کے 75 سال بعد بھی مسیحا کی تلاش ہے۔ہم اپنا مقابلہ دنیا کے دوسرے ممالک سے تو کرتے ہیں لیکن ان کے ریاست کو چلانے کے پیمانے اور اصول یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں، اداروں کے ٹکراؤ کی حامل ریاست اور شخصیات کو پوجنے والی قوموں کا شاید ایسا ہی حال ہوتا ہو گا جو اس وقت پاکستان کا ہے۔جیسے کپڑوں کوصاف کرنے کیلئے ڈرائی کلین کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ریاست چلانے والوں کی ڈرائی کلیننگ بھی لازمی عنصر ہے ورنہ ریاست میں ایسی ملاوٹ ہوتی ہے جیسی آج پاکستان میں ہے۔
میرا مقصد حقیقی احتساب سے ہے،وہ احتساب نہیں جو مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے نیب اور احتساب سیل وغیرہ جیسے ادارے کرتے رہے،آج جب دو دنوں کے بعد پاکستان کی عسکری قیادت تبدیل ہو رہی ہے اور جلد یا بدیراکتوبر 2023 تک انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں تو سوچنا ہو گا کہ بظاہر جس سیاسی جماعت تحریک انصاف کو پاکستان بھر میں عوام کی بھرپور پزیرائی حاصل ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس کے پاس عوام کی زندگیوں کو اس بدترین گرداب سے نکالنے کے تناظر میں مستقبل کا کیا پروگرام یا ایجنڈا ہے؟اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ عسکری قیادت تبدیل ہونے کے بعد پاکستان مین سیاسی منظر نامہ یکسر تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے اور پچھلےآٹھ ماہ میں اتحادی حکومت یکسر ناکام ہو چکی ہے اور اس کی ناکامی کی واحد وجہ اس اتحادی حکومت کا عوامی تائید سے عاری ہونا ہے۔ملک میں معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے ورنہ ماضی میں سویت یونین جیسی سپر پاور کا انجام سب کے سامنے ہے۔سیاسی استحکام کیلئے عوامی کی حقیقی نمائندہ حکومت کا ہونا اشد ضروری ہے اور تادم تحریر عوام کا لاکھوں کی تعداد میں راولپنڈی اکٹھے ہونے کی خبریں ہیں جو نئے انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جانےوالےسپہ سالار کا عسکری ادارے کو سیاست سے دور رکھنے کا بیان خوش آئند ہے اور اسے ثابت کرنے کیلئے بھی عسکری ادارے کو کافی وقت اور اقدامات درکار ہوں گے۔آج جب وفاقی حکومت کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے اور پاکستان کے پہاڑ جیسے مسائل کا واحد حل نئے لیکن شفاف انتخابات ہیں تو وفاقی حکومت کو اپنی جھوٹی اّنا کے خول سے باہر نکل کر نئے انتخابات کا اعلان کرنا ہو گا اور عمران خان صاحب کو بھی حکومت میں آنے کے بعد(اگر وہ انتخابات جیتتے ہیں)اپنے معاشی پروگرام کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ عوام کو علم ہو سکے کہ اگر وہ انہیں اقتدار میں لاتے ہیں تو وہ75 سال سے بنیادی سہولتوں سےمحروم اور بے بس قوم کیلئے کیا کریں گے۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ اس نازک وقت میں ملک و قوم کا سوچا جائے ورنہ بہت دیر ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button