ColumnNasir Sherazi

روزِ گریہ سے ذرا پہلے ! .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

لانگ مارچ شروع ہوچکا ہے، کچھ لوگ اسے لونگ مارچ کہتے ہیں، یہ اس تعریف پر بھی پورا اُترتا ہے، مارچ کیلئے تاریخ پر تاریخ دی گئی وجہ اس کی صرف ایک تھی وہ یہ کہ سائفر کی جان نکل چکی تھی جبکہ ابتدائی منصوبہ بندی یہ تھی کہ سائفر لانگ مارچ میں جان ڈالے گا نئی منصوبہ بندی کے مطابق بادی النظر میں یوں لگتا ہے جیسے کسی کی جان لیکرمارچ کو نئی زندگی دینے کا فیصلہ ہوا۔ قرعہ کسی پارٹی راہنما کے نام بھی نکل سکتا تھا لیکن قوم کو اور دنیا بھر کو یہ باور کرانا مشکل ہوتا کہ مرنے والے کی جان خان کی دشمنی میں لی گئی ہے لہٰذا بہت سوچ سمجھ کر شخصیت اور ہدف تبدیل کیاگیا۔ دستیاب کہانی کے مطابق جونہی اطلاع ملی کہ ہدف کا کام تمام ہوگیا ہے مارچ کا اعلان ہوگیا، اِس ظلم اور بیہمانہ قتل نے اہل پاکستان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا لیکن ایک بیان نے ساری کہانی کا رخ موڑ دیا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ارشد شریف نے ان سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا، وہ ان سے رابطے میںتھا، انہوں نے ہی اُسے ملک چھوڑ جانے کاکہا، حیرت کی بات ہے اہل پاکستان کو آزادی دلانے کی بات کرنے والے اور دنیا بھر کو سچ کے ساتھ کھڑا ہونے کی تلقین کرنے والے اپنے اس ساتھی کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے اور اسے ملک چھوڑ جانے کا مشورہ دینے کے ساتھ گلے سے اتارنے کے لیے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کس طرح سرگرم رہے اس کی تفصیل ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر اپنی پریس کانفرنس میں کھول کر بیان کرچکے ہیں۔ ارشد شریف کو صوبہ خیبر سے پروٹوکول میںرخصت کیاگیا۔
وہ جماعت وہ لیڈر جس کی صوبہ خیبر میں حکومت ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی حکومت ہے وہ اس قابل بھی نہ تھی کہ ایک صحافی کی حفاظت کو یقینی بناسکتی، ارشد شریف کو سرکاری ملازمت دے کر معاشی تحفظ اور سکیورٹی دے کر اس کی جان کا تحفظ یقینی بنایا جاسکتا تھا۔اُسے دونوں صوبائی حکومتوں میں سے کسی بھی ایک مشیر مقرر کیا جاسکتا تھا اور سب سے آسان بات وہ جس ادارے میں خدمات انجام دے رہا تھا وہ ادارہ اور اس کے مالکان یہ کام خود بھی کرسکتے تھے۔ مالکان چینل عمران خان سے براہ راست رابطے میں تھے،ایک ذریعے کی اطلاع کے مطابق انہوں نے ہی سب سے پہلے اس قتل کی اطلاع خان کو پہنچائی، ایک خون ناحق ہوچکا یہ چھپ نہ سکے گا، قاتل تمام تر ہوشیاری کے باوجود نشان چھوڑ گئے ہیں، جس کے ذریعے قاتلوں تک پہنچنا ممکن ہے۔ اعلیٰ اختیاراتی اور اس کام میں ماہر تحقیقاتی ٹیم
کے ارکان کینیا پہنچ چکے ہیں، انہوں نے اپنا کام شروع کردیا ہے، جرنیلوں کی جوڑی نے جو تفصیلات قوم تک پہنچائی ہیں وہ حیرت انگیز ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا ہے کہ چینل کے مالک کو تفتیش میںشامل ہونا چاہیے جبکہ چینل کے مالک فی الحال اس پر تیار نظر نہیں آتے لیکن جوں جوں تفتیش اورتحقیق آگے بڑھے گی گمان ہے کہ ایک وعدہ معاف گواہ رضا کارانہ طور پراپنی خدمات پیش کردے گا۔ مزید دو ٹی وی اینکرز کوبھی راتوں رات ملک سے باہر بھجوا دیا گیا ہے، تازہ ترین لانگ مارچ، چند برس قبل والے لانگ مارچ کی طرح سہ پہر سے لیکر رات تک لاہور میں مٹر گشت کرتا رہا، شرکا ء مارچ تعداد میں کم تھے مگر چندگھنٹوں بعد ہی انہوں نے اپنے اپنے گھر وں کی راہ لی اس اثنا میں طاہر لاہوتی بھی تھک چکاتھا وہ کم تعداد کے معاملے پر اپنے ساتھیوں پر برستا رہا لیکن مصاحبین و نائبین اسے دلاسا دیتے رہے کہ بہت جلد بہت سے لوگ آنے والے ہیں جن سے رنگ محفل دوبالا ہوجائے گا۔ دھرنے اور لانگ مارچ میں شرکت کیلئے آنے والوں کے جلد چلے جانے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روح کو تڑپانے اور قلب کو گرمانے والے بہت کم تھے، جو تھے ان کی ایکسپائری تاریخ ان کے چہروں پرلکھی تھی، یوتھ کے لیے ان میں کوئی کوشش نہ تھی۔
ہر ضلع سے کم ازکم چھ ہزار کارکنوں کولانے کا ہدف پورا نہیں ہوسکا اسی وجہ سے پہلے روز راوی روڈ لاہور جبکہ دوسرے روز گوجرانوالہ سے بہت پہلے مارچ روک کر شب بسری کا فیصلہ کیاگیا اب امیدوں کا مرکز صوبہ خیبر سے آنے والے جتھے ہیں، جن سے فون پر گفتگو کی آڈیو لیک ہوچکی ہے، تحریک انصاف کے ایک راہنما بندوں اور بندوقوں کے انتظامات کے بارے میں آگاہی حاصل کررہے تھے۔
لانگ مارچ کے اخراجات کا تخمینہ ابتدا میں تین ارب روپے کے قریب تھا، اب صورت حال کے پیش نظر واضح ہے کہ اتنے اخراجات نہیں ہوں گے، گذشتہ مارچ میں اصل رنگ تو جناب طاہر القادری کے کارکنوں نے جمایا تھا، اِس مرتبہ ان کی کمی پوری کرنے کے لیے ایک اور مذہبی تنظیم سے رابطے کئے گئے ہیں، انہیں لاتعداد سبز باغ دکھائے گئے ،یہاں تک کہاگیا کہ مارچ کامیاب ہوگیا تو اس کا سہرا آپ کی جماعت اور آپ کی قیادت کے سر ہوگا لیکن مذکورہ جماعت کے سربراہ کے ساتھ ملاقاتوںمیں انہوں نے باتیں تو تمام غور سے سنیں لیکن اس جہاد میں حصہ لینے سے معذوری ظاہر کی۔
دم توڑتے اور رینگتے ہوئے مارچ میں روح پھونکنے کے لیے شیخ رشید نے اپنے قتل کی پیش گوئی کی ہے،کوئی انہیں کیوں قتل کرے گا یہ تووہ خود ہی بہتر بتاسکتے ہیں لیکن ہمارے دشمن اول کی خفیہ ایجنسی مارچ کی لمحہ بہ لمحہ مانیٹرنگ کررہی ہے وہ پاکستان کو انتشار کی طرف دھکیلنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے۔
لانگ مارچ کا ذوق و شوق رکھنے والوں کو چشم تصور سے کارساز کراچی دھماکے کو دیکھنا چاہیے۔ تخریب کاروں کے منصوبے کے مطابق اس کنٹینر کو اڑانے کا منصوبہ تھا جس پر پیپلز پارٹی کی صف اول کی قیادت سوار تھی، تمام قائدین اس دھماکے میں بال بال بچے،موت انہیں چھوکر گذر گئی لیکن درجنوں بے گناہ کارکن لقمہ اجل بن گئے۔ کسی حادثے کسی سانحے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا کوئی بھی سانحہ کسی بھی وقت باردگربھی ہوسکتا ہے۔
دانشمند پرندوں نے ایک ڈالی سے دوسری ڈالی کی طرف پرواز شروع کردی ہے، خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ایک بڑی تعداد پارٹی چھوڑنے والی ہے، اختلافات واضح اور شدید ہیں ان کے ساتھی افواج پاکستان کی تضحیک کے معاملے پر ناراض ہیں۔ فیصل واوڈا انہی میں سے ایک ہیں، وہ کہتے ہیں تین سانپ عمران خان کو کسی اور ڈگر پر لے جارہے ہیں، انہوں نے سانپوں کے نام ابھی راز میں رکھے ہوئے ہیں۔
سورج گرہن تو ختم ہوا لیکن اس کے اثرات باقی ہیں، سورج گرہن مارچ کو نگل گیا ہے، ارشد شریف کی غائبانہ نماز جنازہ سے شروع ہونے والا مارچ رک رک کر آگے بڑھ رہا ہے، خدا نہ کرے کسی اورجنازے پر جاکر رکے، اکلوتے بیٹوں کی مائیں اور اکلوتے بھائی کی سات سات بہنیں روز گریہ سے ذرا پہلے اپنے اور اپنے جگرگوشوں کے بڑھتے قدم روک لیں۔

جواب دیں

Back to top button