تازہ ترینخبریں

265 برس بعد کھولے گئے لو لیٹرز میں کیا لکھا ہوا تھا ؟

 

 

برطانیہ اور فرانس کے درمیان 18ویں صدی کی جنگ کے دوران فرانسیسی فوجیوں کو لکھے گئے خطوط کو 265 برس بعد کھولا گیا اور ان کا مطالعہ کیا گیا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نہ کھولے جانے والے خطوط نے 1760 کی دہائی میں نیوی سیلرز اور ان کے خاندانوں کی زندگیوں کے بارے میں نادر معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ خطوط ایک سینیئر نیول افسر کی بیوی سے لے کر ایک بوڑھی ماں نے لکھے جو اپنے بیٹے کی طرف سے جواب نہ دینے پر شکایت کر رہی تھیں۔
رائل نیوی نے پیغامات کو سات سالہ جنگ کے دوران اپنے قبضے میں لے لیا۔ ایک عالمی تنازعہ جو 1763 میں ختم ہوا۔

1758 میں ایک فرانسیسی جنگی جہاز کے لیفٹیننٹ لوئس چیمبرلین کی بیوی میری ڈوبوسک نے اپنے شوہر کو لکھا کہ ’میں آپ کو لکھتے ہوئے پوری رات گزار سکتی ہوں، میں آپ کی ہمیشہ کے لیے وفادار بیوی ہوں۔ شب بخیر۔ یہ آدھی رات ہے۔ میرے خیال میں اب میرے آرام کرنے کا وقت ہے۔‘
کیمبرج یونیورسٹی کے محققین کو معلوم ہوا کہ میری کو معلوم نہیں تھا کہ ان کے شوہر کے جہاز کو انگریزوں نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔
لوئس کو کبھی بھی یہ خط موصول نہیں ہوا اور اگلے سال ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔
27 جنوری 1758 کی ایک اور یادداشت میں نارمنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان ملاح نکولس کوئسنل کی 61 سالہ والدہ مارگریٹ ان سے رابطے کی کمی کی شکایت کر رہی تھیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’میں اپنے آپ سے زیادہ آپ کے بارے میں سوچتی ہوں۔ جو بھی صورتحال ہے، میں آپ کو رب کی برکتوں سے بھرے نئے سال کی مبارک دیتی ہوں۔‘
’مجھے لگتا ہے کہ میں قبر میں جانے والی ہوں، میں تین ہفتوں سے بیمار ہوں۔ میری نیک تمنائیں ورین (ایک جہاز کے ساتھی) کو پہنچاؤ، یہ صرف اس کی بیوی ہے جو مجھے تمہاری خبریں پہنچاتی ہے۔‘

اُس وقت جن خطوط کی فوجی اہمیت نہیں تھی انہیں برطانوی حکام نے محفوظ شدہ دستاویزات میں رکھ دیا۔ پھر کیمبرج یونیورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ریناؤڈ موریکس کی توجہ اس طرف مبذول ہوئی۔
’میں نے تجسس کی وجہ سے خطوط سے بھرا ڈبہ منگوایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ میں ان ذاتی پیغامات کو پڑھنے والا پہلا شخص ہوں۔ ان کے وصول کنندگان کو یہ موقع نہیں ملا۔ یہ بہت جذباتی لمحہ تھا۔‘
1758 میں فرانس کے ایک تہائی نیوی سیلرز کو انگریزوں نے پکڑ لیا تھا۔ سات سالہ جنگ کے پورے عرصے میں تقریباً 65 ہزار انگریزوں کے ہاتھوں قید ہوئے۔ کچھ بیماری اور غذائی قلت سے مر گئے جبکہ دوسروں کو رہا کر دیا گیا تھا۔
موریوکس نے کہا کہ ’خطوط واحد ذریعہ ہوتے تھے جن سے اہل خانہ ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ خطوط ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سب زندگی کے بڑے چیلنجوں سے کیسے نمٹتے ہیں۔‘
’آج ہمارے پاس زوم اور واٹس ایپ ہیں۔ 18 ویں صدی میں لوگوں کے پاس صرف خطوط ہوتے تھے، لیکن وہ جو لکھتے تھے وہ بہت مانوس محسوس ہوتا ہے۔‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button