راجن پور کا حسن
شفقت اللہ مشتاق ڈپٹی کمشنر راجن پور تعینات ہوئے تو ایک بہت ہی پیارے دوست اور متعدد قومی اخبارات میں اہم ذمہ داری نبھانے والے شفقت حسین شفقت کا فون آگیا، پہلے مبارک باد دی، بعد میں خبر بتائی اور ساتھ ہی راجن پور جانے کا پروگرام بنانا شروع کر دیا اور پھر آخر کار ہم دونوں نے تقریبا ایک ماہ بعد راجن پور جانے کا پروگرام بنا ہی لیا، آدھے سے زیادہ راستہ ملتان تک ہم نے ریلوے پر طے کرلیا اور باقی کا راستہ کوچ پر۔ راستے میں جاتے جاتے میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی سوچ کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکا کہ اس بار انہوں نے چن چن کر ایسے افسروں کو اہم ذمہ داریاں دے رکھی ہیں جو حسن اخلاق، تدبر، برداشت اور خدمت خلق کا بہترین نمونہ ہیں۔ آج کی بیوروکریسی کی شاندار شخصیت سید طاہر رضاء ہمدانی سیکرٹری انفارمیشن اور کلچر پنجاب لگ چکے ہیں، معدنیات کے شعبہ میں بھی قابل فخر اور نوجوان جذبوں کے مالک بابر امان بابر تعینات ہیں، شاعر، ادیب، مفکر، قلم کار اور درویش انسان شفقت اللہ مشتاق راجن پور میں ڈپٹی کمشنر لگ گئے اسی طرح کے چند اور مثالی افسران بھی اہم عہدوں پر عوامی خدمت کی بے مثال شکل میں نظر آتے ہیں ان افسروں کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ وزیر اعلیٰ صوبہ میں اہم سیٹوں پر ایسے افسر تعینات کر رہی ہیں جو حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھ کر ان کی مشکلات کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ راجن پور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا حصہ ہے اور یہ پورا علاقہ پسماندہ کہلاتا ہے یہاں پر سرداری اور جاگیر داری نظام کا پوری آب و تاب سے چل رہا ہے۔ دریائے سندھ کے مغرب میں واقع راجن پور ضلع تین انتظامی سب ڈویژنز ( تحصیلوں) راجن پور، جام پور، روجھان اور 44یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔ راجن پور کی بنیاد مخدوم شیخ راجن شاہ نے 1770ء میں رکھی تھی اور 1982ء میں ضلع ڈیرہ غازی خان کے ساتھ شامل کیا گیا۔ راجن پور کے شمال میں ضلع ڈیرہ غازی خان، مغرب میں بلوچستان کا ضلع ڈیرہ بگٹی، مشرق کی طرف مظفر گڑھ اور رحیم یار خان اضلاع ہیں جبکہ اس کا جنوبی حصہ صوبہ سندھ کے ضلع کشمور سے سے ملا ہوا ہے۔ کوہ سلیمان ضلع کے مغرب میں اٹھتا ہے راجن پور پر موریہ سلطنت ہند،یونانی سلطنت، کشان سلطنت، گپتا سلطنت، سفید ہن کشانو، ہیفتھلائٹس، ترک اور ہندو شاہی سلطنتوں کی حکومت رہی، مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد سکھ سلطنت نے راجن پور ضلع پر حملہ کر کے
قبضہ کر لیا، سکھوں کے دور حکومت میں مسلمانوں کو پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ قیام پاکستان کے وقت اس علاقے کے مسلمانوں کی اکثریت نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی حمایت کی۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے بعد اقلیتی ہندو اور سکھ ہندوستان ہجرت کر گئے جبکہ ہندوستان سے آنے والے مسلمان مہاجرین ضلع راجن پور میں آباد ہوئے۔ ضلع راجن پور میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سرائیکی (76.67%)، بلوچی (17.77%)، اردو (2.61%)اور پنجابی (2.28%)ہے۔ ضلع کے بڑے قبائل میں جاٹ، آرائیں، راجپوت اور بلوچ ہیں۔ راجن پور میں کل 1160سرکاری سکول ہیں، ان علاقوں میں اعلیٰ تعلیم اور اچھی صحت کی سہولیات کا فقدان ہے، دور دور تک سرکاری ہسپتال اور کالج نظر نہیں آتے۔ غربت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے جبکہ بہت زیادہ پیسے والوں کی بھی ان علاقوں میں کمی نہیں ہے۔ کچے سے لیکر پکے تک اس پورے علاقے میں دل اور دماغ کا کوئی ہسپتال نہیں، اگر کسی کو ان امراض کا علاج کروانا ہو تو پھر انہیں لاہور، ملتان یا رحیم یار خان کا سفر کرنا پڑتا ہے۔
جو ہسپتال ہیں ان میں مریضوں کی بھر مار ہے۔ میں شاباش دیتا ہوں ان سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو جن کا اخلاق اور معیار کم نہیں ہوا۔ اور خاص کر سی ای او ہیلتھ راجن پور ڈاکٹر جام خلیل، جنہوں نے راجن پور کے ہسپتالوں کو ڈاکٹروں کی سیاسی غنڈہ گردی سے پاک کر دیا ہے۔ ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں آج بھی قبائلی سرداروں کا راج ہے اور انہی کا ہی سیاست اور ریاست میں عمل دخل نظر آتا ہے، یہی لوگ کسی اور کو آگے نہیں آنے دیتے، نہ کاروبار میں اور نہ ہی سیاست میں۔ یہاں تک کہ بسوں اور ویگنوں کے اڈے بھی انہوں سنبھال رکھے ہیں اور آج سے چند سال قبل ان اڈوں پر قبضے کے لیے ڈانگ سوٹے کا بھی اہتمام ہوتا رہا ہے۔ آج کے ترقی یافتہ اور جدید ترین دور میں بھی ان علاقوں کے کمشنر، ڈی سی، آر پی او اور ڈی پی او بعض معاملات میں بے بس نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ ڈی سی ایک پٹواری اور ڈی پی او تھانے کا منشی تک اپنی مرضی سے نہیں تبدیل کر سکتا۔ ان علاقوں میں غربت کا یہ حال ہے کہ لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی اور رہنے کو مکان تک میسر نہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ سیلاب متاثرین آج بھی سرکاری امداد کے ساتھ ساتھ غیبی امداد کی طرف نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ راجن پور صوفی بزرگوں اور اللہ والوں کی بھی دھرتی ہے، کوٹ مٹھن میں عظیم صوفی سرائیکی شاعر خواجہ غلام فریدؒ کا مزار ہے، جہاں ہر سال خواجہ غلام فریدؒ کی برسی پر ان کے ہزاروں مریدین آتے ہیں۔ اس مزار کا انتظام اب ملک کے معروف سیاسی اور مذہبی رہنما عامر فرید گوریجہ کے پاس ہے، جو مریدین کے دلوں پر راج کرتے ہیں، جنہوں نے کمال خوبصورتی سے اس بار کا عرس بھی منعقد کروایا۔ بستی عبداللہ جو مولانا محمد عبداللہ کے نام سے منسوب ہے اور عبدالرشید غازی کی آرام گاہ بھی راجن پور کے علاقہ بستی عبداللہ میں موجود ہے جبکہ فاضل پور میں عظیم پیر صوفی چن چراغ شاہ سائیں عرف غورے شاہ سائیں کا مزار ہے۔ فاضل پور علاقے کا تاریخی مقام ہے، فاضل پور ضلع راجن پور کے مرکز ( دل) میں واقع ہے۔ انگریز دور میں تعمیر ہونے والا ہرنڈ قلعہ بھی راجن پور کے قبائلی علاقے میں واقع ہے۔ راجن پور کے لوگ انتہائی ملنسار اور پیار کرنے والے ہیں۔ مٹھاس بھرے لہجے والے یہ سرائیکی لوگ اپنے حق کے لیے لڑ بھی نہیں سکتے، کیونکہ ان کے مقامی سیاستدان ان کا ساتھ نہیں دیتے۔ سرائیکی صوبہ بننا چاہیے اور ساتھ میں راجن پور میں مزید تحصیلیں بھی بننی چاہئیں۔ پرانی تہذیب دیکھنی ہو، رود کوہیاں دیکھنی ہوں تو داجل جیسا خوبصورت علاقہ دیکھ لیا جائے۔ گرمیوں میں مری جیسا ماحول دیکھنا ہو تو 4800فٹ بلند ماڑی پر ٹھنڈے ماحول سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ راجن پور ایک جنت ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں کے سیاستدانوں نے اسے جہنم بنا رکھا ہے، جہاں سے لوگ بھاگنا چاہتے ہیں لیکن مجھے امید ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے ان پسماندہ علاقوں کی تعمیر و ترقی کے لیے جن افراد کو تعینات کر دیا ہے وہ اپنے حصے کا کام ضرور کرینگے، خواہ جتنی مرضی رکاوٹیں ہوں۔ اسی لیے تو ایسے لوگوں کی تعیناتیوں پر دوست ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے ہیں۔