کیا آپ ’’ہنی ٹریپ‘‘ کا مطلب جانتے ہیں؟

تحریر : فیاض ملک
ہنی ٹریپ یا ہنی ٹریپنگ کیا ہے؟ پچھلے دنوں سے ایک بار پھر ’’ ہنی ٹریپ‘‘ کا ذکر اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر بہت چھایا ہوا ہے۔ جہاں تک ہنی ٹریپ کے لفظی معنی کا تعلق ہے تو میٹھے بول کے جال میں اپنے مخاطب کو پھنسانے کے عمل کو ہنی ٹریپ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت ہنی ٹریپنگ کا عمل رومانوی یا جسمانی تعلق بنا کر اپنے ہدف سے رقم بٹورنے یا اپنے دیگر مطالبات منوانے کو کہتے ہیں۔ کیمبرج ڈکشنری میں اس لفظ کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے، ہنی ٹریپ یا میٹھا جال لوگوں کو پھنسانے کیلئے ایک پرکشش چیز ہے، آپ کسی پلیٹ میں شہد ڈال کر کھلا چھوڑ دیجئے، مکھی آئے گی اور اس پر بیٹھے گی، اس کے پنجے شہد میں گڑ جائیں گے اور وہ پھر اڑ نہیں سکے گی، ویسے تو ہنی ٹریپ کی تاریخ بہت پرانی ہے، جسے مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیاں بھی ایک دوسرے کے ایجنٹوں کے خلاف ہتھیار کے طور استعمال کرتی رہی ہیں، لیکن اِن دنوں یہ معاملہ پاکستان میں بھی عام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے، جس سے ملک کے اکثر علاقوں میں لوگوں کو جھانسا دیا جا رہا ہے، جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں کچے کے ڈاکوئوں نے بھی ہنی ٹریپ اور منی ٹریپ کے ذریعے وارداتوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، پولیس کے مطابق ملک بھر سے تعلق رکھنے والے 40 سے 50افراد گزشتہ ایک سال میں ہنی یا منی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں ،کچے کے قریبی علاقوں گھوٹکی، کشمور، رحیم یار خان، صادق آباد کے علاوہ کراچی، فیصل آباد، بہاولپور، راولپنڈی اور لاہور کے شہری بھی ایسی وارداتوں کا شکار ہو رہے ہیں، ہنی ٹریپنگ کیلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے کہ فیس بک اور انسٹاگرام پر ڈاکو گروہوں کی خواتین مختلف لیکن مالدار لوگوں سے دوستی کرتی ہیں، سندھ میں ضلع گھوٹکی سے خواتین کی آواز میں بات کر کے لوگوں کو جھانسہ دے کر اغوا کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا، جو بعد میں شکارپور اور کشمور کے اضلاع تک پہنچ گیا۔ ہنی ٹریپ کی ابتدا گھوٹکی کے کوش قبیلے کے جرائم سے وابستہ ڈاکوئوں نے کی تھی، جو خود خواتین کی آواز میں بات کرتے تھے، کامیاب کارروائیوں کے بعد ڈاکوئوں نے باقاعدہ خواتین کو ان مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا، فون پر بات کرنے کیلئے ڈاکوئوں نے ایسی خواتین بھی رکھی ہوئی ہیں جو لوگوں کے ساتھ زیادہ تر سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتی ہیں اور کسی نہ کسی طرح سے لوگوں کو یہاں لانے کیلئے مختلف طریقے اپناتی ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ہنی ٹریپنگ کے انداز بھی بدلتے چلے گئے اور پھر سندھ اور پنجاب میں کچے کے ڈاکوئوں نے بھی خود کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر لیا ہے، ان ڈاکوئوں نے باقاعدہ طور پر اپنی ساتھی لڑکیوں کا ایک گروپ بنا رکھا ہے جن کا کام لوگوں کو سستے ٹریکٹر و دیگر اشیاء اور لاٹری انعام کا لالچ دے کر بلاتی ہیں اور پھر انہیں اغوا کر کے کچے کے علاقے یا دوسرے علاقوں میں لاکر ان کے ورثاء سے تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ اب ان ڈاکوئوں کا طریقہ واردات بھی بدلتا جا رہا ہے۔ اب ہنی ٹریپنگ کیلئے یہ سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم استعمال کرتے ہیں، بہت سارے لوگ ہنی ٹریپنگ کو دور جدید کی ایجاد قرار دیتے ہیں جبکہ اس کا استعمال زمانہ قدیم سے جاسوسی کیلئے کیا جاتا رہا ہے۔ جنگ میں فتح حاصل کرنے کیلئے اکثر حکومتیں عورتوں کے استعمال کو جائز سمجھتی ہیں، ان کیلئے دشمن ملک کے اہم کارندوں سے دفاعی راز اگلوانے کیلئے عورت سب سے بہتر ہتھیار تصور کیا جاتا ہے، اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ نت نئی ٹیکنالوجی کی ایجاد نے جاسوسی کے طور طریقے بھی بدل ڈالے ہیں تاہم ملکوں کے درمیان دوطرفہ جاسوسی کیلئے ہنی ٹریپنگ کا طریقہ اب پہلے کی نسبت کم ہو گیا ہے جبکہ گئے وقتوں میں تو جنگوں کی ہار جیت کا دارومدار بہت حد تک ہنی ٹریپنگ کے مرہون منت ہوا کرتا تھا۔ یہ سوال بہرحال اپنی جگہ اہم ہے کہ اچھے خاصے سمجھدار اور پڑھے لکھے اور خوشحال لوگ کسی خاتون کی باتوں میں کیسے آجاتے ہیں؟ اور بغیر خطرے کا احساس کیے، خاتون یا لڑکی کے گھر چلے جاتے ہیں یا کسی کو اپنے گھر بلا لیتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ حد سے زیادہ بڑھی ہوئی خود ستائی یا خود اعتمادی ہوتی ہے کہ شاید وہ یہ سوچتے ہوں کہ وہ کون سے بزنس ٹائیکون ہیں، جو وقت بے وقت کہیں جاتے ہوئے ڈریں؟ لیکن میرا خیال کچھ اور ہے۔ عام طور پر ہنی ٹریپ والے گروہ اس کام کیلئے خوب صورت لڑکیوں کو رکھتے ہیں اور فون پر بات کرنے کیلئے ایسی خواتین کو جن کی آواز اچھی ہو، مترنم ہو تاکہ بندہ آسانی سے پھنس سکے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ خوب صورت عورت مرد کی کمزوری ہے۔ یہ گینگ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا کر عورتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہنی ٹریپ کا شکار ہونیوالے کئی لوگ شاید اس زعم میں بھی ہوتے ہوں گے اور اس خوش فہمی کا شکار ہوں گے کہ جس خاتون یا لڑکی سے وہ ملنے جارہے ہیں، اس میں اتنی ہمت کہاں ہوگی کہ وہ اس پر ہاتھ ڈال سکے۔ میں اس کے پاس ضرور جائوں گا۔ عموماً سرکاری افسران کی پاس جو کسی اہم عہدے پر ہوتے ہیں یا کوئی بزنس کمیونٹی کا شخص یا کوئی اور اہم شخصیت جسے ہنی ٹریپ کرنا ہو تو ایسی عورتیں زبردستی لوگوں سے بے تکلف ہونے کی کوشش کرتی ہیں اور مرد کی فطری کمزوری سے فائدہ اٹھا کر جب وہ اسے کہیں ملاقات کے لیے بلاتی ہیں تو وہاں خفیہ کیمرے لگے ہوتے ہیں جو ہر حرکت کو ریکارڈ کر رہے ہوتے ہیں جب بے تکلفی کا معاملہ زیادہ آگے بڑھتا ہے تو کوئی کارندہ پستول لیے اندر آ جاتا ہے اور پھر موبائل پر ساری حرکات و سکنات جو ریکارڈ ہو گئی تھیں، صاحب کو دکھاتا ہے اور پھر رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ بصورت دیگر وہ اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پہ ڈالنے کی دھمکی دیتا ہے۔ تب اپنی عزت بچانے کیلئے اس کا مطالبہ پورا کر دیا جاتا ہے اور بدلے میں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دیتا ہے اور کوئی بھی اس کی ایف آئی آر درج نہیں کراتا۔ چیف ایگزیکٹو آفیسر محکمہ صحت ملتان ڈاکٹر فیصل قیصرانی بھی حالیہ دنوں میں مبینہ طور پر ہنی ٹریپ کا شکار ہو چکے ہیں، اسی طرح معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمر کو بھی ایک خاتون نے فون کر کے اغوا کروایا اور پیسے ہتھیائے گئے، پچھلے دنوں لاہور کے علاقہ کاہنہ میں لڑکی نے نوجوان حمزہ سے اپنے فلیٹ پر ناشتہ منگوایا اور جب وہ وہاں پر ناشتہ لیکر پہنچا تو تین مزید افراد فلیٹ میں گھس گئے اور اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد اس سے رقم اور موبائل فون چھین لیا۔ پولیس نے بتایا کہ ملزمان، نوجوان (باقی صفحہ5پر ملاحظہ کیجئے )
پر تشدد کرتے رہے اور خاتون ویڈیو بناتی رہی، واقعے کے بعد پولیس نے کائنات سمیت دیگر دو ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور میں بھی ہنی ٹریپ کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی ہنی ٹریپ کے بہت سے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن رپورٹ نہیں ہوئے اکثر لوگ تاوان دے کر گھر پہنچ جاتے اور خاموش رہتے ہیں، چند روز قبل بھی لاہور کی انویسٹی گیشن پولیس نے ہنی ٹریپ کے ذریعے لوگوں کو بلیک میل کر کے رقم ہتھیانے والے بین الاضلاعی گینگ کے مرد و خواتین سمیت 8ارکان گرفتار کئے ، پولیس کے مطابق اس گروہ میں شامل خواتین فون کر کے امیر لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتیں اور ملنے کیلئے مخصوص مقام پر بلاتیں، جہاں پر ساتھی ملزمان گن پوائنٹ پر لوگوں کی نازیبا ویڈیو بنا لیتے پولیس کا بتانا ہے کہ ملزمان متاثرہ لوگوں کی ویڈیو بنانے کے بعد نقدی، موبائل فونز اور دیگر قیمتی سامان بھی چھین لیتے، ملزمان متاثرہ شخص سے فون کروا کر ان کے عزیز و اقارب سے رقم منگواتے اور اپنے اکائونٹ میں ٹرانسفر کر لیتے پولیس کے مطابق ملزمان متاثرہ شخص سے مزید رقم ہتھیانے کیلئے متعلقہ تھانوں میں بداخلاقی کی ایف آئی آر بھی درج کروا دیتے تھے، یوں یہ ہنی ٹریپ بدستور شکار کی تلاش میں بچھا رہتا ہے، یہاں یہ بھی امر قابل ذکر ہے کہ ایسے ٹریپ کرنے کا تو کوئی قانون نہیں البتہ اغوا، ڈکیتی یا اغوا برائے تاوان جیسی سخت دفعات کے تحت کارروائی کی جاتی ہے، میں پھر وہی بات کہوں گا کہ عورت مرد کی کمزوری ہے۔ بہت کم مرد ہوتے ہیں جو اس معاملے میں صاحب کردار ہوتے ہیں اور کسی کے خصوصاً عورت کے بہکاوے میں نہیں آتے، لیکن ہر زبان پر ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ کسی عورت کے بلانے پر فوراً اس کے گھر پہنچ جانا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ آخر کوئی عورت ایسا کیا سحر گھول کر اپنی آواز میں پلا دیتی ہے کہ بندہ فوراً اس سے ملنے اس کے اپارٹمنٹ جا پہنچے، بہرحال مرد حضرات کو خصوصاً سرکاری افسران کو یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ کوئی خاتون ان سے بے تکلف بلاوجہ کیوں ہو رہی ہے، کیونکہ احتیاط علاج سے بہتر ہوتی ہے۔