ColumnImtiaz Aasi

جیل خانہ جات میں تبادلوںکا طوفان .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

حکومتوںکی تبدیلی کے ساتھ وفاق اورصوبوں میں انتظامی افسران کے تبادلوں کا لاامتناعی طوفان آجاتا ہے ۔وفاقی اور صوبائی سیکرٹریوں کے ساتھ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اوردیگرافسران کے ساتھ پولیس کے ایس ایچ اوز تک سب بدل دیئے جاتے ہیں۔ تبادلے کرنے والے مجازحکام من پسند تبادلے کرتے وقت اس پہلو کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ان ملازمین کے تبادلوں سے قومی خزانے پر کروڑوں روپے کا اضافی مالی بوجھ پڑ جائے گا۔سردار عثمان بزدار کے دورمیں مہینوں کی بجائے دنوں میں افسران کو تبدیل کرنے کی ایسی روایت پڑی کہ تبادلوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور کوئی شک نہیں کہ بہت سے افسران سیاسی حکومتوں کی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں ،ایسے افسران کے اوپرتعینات اعلیٰ افسران ان کے کاموں کی کڑی نگرانی کریں تو کوئی افسر قانون سے ہٹ کر کام کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔

تحریک انصاف کے دور میں پنجاب کی جیلوں کے افسران کو آئے روز بدلنے کی ایسی روایت پڑی کہ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کے تبادلوں کا طوفان تھمنے کو نہیں آرہا۔ہمیں حیرت ہےکہ انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات شاہد سیلم بیگ سیاسی حکومتو ں کی زد میںآنے سے کیسے بچے رہے وہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد اکتوبر میںریٹائرہو رہے ہیں۔گویا اس لحاظ سے وہ بہت خوش قسمت ہیں کہ وہ اپنے عہدے پر پانچ سال تک فرائض انجام دیتے رہے جس میں ان کی بصیرت کابڑا عمل دخل ہے۔محکمہ جیل خانہ جات میں اب تو تھانے کے ایس ایچ او کی طرح سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کو حکم مل جاتا ہے کہ وہ فلاں جیل چلے جائیں،ابھی چارج سنبھالے دو تین روز ہوتے ہیں انہیں اگلی جیل میں رپورٹ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ سردار عثمان بزدار کے دور میں آئی جی کیا ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ بے بس تھے۔ تمام جیل افسران کے تبادلے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ سے ہوتے تھے۔مرزا شاہد سیلم بیگ تو دو ماہ بعد سبکدوش ہو رہے ہیں، آئی جی کے عہدے کے لیے ابھی سے دوڑیں لگ گئی ہیں۔ایک پرانے آئی جی میاں فاروق نذیر جو جیل سروس کے واحد افسر ہیں جو گریڈ اکیس میں ہیں اور آج کل ایس اینڈ جی ڈی اے میں ممبر انکوائریز ہیں۔کوکب ندیم وڑائچ آئی جی رہ چکے ہیں اور وہ گذشتہ کئی سالوں سے وزیراعلیٰ معائنہ کمیشن کے ممبر ہیں۔میاں سالک جلال گریڈ بیس کے افسر اور ڈی آئی جی ہیڈکوارٹر ہیں اسی طرح مبشر محمد خان ملک گریڈ بیس میں آئی جی آفس میں ہیں اس لیے اب دیکھتے ہیں کہ قرعہ فال کس کے نام کا نکلتا ہے دوڑیں تو لگ گئی ہیں۔
جیل افسران کو اپنے تبادلوں کے لیے اسلام آباد جانے کی ضرورت نہیں، انہیں گجرات جانا پڑے گااورچودھری مونس الٰہی کی سفارش کارگر ثابت ہوتی ہے ۔چلیں آئی جی کا معاملہ ایک طرف رکھتے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹس کی پوسٹنگ کے لیے افسران سردھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ اطہر جان ڈار جیسے افسر محکمہ جیل خانہ جات میں ہیں جب وہ اڈیالہ جیل میں اسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ تھے، گھریلو اخراجات بھینس کا دودھ بیچ کرپورا کرتے تھے، وہ گذشتہ دو سالوں سے آئی جی آفس میں کام کر رہے ہیں لیکن کسی جیل میں جانے کو تیا ر نہیں ۔وہ اسی سال اپنی مدت ملازمت پوری کررہے ہیں۔اطہر جان ڈار کے ساتھ قدیر عالم، نور حسن بگھیلہ اور ضرار بیگ تعیناتی کےمنتظر ہیں۔ نور حسن تو کورس پر ہیں۔اچھے اثر ورسوخ کے مالک ہیں راولپنڈی کی منفعت بخش اڈیالہ جیل میں وہ دو مرتبہ ایگزیکٹو سیٹ پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رہ چکے ہیں، کیمپ جیل لاہور جو مال پانی کے سلسلے میں بہت مشہور ہے یہاں بھی سپرنٹنڈنٹ رہ چکے ہیں ۔کوٹ لکھپت جیل کے علاوہ ساہی وال اور میانوالی کی سنٹرل جیل میں دو مرتبہ رہ چکے ہیں۔سنٹرل جیل اڈیالہ کو لے لیں،

عثمان بزدار کے دور سے اب تک کئی سپرنٹنڈنٹس تبدیل ہوچکے ہیں۔ثاقب نذیر، چوہدری اصغر، اعجاز اصغر، ارشد وڑائچ، منصور اکبر سمرا اور اسد وڑائچ کے بعد پھر چودھری اصغر اور چند روز کے بعد پھر اعجاز اصغر راولپنڈی کی منفعت بخش جیل میں تعینات ہو چکے ہیں۔جیل سپرنٹنڈنٹس کے تواتر سے تبادلوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ یہاں ’’سب اچھے‘‘ کی صورت حال کیا ہوگی۔اکبر علی خاصے اثر ورسوخ والے ہیںown pay and scale ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد کئی سال رہنے کے بعد آج کل کیمپ جیل لاہور میں تعینات ہیں۔ خیر اب تو انہیں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر باقاعدہ ترقی دے دی گئی ہے۔وہ اس اعتبار سے خوش نصیب ہیںیا ان کا کوئی پیر کامل ہے وہ ہمیشہ اچھی پوسٹنگ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ایک سنٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے تو اندرون جیل منشیات اور جوئے کے اڈے قائم کر رکھے تھے، انہیں ایک آئی جی کی آشیر باد حاصل تھی۔سابق اٹارنی جنرل کے قتل کے ایک ملزم کو علاج معالجہ کے لیے جیل سے باہر بھجواکرفراری کرنے میں مددگار تھے ۔بے چارے میڈیکل آفسر کو قربانی کا بکرا بنایا گیا۔سپرنٹنڈنٹ کی رٹیائرمنٹ کے بعد سعید اللہ گوندل کو سنٹرل جیل کا سپرنٹنڈنٹ لگایا گیا،وہ اچھے منتظم ثابت ہوئے جنہوں نے چارج سنبھالتے ہی منشیات فروشی اور جوئے کے اڈوں کا خاتمہ کیا۔قیدیوں اور حوالاتیوں سے بداخلاقی سے کبھی پیش نہیں آتے بس جیل مینوئل کے مطابق اپنے فرائض منصبی انجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں اور آج کل ڈی آئی جی فیصل آباد ہیں۔
کچھ عرصے سے جیلوں کے ڈی آئی جی حضرات کے تبادلوں کاموسم آیاہواہے۔شوکت فیروزکو راولپنڈی سے لاہور ریجن بھیجاگیا ہے۔رانا عبدالرئوف کو راولپنڈی لگایا گیا ہے وہ اس سے پہلے ایک دو ماہ راولپنڈی ریجن میں تعینات رہ چکے ہیں ۔ ایک قیدی سے موبائل پکڑنے کی پاداش میں انہیں در بدر ہونا پڑا تھا۔حنیف عباسی جیسے مضبوط سابق ایم این اے کی سفارش کو انہوں نے ٹھکرا دیا تھا ۔ کچھ ایسے سپرنٹنڈنٹس اور ڈپٹی بھی ہیں جو لاوارثی کی ملازمت کر رہے ہیں اور ان کا ٹھکانہ ڈسٹرکٹ جیل راجن پوراور مظفر گڑھ جیسی جیلیں ہیں۔جیل افسران کے تبادلوں کااختیار تو جن افسران کو ہے انہی کو ان کے تبادلے کرنے چاہئیں۔ٹھیک ہے وزیراعلیٰ صوبے کے حاکم ہیںاور چودھری پرویز الٰہی تجربہ کار سیاست دان ہیں اس لیے ہمیں پوری توقع ہے کہ وہ عثمان بزدار کی روایات کو ختم کرکے مثال قائم کریں گے۔

شاہد سیلم بیگ جاتے جاتے قیدیوں کے لیے ایک اور اچھا کام کرکے جا رہے ہیں۔پنجاب بنک آئندہ قیدیوں کے پیسے جمع کیا کرائے گا جس سے پی پی اکائونٹس میں ہونے والی مبینہ بے قاعدگیوں کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button