وزیراعظم کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ

مون سون بارشوں کےطوفانی سپیل کےبعدسیلاب سے بلوچستان سمیت ملک بھرمیںتباہ کاریاں جاری ہیں،بلوچستان میں سیکڑوں مکان زمیںبوس ،ہزاروں افراد بے گھر ،فصلیں تباہ اوربستیاں اجڑگئی ہیں۔ بلوچستان میں ابتک 127 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بارشوں اور سیلاب کے باعث صرف بلوچستان ہی نہیںبلکہ چاروں صوبے شدید متاثر ہیں اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی متاثرین کو ریلیف دینے اور متوقع نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لارہی ہیں۔ملک بھر میں طوفانی بارشوں سے جہاں نظام زندگی بری طرح متاثر ہورہا ہے وہیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے انفراسٹرکچر بھی تباہ ہورہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق بارش اور سیلاب سے بلوچستان میں 2 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی تباہ، ہزاروں خاندان بے گھر جبکہ 15 پُل متاثر ہوئے، 13ہزار320گھر متاثر ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے بعد پنجاب ،سندھ اورخیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو متذکرہ صوبوں میں بھی صورتحال تشویش ناک قرار دی جاسکتی ہے، سیلاب اور بارشوں سے ابتک سیکڑوں دیہات ڈوب گئے، بستیاں اجڑ گئیں، مکین دربدرہوگئے اور محتاط اندازے کے مطابق ابتک ملک بھر میں 300 سے زائد افراد طوفانی بارشوں یا سیلاب کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان کے زیادہ متاثرہ علاقوں جھل مگسی اور جیکب آبادکادورہ کیا، متاثرین سے ملاقاتیں کیںا ور نقصانات کا جائزہ لیا،وزیراعظم شہبازشریف نےسیلاب سےجاں بحق افرادکےلواحقین کے لیےفی کس دس لاکھ روپے امدادکااعلان کرتے ہوئے کہاکہ مشکل کی اس گھڑی میں عوام کوتنہانہیں چھوڑیں گے۔ سیلاب سےتباہ ہونیوالے گھروں کی تعمیرکے لیے فی گھرپانچ لاکھ روپے دیں گے،جن گھروں کوجزوی نقصان پہنچا ان کو دو لاکھ روپے یااس سےزیادہ رقم دیں گے،سیلاب سےجوفصلیں تباہ یامویشی ہلاک ہوئےاس سے متعلق وفاقی سطح پر چار کمیٹیاں بنی ہیں جوچاروں صوبوں سےمشاورت کرکےسروےکریںگی،بلوچستان حکومت بھی سیلاب سےجاں بحق افرادکےلواحقین کو دس لاکھ روپےامداددے گی۔ وزیراعظم سیلاب سے پھیلی تباہی دیکھ کر پریشان نظر آئے اور بتایا کہ جھل مگسی کے ایک گائوں میں آٹھ سے دس فٹ تک پانی ہے، یہاں لوگوں کے مال مویشی اور گھروں کا نقصان ہوا، اللہ کا شکر ہے جھل مگسی کے اس گاؤں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے، بلوچستان کے تمام علاقوں میں اس دفعہ بہت تباہی ہوئی، بلوچستان میں بارشوں کا 30 سال کا ریکارڈ ٹوٹا ہے، اس سال بارشیں کئی سو گناہ زیادہ ہوئی، کوئٹہ، قلعہ سیف اللہ اور لسبیلہ میں بہت تباہی مچی ہے، پچھلے 30 سال کا بارشوں کا ریکارڈ ٹوٹا ہے، 100 گنا زیادہ بارشیں ہوئیں، بلوچستان حکومت سے مل کر بھرپور کام کریں گے۔وزیر اعظم کی ہدایات پر فوری عملدرآمدکرتے ہوئے متذکرہ متاثرہ علاقوں میں فوری طور پر امدادی کارروائیوں میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کی مدد کے لیے پاک فوج کے جوان بھی امدادی سرگرمیوں میں پیش پیش ہیں اورایک خبر کے مطابق ضلعی انتظامیہ،
پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی اور دیگر اداروں کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے جوان بھی امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں خصوصاً بلوچستان میںپاک فوج کےجوان امدادی سرگرمیوںمیں پیش پیش ہیں اور تازہ اطلاعات کے مطابق پاک فضائیہ کے ہیلی کاپٹرز نے گزشتہ دو روز کے دوران 4200 کلو گرام سے زائد خشک راشن آفت زدہ علاقوں میں تقسیم کیااور کئی خاندانوں کو محفوظ مقامات پر بھی منتقل کیاجو خطرے میں گھرے ہوئے تھے۔سندھ میں بھی بارشوں اورسیلاب سےابتک100سے افرادجاںبحق ہوچکے ہیں۔محکمہ موسمیات کےمطابق اگست میں بھی معمول سےزائدبارشوں کاامکان ہے جس سے بخوبی سمجھاجاسکتا ہے کہ بارش اور سیلاب کے حوالے سے ابھی تشویش باقی رہے گی دوسری طرف بھارت نےدریائے راوی میںبھی پانی چھوڑدیاہے اور اس کے نتیجے میں لاہوراور قصورمیں الرٹ جاری کردیاگیا ہے۔ بارشوں اور سیلاب سے زیادہ نظام زندگی معطل ہی نہیں ہورہا بلکہ متاثرہ علاقوں میں بالکل ساقط ہوگیا ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں یا تو لوگ گھروں کی چھتوں پر دن رات بسر کررہے ہیں یا پھر محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں۔ تیار فصلیں اور پھلوں کے باغات سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں، زمینی رابطے منقطع ہیں اور متاثرہ سبھی ہم وطن امداد کے منتظر ہیں اِس کے علاوہ اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں لیکن یہ مختصر منظر کشی اُس صورتحال کی عکاسی نہیں کرسکتی جن سے متاثرہ خاندان دوچار ہیں۔ بلاشبہ پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں اکثر موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں ۔زیادہ تر سالانہ بارش جولائی اور اگست میں قریباً 255 ملی میٹرتک بارش ہوتی ہے، مون سون کی یہ بارشیں جہاں زراعت کو زندگی فراہم کرتی ہیں وہیں شہروں میں ہماری کوتاہیاں سامنے لاکر اصلاح احوال کی طرف بھی توجہ مبذول کراتی ہیں ، بلاشبہ دریائوں میں پانی کی سطح بلند ہونے سے سیلاب کو ہم تباہ کاری پھیلانے سے نہیں روک سکتے لیکن جو ممکن اقدامات کیے جاسکتے ہیں اور موجودہ حالات میں کیے بھی جارہے ہیں، ان کے نتیجے میں ہم بڑے نقصان سے بچ جاتے ہیں مگر شہروں میں بارشوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال دراصل ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو ہم شہروں میں تعمیرات کے دوران کرتے ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ بارش اور سیلاب سے متاثرہ افراد کے بچائو اور بحالی کے لیے وفاقی اور چاروںصوبائی حکومتوں کے تندہی سے اقدامات کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے، ہم متاثرین کی بحالی کے لیے امدادی کاموں میں پیش پیش پاک فوج کے جوانوں، سکیورٹی اداروں، پی ڈی ایم اے، مقامی انتظامیہ اور رضا کاروں کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیںاور ہم وطنوں سے بھی کہنا چاہیں گے کہ وہ مشکل کی اِس گھڑی میں اپنے مصیبت زدہ ہم وطنوں کے لیے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے آگے آئیں۔