ColumnFayyaz Malik

    کس کی غفلت اور کون ذمہ دار ؟ .. فیاض ملک

فیاض ملک
آپ کے علم میں آئے روز حادثات کی خبریں آتی ہیں؟ مگر آپ کو شاید یہ احساس نہیں کہ کسی گھر کا کمانے والا سربراہ جب ٹریفک حادثے میں جان سے جاتا ہے تو وہ کسی فرد واحد کی موت نہیں ہوتی بلکہ اس کا پورا گھرانہ زندہ درگور ہو جاتا ہے، چھوٹے بچے جن کو شاید یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کمایا کیسے جاتا ہے وہ باپ کا سایہ چھن جانے پر اپنا بچپن گنوا بیٹھتے ہیں، اس مہنگائی کے دور میں گزر بسر کیسے ہوتی ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔پاکستان میں حادثات کیوں بڑھ رہے ہیں، کس کی غفلت اور کون ذمہ دار ہے کیا وجوہات ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر پانچ منٹ کے دوران پا کستان کی سڑکوں پرٹریفک حادثے کا شکار ہوکر ایک شخص یا تو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے یا پھر شدید زخمی ہوکر معذوری کا شکارہوجاتا ہے۔
عالمی تحقیقاتی ادارے کے مطابق پاکستان میں ہلاکتوں کا باعث بننے والے پچاس عوامل اور بیماریوں میں ٹریفک حادثات پندرہویں نمبرپر ہیں۔ ٹریفک حادثات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ 2019 ۔20 کے دوران پاکستان میں 97010 حادثات ہوئے جبکہ 2020۔21 کے دوران ان حادثات کی شرح میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔وطن عزیز پاکستان میں ٹریفک حادثات کی وجوہات اور اسباب کو تعین کرنا ہو تو آپ کسی بھی ہڈی وارڈ میں چلے جائیں جہاں آپ کو 80 فیصد سے زیادہ موٹر سائیکل حادثے کے شکار افراد ملیں گے۔ بڑھتی آبادی کیساتھ سڑکوں پر گاڑیوں، بسوں، رکشوں، موٹر سائیکلوں وغیرہ کا سیلاب بھی بڑھتا نظر آتا ہے،
عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 35 سے 40 ہزار افراد ٹریفک حادثات کی نذر ہو جاتے ہیں، ہمیشہ کے لیے معذور ہو جانےوالے لاکھوں افراد اور ملک کو سالانہ اربوں روپے کا معاشی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ صرف صوبہ پنجاب کی سڑکوں پر روزانہ اوسطاً 750 ٹریفک حادثات ہوتے ہیں جن میں ہر روز اوسطاً 9 افراد جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ ان حادثات کی وجوہات کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر یہ حادثے ہوتے کیوںہیں؟ جس کے جواب میںاسکی کئی وجوہات سامنے آتی ہیں جس میں سڑکوں کی ناگفتہ صورتحال،اوور لوڈنگ ، ون وے کی خلاف وزری، اوورٹیکنگ، اشارہ توڑنا، غیر تربیت یافتہ ڈرائیورز، نوعمری میں بغیر لائسنس کے ڈرائیونگ، بریک کا فیل ہونا، زائد المدت ٹائروں کا استعمال،ڈرائیورزکی غفلت، گاڑی کی خرابی ، سیفٹی وال کا نہ ہونا، اوور سپیڈ ، ڈرائیونگ سکھانے والے اداروں کا فقدان ، مسلسل کئی
گھنٹوں تک گاڑی چلانا،جعلی لائسنس کی روک تھام اور یکساں لائسنس کا اجراءنہ ہونا،ٹریفک قوانین کی عدم پاسداری،دوران ڈرائیونگ کے دوران نشے کرنا اور موبائل فون کا استعمال، فلم یا گانوں کی ویڈیوز دیکھنا اور غیر ضروری طور پہ لائوڈ والیم میں میوزک سننا ،سڑکوں پر سفید اور زرد لائنوں کےساتھ ساتھ گاڑی کا فٹنس ٹیسٹ سرٹیفکیٹ نہ ہونا،مسافر بسوں میں سیٹ بیلٹ اور ہنگامی دروازہ نہ ہونا،مسافر گاڑی کو مال بردار گاڑی کے طورپراستعمال کرنا شامل ہیں،
یہی نہیںاکثر مرکزی شاہراہوں کے اردگرد بڑی آبادیاں اور مارکیٹس بنی ہوئی ہیں جہاں پہ مقامی لوگوں کے سڑک عبور کرنے کے لیے پیدل کراسنگ پل تو موجود ہیں مگر وہاں بھی شہریوں کی جانب سے اس کواستعمال نہ کرتے ہوئے جلد بازی سے سڑک کو عبور کرنا بھی ٹریفک حادثات کا ایک بڑا سبب ہیں۔ 80 سے 90 فیصد ٹریفک حادثات تیز رفتاری کے غیر محتاط رویئے کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں ، مگر ہم اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کےلیے قطعاً تیارنہیں،دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے ٹریفک حادثات پر کافی حد تک قابو پالیا ہے لیکن پاکستان سمیت دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک میں یہ مسئلہ بدستور حل طلب ہے۔
نیشنل ہائی وے ٹریفک سیفٹی ایڈمنسٹریشن
(NHTSA) امریکہ کی رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کے کل ایکسیڈینٹ میں سے قریباً 25 فیصد ایکسیڈینٹ دوران ِ ڈرائیونگ موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال کرنےوالے نوجوان کاکسی ایمرجنسی کی صورت میں ردعمل ایک 70 سال کے بوڑھے آدمی کے برابر ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ شاہراہوں پر ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون پر واٹس ایپ یا ٹیکسٹ میسج کرنا بہت ہی خطرناک ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اگر بہت ایمرجنسی ہو تو فوری طور پر گاڑی روک لی جائے اور پھر بات کی جائے۔ٹریفک قوانین لاگو کرنے والے پولیس افسران کی ذمہ داری ہے کہ ڈرائیور کو دورانِ ڈرائیونگ ہاتھ میں موبائل فون پکڑے دیکھ لیں تو اسکا فوری طور پر چالان کر دیں ،تاکہ وہ دوبارہ اس قسم کی غلطی نہ کرے۔
ترقی یافتہ ممالک روڈ سیفٹی کی قانون سازی، ٹریفک قوانین پر موثر عمل درآمد، سٹرکوں کی تعمیر اور گاڑیوں کو محفوظ بنا کر ٹریفک حادثات میں نمایاں کمی لا چکے ہیں لیکن ہمارے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ان کے نزدیک کوئی سڑک پر سسک کر مرتا ہے تو مرے انہیں کیا؟ ترقی یافتہ اقوام کی ترقی صرف اقتصادی ہی نہیں بلکہ معاشرتی قوانین کے نفا ذ اور اس پر سختی سے عمل درآمد کی صورت میں بھی ہے۔ ان ممالک میں ہر بالغ شخص خواہ شہری ہویا دیہاتی تمام معاشرتی قوانین کا علم ضرور رکھتا ہے،وہ اپنی ہر حیثیت کے مطابق طوعاً کرہاً ان پر عمل بھی کرتا ہے کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا انجام صرف سزا ہے،
اگر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کو قرار واقعی سزا دینے کی روش اختیار کی جائے تو ٹریفک حادثات کی شرح میں کمی ممکن ہوسکتی ہے۔ٹریفک قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کےلیے نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹر وے پولیس، ٹریفک پولیس اورمتعلقہ حکام کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا چاہیے، اس کےلیے صرف روڈ سیفٹی ایجوکیشن ہی کافی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کچھ جامع اقدامات کی بھی ضرورت ہے تاکہ روڈ سیفٹی کو یقینی بناکر حادثات کی شرح میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکے جبکہ بغیر لائسنس گاڑی چلانے پر سخت سزائیں اور کم عمر بچوں کے والدین کو بھی سزا کا مستحق ٹھہرایا جانا چاہیے تاکہ کم عمر اور نو آموز ڈرائیوروں کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
ٹریفک سے متعلق شعورکی بیداری کےلیے نصاب میں ٹریفک قوانین سے متعلقہ مضامین شامل کرنا چاہیے تاکہ نئی نسل کو مستقبل میں ٹریفک حادثات سے بچایا جاسکے۔ٹریفک حادثات سے بچائوکےلیے حکومتی اقدامات کے علاوہ عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ٹریفک قوانین کی پاسداری اور سڑکوں کو حادثات سے محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے ، دوران سفر جلد بازی سے اجتناب برتتے ہوئے دوسری ٹریفک بالخصوص پیدل افراد کا خیال رکھنا چاہیے۔روڈ سیفٹی کے قانون پر سختی سے عملدرآمد وقت کی اہم ضرورت ہے اور وہ ہے صرف بلا امتیاز کارروائی !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button