ColumnImran Riaz

بدترین کردار کشی اور پر اسرار خاموشی! .. عمران ریاض

عمران ریاض
ایک وقت تھا کہ سیاسی اور جمہوری حلقوں میں کسی سیاسی شخصیت یا جماعت کی فوج کی بلواسطہ حمایت کو بہت معیوب خیال کیا جاتا تھا،سیاسی شخصیت یا جماعت کے لیے یہ حمایت ایک بدنما دھبہ سمجھی جاتی تھی،بڑے بڑے دانشوروں، ادیبوں، لکھاریوں،شاعروں،کالم نگاروںاور تجزیہ نگاروں کو اپنی فوج کے صرف کردار پر اعتراض ہوتا تھا کہ وہ سیاست میں مداخلت کیوں کرتے ہیں اور فوج کی اس مداخلت پر بھرپور تنقید بھی کرتے اور مختلف ریاستی ہتھکنڈوں کا شکار بھی ہوتے۔فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف جدوجہد کی گئی اور بہت سارے دانشوروں کو اس تنقید کی وجہ سے قید وبندصعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن جمہوریت پسندوں نے دانشوروں کو ہیرو قرار دیا اور معاشرے نے بھی انکی جدوجہد کو سراہتے ہوئے ان کی عزت افزائی پھر ایک دور وہ بھی آیا کہ لوگوں کو یقین ہوگیا کہ فوج یا اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر الیکشن جیتنا اور حکومت میں آنا ناممکن ہے تولہٰذا لوگ اندازہ لگاتے کہ کس پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے،
پھر وہ دھڑا دھڑ اس میں شامل ہو جاتے 1990 کی پوری دھائی میں یہی میوزیکل چیئر کا کھیل ہوتا رہامگر1999 کے مشرف ’’کو‘‘ کے بعد جب ایک طرف مسلم لیگ قاف وجود میں تو دوسری طرف عمران خان، فاروق لغاری، طاہرالقادری ، ایم کیو ایم سمیت سب نے برملا باوردی جنرل کی نہ صرف حمایت کی بلکہ وہ ان کے ساتھ اقتدار میں شامل تک ہوگئے مگر یہ علیحدہ بات ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سمیت کچھ شخصیات اپنی مرضی کا حصہ نہ ملنے پر جنرل مشرف سے خفا ہوگئیں لیکن جنرل مشرف کے ٹیک اور کو بے نظیر بھٹو تک نے خوش آمدیدکہاتھا۔
جنرل مشرف کی رخصتی کے بعداسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں میں ایک بار پھر چوہے بلی کا کھیل شروع اور آخر کار اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پارٹی بنا کر سیاسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا اوراس کے لیے انہوں نے2002 میں ایک قومی نشست حاصل کرنے والی تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کو مضبوط کرنے کا ویسے ہی فیصلہ کیا جیسا جنرل مشرف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مسلم لیگ قاف کو اپنی پارٹی بنانے اور اسے مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا تھا، مزے کی بات یہ ہے کہ جنرل مشرف خود کبھی قاف لیگ کے سربراہ نہیں رہے لیکن قاف لیگ کے تمام فیصلے وہ کیا کرتے تھے۔2012 میں بھی یہی صورت حال تھی، بظاہر اس پارٹی کے سربراہ تو تھے عمران خان، لیکن ان کو مضبوط کرنے اور ان کی فیصلہ سازی پہلے جنرل پاشا کے سپرد تھی، بعد ازیں پھر جنرل ظہیر الاسلام کے پاس آگئی اور آخر اس پارٹی کو باقاعدہ اقتدار میں لانے کی زمہ داری جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے حصے میں آئی اور اس حکومت کو ہائبرڈ حکومت کا نام دیا گیا یعنی مل جل کر چلائے جانے والی حکومت ۔
اس حکومت اور فوج میں اختلافات کیوں اور کیسے ہوئے یہ اب تاریخ ہے، اس سے ہر کوئی واقف ہے، ہم اس پورشن کو چھوڑتے ہوتے آج کی صورتحال پر آتے ہیں آج فوجی قیادت خاص طور جنرل باجوہ کی سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا اس قدر کردار کشی کی جارہی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی، سیاسی تاریخ کا ہر طالب علم منہ میں انگلی دبائے بیٹھا ہے کہ آخر یہ ہو کیا ر ہا ہے اور اس سارے ایپی سوڈ کا انجام کیا نکلے گا۔اس بات میں تو زرا برابر میں شک شبہ نہیں کہ اس ساری کردار کشی کے پیچھے عمران خان اور انکی پار ٹی ہے لیکن جس قدربے خوفی سے یہ دن بدن تمام ریڈ لائنز کراس کر رہے ہیں اس سے عام لوگوں کے ذھنوں میں دو سوالات جنم لیں رہے ہیں،
ایک تو یہ کہ کیا واقعی ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ جو عوامی ردعمل کے سامنے بے بس ہے یا دوسری بات جو اب عام طور کی جارہی ہے کہ فوجی قیادت ماضی کی طرح یکسو نہیں اور عمران خان کو ادارے کے اندر سے مضبوط حمایت حاصل ہے جو نہ صرف ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دے رہی اور اسی شہ پر عمران خان دن بدن بے خوف ہو کر اپنی اس مہم میں تیزی لا رہے، بہت سارے حلقے ان سوالوں کے جواب کے لیے نومبر تک کی صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے اور انکا خیال کہ اکتوبر تک نئے آرمی چیف کی تقرری کے اعلان کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہوگی اور آج عمران خان جو کھیل کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا اور عمران خان پاکستان کی سیاست سے ہمیشہ کیلئے آؤٹ کر دیے جائیں گے
جبکہ ایک اور حلقے کی رائے یہ کہ فوجی قیادت عمران خان کی مقبولیت کے سخت دباؤ میں ہے اور اسی دباؤ میں وہ انکا مطالبہ مانتے ہوئے قبل از وقت الیکشن کرا دے گی اور عمران خان دو تہائی اکثریت سے واپس اقتدار میں آئیں گے اور 20 سالہ پراجیکٹ عمران خان وہیں سے شروع ہوگا جہاں اس میں وقفہ آیا بہرحال مستقبل کا حال تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس بات میں وزن ہے کہ اکتوبر نومبر تک کا انتظار کیا جانا چاہیے۔
آئین پاکستان کے مطابق فوج کا سیاست میں کسی قسم کا کردار نہیں بلکہ فوج کی طرف کسی قسم کی سیاسی مداخلت کی صورت میں متعلقہ حکام کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ قائم کیا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے سہولت کاروں اور اُکسانے والوںپراسی آرٹیکل کے تحت مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے، آج کل جس طرح عمران خان فوج کو کھلے عام سیاست میں مداخلت کی دعوت رہے ہیں،ان سے نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے انہیں یہ درس دے رہے ہیں کہ آپ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ فوج کو عمران خان براہ راست یہ پیغام دے رہے ہیں کہ چونکہ حق پر ہیں اس لیے فوج اپنی غیر جانبداری چھوڑ کران کی سپورٹ کرے لیکن اس ساری صورتحال میں جب آئین کی کھلی خلاف ورزی ہورہی ہے، حکومت سمیت ادارہ ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرتے دکھائی نہیں دے رہے، مطلب اس زیادہ رعایتوں کے پیچھے کون ہے اور ان کی عوامی پزیرائی یا کچھ اور ۔۔۔۔۔زرا سوچئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button