وزیر اعظم عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ مبینہ دھمکی آمیز خط آج (بدھ کو) سنیئر صحافیوں اور اتحادیوں کو دکھائیں گے۔
اسلام آباد میں الیکٹرونک پاسپورٹ کے اجرا کی تقریب سے خطاب میں ان کا کہنا تھا یہ غیر ملکی سازش ہے، لوگ فیصلہ کرتے ہوئے ضرور سوچیں کہ کہیں آپ پاکستان کے خلاف سازش کا حصہ نہ بن جائیں۔
سیاسی بحران کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سیاسی بحران کوئی نئی بات نہیں ہے، لوگوں کا اپنی جماعت سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔
دھمکی آمیز خط سے متعلق بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ایک غیر ملکی سازش ہے، یہ سازش اس وقت سے ہورہی ہے جب سے وہ لوگ جو باہر سے پاکستان کو ایک ٹیلی فون کال پر کنٹرول کرتے تھے وہ برداشت نہیں کر پار ہے کہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت ہو جو اپنے ملک کے مفاد کے لیے فیصلے کرے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آپ کے سامنے ہے جس میں پاکستان کی تباہی ہوگئی کوئی ایک بتادے کہ اس جنگ میں شرکت کر کے ہمیں کیا فائدہ ہوا صرف نقصان ہی نقصان ہوا، کتنےلوگ معذور ہوگئے، حملوں میں ہمارے 80 ہزار لوگ جاں بحق ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دوران قبائلی علاقے کے لوگوں پر ظلم ہوا ہے، 35 لاکھ لوگوں نے وہاں سے نقل مکانی کی، ذکوٰۃ دینے والے ذکوٰۃ لینے والے بن گئے، ہم نے کسی اور ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے اپنے ملک کا مفاد قربان کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ایک ایسے ملک کو فائدہ پہنچایا جس نے ہماری حوصلہ افزائی بھی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ باہر کے لوگوں کو عادت نہیں ہے کہ پاکستان میں ایسی حکومت ہو جو اپنے ملک کے مفاد کو آگے رکھے۔
عمران خان نے کہا کہ میرے پاس جو خط ہے میں سینئر صحافیوں کو دکھاؤں گا، لوگ سمجھ رہے تھے کہ ڈراما ہورہا ہے، یہ کوئی ڈراما نہیں ہم اپنے ملک کے مفاد میں اسے چھپا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھامیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ میں یہ خط اتحادی جماعتوں کے نمائندگان اور سینئر صحافیوں کو دکھاؤں، لوگوں نے جو فیصلہ کرنا ہے کریں لیکن فیصلہ کرتے وقت یہ سوچ لیں کہ کہیں آپ بین الاقوامی سازش کا حصہ نہ بن جائیں۔
دھمکی آمیز خط کا معاملہ کیا ہے؟
یاد رہے وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپنی جیب سے ایک خط نکالتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں باہر سے پیسے کی مدد سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہمیں لکھ کر دھمکی دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں آج قوم کے سامنے پاکستان کی آزادی کا مقدمہ رکھ رہا ہوں، میں الزامات نہیں لگا رہا، میرے پاس جو خط ہے، یہ ثبوت ہے اور میں آج یہ سب کے سامنے کہنا چاہتا ہوں کہ کوئی بھی شک کر رہا ہے، میں ان کو دعوت دوں گا کہ آف دا ریکارڈ بات کریں گے اور آپ خود دیکھ سکیں گے کہ میں کس قسم کی بات کر رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ سب کے سامنے دل کھول کر کہہ رہا ہوں، بیرونی سازش پر ایسی کئی باتیں ہیں جو مناسب وقت پر اور بہت جلد سامنے لائی جائیں گی، قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ یہ لندن میں بیٹھا ہوا کس کس سے ملتا ہے اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے کردار کس کے کہنے کے اوپر چل رہے ہیں۔
تاہم وزیراعظم عمران خان نے اس موقع پر اپنی جیب سے خط نکالا، عوام کے سامنے لہرایا اور پڑھے بغیر واپس رکھ لیا تھا۔
تاہم حیرت انگیز طور پر وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کسی بھی خط کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
البتہ گزشتہ روز ایک نیوز کانفرنس میں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا تھا کہ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں خط کیوں نہیں دیا جارہا، کچھ راز قومی نوعیت کے ہوتے ہیں، وزیر اعظم نے مجھے کہا ہے کہ اگر کسی کو کوئی شک ہے تو ہم یہ خط سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دکھانے کے لیے تیار ہیں، ان پر سب اعتماد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا مجھے اجازت نہیں ہے کہ اس خط میں لکھے ہوئے الفاظ بتاسکوں لیکن کلیدی باتیں دہرا دیتا ہوں کہ اس مراسلے کی تاریخ عدم اعتماد تحریک پیش ہونے سے قبل کی ہے، یہ اہم اس لیے ہے کہ اس مراسلے میں براہِ راست تحریک عدم اعتماد کا ذکر ہے۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ اہم بات یہ ہے کہ خط میں دو ٹوک الفاظ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوتی اور عمران خان وزیر اعظم رہتے ہیں تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مراسلہ وزیر اعظم کے منصب اور تحریک عدم اعتماد سے براہِ راست جڑا ہوا ہے۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ قانونی بندشوں کے سبب یہ مراسلہ صرف اعلیٰ ترین فوجی قیادت اور کابینہ کے کچھ اراکین کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے، اس لیے وزیر اعظم نے یہ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کے لیے کہا ہے۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا تھا کہ اس مراسلے میں براہِ راست پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ذکر ہورہا ہے تو یہ بات واضح ہے کہ مراسلے میں پیغام دیا گیا ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک اور بیرونی ہاتھ آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مراسلے میں نواز شریف ملوث ہیں جو لندن میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں، نواز شریف کس کس سے ملتے رہے، وزیراعظم جب چاہیں گے اس کی تفصیل بتا دیں گے، پی ڈی ایم کی سینئر لیڈر شپ اس بات سے لاعلم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان حالات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم کے خیال میں یہ ضروری ہے کہ عوام کو آگاہ کیا جائے۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ ہمارا ماننا ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود اراکین میں متعدد کو یہ نہیں معلوم کہ تحریک عدم اعتماد کے پیچھے مزید کیا عناصر ملوث ہیں، ظاہر ہے کہ وہ نہیں چاہیں گے کہ وہ ایک ایسے اقدام کا حصہ بنیں جس سے ملک کے لیے خطرات پیدا ہوتے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تر معلومات سامنے آنے کے بعد قومی اسمبلی کے اراکین یہ سوچیں گے کہ کیا وہ جانتے بوجھتے اس کا حصہ بننے کو تیار ہیں، کیا وہ پاکستان پر لگنے والی قدغن کا حصہ بننے کو تیار ہیں۔
وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ اراکین قومی اسمبلی بہت محب وطن ہیں، ظاہر ہے کہ وہ تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہی تحریک عدم اعتماد کی حمایت یا مخالفت کا فیصلہ کریں گے۔
خط کا تعلق وزیر اعظم کے دورہ روس سے ہونے سے متعلق سوال کے جواب پر وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ اس خط کا تعلق ہمارے خارجہ پالیسی سے ہے، مزید تفصیلات نہیں بتا سکتا۔
خط کہاں سے آیا ہے ؟ اسد عمر نے اس سوال کا جواب دینے سے انکار کردیا البتہ خط لکھنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کارروائی وقت کی ضرورت پر کی جائے گی۔