Editorial

وفاق کا عظیم رمضان ریلیف پیکیج

رمضان المبارک ایک بار پھر ہماری زندگیوں میں آچکا ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے عظیم موقع ہے۔ رحمتوں اور برکتوں کی بہاروں سے جتنے زیادہ فوائد اُٹھائے جائیں، جتنی زیادہ نیکیاں کمائی جائیں، عبادتیں کی جائیں، اُتنا ہی بہتر ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی رمضان المبارک کی آمد ہوتی ہے تو ملک بھر میں مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر تیزی سے حرکت میں آجاتے ہیں اور تمام اشیاء کے دام آسمانوں پر پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ حالانکہ دُنیا کے مختلف غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں سمیت دوسرے مذاہب کے اہم مواقع اور تہواروں پر اشیاء خورونوش و دیگر پر خصوصی ڈسکائونٹ دیا جاتا ہے۔ ہر شے کی قیمت میں بڑی کمی کردی جاتی ہے جب کہ اسلامی ملک پاکستان میں اس کے برعکس ہوتا ہے، یہاں جس کو جتنا زیادہ موقع ملتا ہے وہ عوام کی جیبوں پر اُتنا ہی بھرپور نقب لگاتا ہے۔ اس بار بھی رمضان المبارک کے آتے ہی مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر (ناجائز منافع خور، ذخیرہ اندوز اور گراں فروش) بھرپور طور پر سرگرم ہوگئے اور ہر شے کے نرخ بڑھادیے۔ کھانے پینے کی اشیا اور پھل کی قیمتوں نے غریبوں کی آنکھیں کھول دیں، کھجلے پھینی کی خریداری بھی بڑھ گئی۔ لاہور میں مرغی کے گوشت کی قیمت 630روپے کلو اور ٹماٹر پیاز کی قیمت دگنی ہوگئی، ٹماٹر 100 روپے کلو ہوگیا، کیلے 300 روپے درجن اور سیب 450 روپے فی کلو پر پہنچ گئے۔ اسلام آباد میں سبزیوں کی قیمتیں برقرار ہیں، لیکن پھلوں کی قیمتیں بڑھ گئیں، امرود 250 سے 400 روپے کلو ہوگئے، سیب ساڑھے تین سو روپے کلو ہوگیا، کینو 6 سو روپے درجن تک پہنچ گئے۔ کوئٹہ میں بھی پھلوں کی قیمتوں میں 30 فیصد تک اضافہ ہوا، پشاور میں اسٹرابیری پانچ سو روپے فی کلو اورسیب ساڑھے چار سو روپے فی کلو ہوگئے۔ کراچی میں بھی گراں فروشوں نے عوام کی جیب پر بھرپور ڈاکہ ڈالتے ہوئے پھلوں، سبزیوں اور دیگر اشیاء کے داموں میں بڑا اضافہ کردیا۔رمضان المبارک میں ہولناک گرانی سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے صائب حل کے لیے ملک بھر میں سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ دوسری جانب اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی ہے اور اُن کے مصائب اور مشکلات میں کمی لانے کے لیے مصروفِ عمل رہتی ہے۔ پچھلی بار حکومت کی جانب سے 7 ارب روپے کا رمضان ریلیف پیکیج پیش کیا گیا تھا، جس سے خلق خدا کی بڑی تعداد مستفید ہوئی تھی۔ اس بار حکومت نے غریبوں کے لیے 200 فیصد اضافہ کرتے ہوئے رمضان ریلیف پیکیج متعارف کرایا ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے 20 ارب روپے کے رمضان ریلیف پیکیج 2025 کا اجرا کردیا۔ رمضان ریلیف پیکیج کے اجرا کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا کہ پیکیج سے 40 لاکھ خاندان اور 2 کروڑ افراد مستفید ہوں گے، 40 لاکھ مستحق خاندانوں کو ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے 5 ہزار روپے دئیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا گزشتہ رمضان کے مقابلے میں اس بار مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور گزشتہ سال کے 7 ارب کے رمضان پیکیج کے مقابلے میں اس بار ماہ صیام کے موقع پر ریلیف پیکیج کو 3 گنا بڑھایا، رمضان پیکیج کو انتہائی آسان بنایا، اب لمبی قطاروں میں نہیں کھڑا ہونا پڑے گا۔ اس موقع پر وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا رمضان پیکیج کو 20 دنوں کے اندر حتمی شکل دی گئی ہے، اسٹیٹ بینک، نادرا، بی آئی ایس پی اور دیگر متعلقہ اداروں نے ناممکن کو ممکن بنایا، پہلی بار 30 لاکھ ڈیجیٹل والٹس بنائے گئے ہیں، ڈیجیٹل والٹ کے ذریعے رقم براہ راست مستحقین تک پہنچے گی۔200 فیصد زائد کا رمضان ریلیف پیکیج یقیناً موجودہ مرکزی حکومت کا عظیم اقدام ہے، اس پر اس کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے، کم ہے۔ اس کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی۔ دو کروڑ لوگ اس رمضان ریلیف پیکیج سے استفادہ کریں گے۔ عوام کا درد محسوس کرنے والے حکمرانوں کا یہی وتیرہ ہوتا ہے۔ شہباز شریف کا پورا سیاسی کیریئر غریب عوام کی بہتری کے لیے اقدامات سے عبارت ہے۔ وہ آئندہ بھی اس ضمن میں کوششیں جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب ہر سال رمضان المبارک میں آسمان کو چھوتی گرانی بلاشبہ سنگین مسئلہ ہے، جو غریبوں کے لیے سوہانِ روح ثابت ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت کے اقدامات کے طفیل گرانی میں کمی آئی ہے، لیکن مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عناصر رمضان المبارک میں تمام تر کسر نکالنے کے درپے اور اپنی تجوریاں لبالب بھرلینا چاہتے ہیں۔ رمضان سے ایک روز ہونے والی مصنوعی گرانی سے اس بات کو تقویت ملتی ہے۔ عوام کو گراں فروشوں سے نجات وقت کی اہم ضرورت ہے، وہ پہلے ہی مہنگائی کے ستائے ہوئے ہیں، اس پر رمضان میں کی جانے والی مصنوعی گرانی اُن کا مزید بھرکس نکال دیتی ہے۔ رمضان میں کی جانے والی مہنگائی سے عوام کو مکمل نجات دلانے کے لیے سخت کریک ڈائون ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے حکمت عملیاں ترتیب دی جائیں اور ملک بھر کے بازاروں میں متعلقہ ذمے داران روزانہ کی بنیاد پر چھاپہ مار کارروائیاں کریں، مہنگائی کو بڑھاوا دینے والوں کو کسی طور نہ بخشا جائے، گراں فروشوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے، مہنگائی کو بڑھاوا دینے والے عوام دشمن عناصر کے خلاف جتنی زیادہ سخت کارروائیاں ہوں گی، اُس کے اُتنے ہی زیادہ مثبت نتائج سامنے آئیں گے، یوں مہنگائی کا جن بھی بوتل میں بند ہوسکے گا۔ بہت ہوچکا، اب موجودہ مرکزی حکومت سمیت صوبائی و شہری حکومتوں کو گرانی پر قابو پانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔
پولیو کا ایک اور نیا کیس
ملک عزیز کے طول و عرض میں پولیو وائرس کا عفریت معصوم اطفال کو زندگی بھر کے لیے معذور بنانے کے درپے ہے اور ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی کیس رپورٹ ہورہا ہے۔ ساری دُنیا نے پولیو وائرس کو شکست دے دی ہے، پاکستان سمیت چند ایک ممالک میں یہ وائرس موجود ہے۔ پاکستان میں اس کے خاتمے کے لیے سالہا سال سے کوششیں جاری ہیں، جن کے مثبت نتائج ضرور برآمد ہوئے ہیں، پولیو کیسز میں خاصی حد تک کمی آئی ہے، لیکن اس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی وجہ سے وطن عزیز کے شہریوں کو سفری پابندیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے، جس پر ساری دُنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے ہر کچھ عرصے بعد مہم ملک بھر میں شروع کی جاتی ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بے شمار اطفال کو پولیو سے بچائو کے قطرے پلائے جاتے ہیں، لیکن بہت سے بچے پولیو ویکسین پینے سے رہ جاتے ہیں کہ بعض والدین اپنے کمسن بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے اجتناب برتتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ پولیو ویکسین سے متعلق وہ من گھڑت پروپیگنڈا ہے، جو سالہا سال سے جاری ہے۔ ماضی تو اس حوالے سے خاصا ہولناک تھا، جب پولیو وائرس سے بچائو کے لیے خدمات انجام دینے والے کارکنوں اور اُن کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ان کارروائیوں میں متعدد اہلکاروں اور ورکرز نے جام شہادت نوش کیا۔ گو اب ایسے حالات نہیں، لیکن پھر بھی پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین اپنے بچوں کو پلوانے سے کچھ والدین گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پولیو کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے اور آئے روز کوئی نہ کوئی بچہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ گزشتہ روز ایک اور بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رواں سال ملک کا چھٹا پولیو کیس ٹھٹھہ سے رپورٹ ہوا ہے۔ قومی ادارہ برائے صحت کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری نے ٹھٹھہ کے 6ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان پولیو پروگرام کے مطابق رواں سال سندھ سے پولیو کا یہ چوتھا کیس ہے، 2024ء میں پاکستان میں پولیو کے74کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ پاکستان پولیو پروگرام کے مطابق گزشتہ سال بلوچستان سے پولیو کے27، سندھ سے 23کیس رپورٹ ہوئے تھے جب کہ خیبرپختونخوا سے 22، پنجاب اور اسلام آباد سے پولیو کا ایک ایک کیس رپورٹ ہوا تھا۔ 6 ماہ کے معصوم بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق یقیناً تشویش ناک اور لمحہ فکر ہے۔ پولیو کو ہر صورت شکست دینے کے لیے ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پولیو سے بچائو کی ویکسین ہر لحاظ سے بچوں کو عمر بھر کی معذوری سے بچاتی ہے۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے۔ پولیو ویکسین تمام پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پلائی جائیں تو جلد وطن عزیز اس وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔

جواب دیں

Back to top button