پاکستان ضرور ہزار ارب ڈالر کی معیشت بننے میں کامیاب ہوگا

موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا کہ اُس کے اقدامات کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ قبل ازیں 2018ء کے وسط کے بعد سے ترقیٔ معکوس کے سفر سے پوری قوم آشنا ہے۔ ہر محب وطن کو معلوم ہے کہ کس طرح پاکستان کی معیشت کا بٹہ بٹھایا گیا، پاکستانی روپے کو بے توقیر کیا گیا، عوام کو تاریخ کی بدترین مہنگائی کی نذر کردینے کے ساتھ کاروبار کے تمام تر راستے مسدود کیے گئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام روکا گیا یا کام کی رفتار بالکل ہی سست کردی گئی۔ اپنے ہی قومی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے اُس وقت کے وزرا بونگیاں ہانکتے رہتے تھے۔ اس کی وجہ سے پی آئی اے کو بے پناہ نقصانات پہنچے۔ قوم کی خدا نے سنی اور 2022 ء میں ایسے حکمرانوں سے نجات ملی۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم ہوئی، جس نے چند اچھے اقدامات کیے۔ پھر نگراں دور میں بھی کچھ بڑے فیصلے کیے گئے، ان سب کے دوررس اثرات اب تک ظاہر ہورہے ہیں۔ گزشتہ برس کے عام انتخابات کے نتیجے میں شہباز شریف کی زیر قیادت پھر سے اتحادی حکومت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ شہباز شریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی معیشت کی بحالی کے مشن پر تندہی سے مصروفِ عمل ہوگئے تھے۔ اُنہوں نے دوست ممالک کے پے درپے دورے کیے اور اُنہیں پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی حکومت کے دوران ہر شعبے میں اصلاحات کے سلسلے شروع کیے۔ نظام مملکت چلانے کے لیے حکومتی آمدن میں اضافے کی خاطر ٹیکس نظام کو مزید فعال بنانے پر کمربستہ ہوگئے۔ شعبہ زراعت اور آئی ٹی پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی اور ان میں انقلابی تبدیلیاں لانے کے حوالے سے ناصرف بیانات دئیے، بلکہ عملی بنیادوں پر بھی اقدامات یقینی بنائے۔ کاروبار کے لیے حالات کو سازگار بنایا۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگے اور مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ گرانی کی شرح میں معقول حد تک کمی آچکی ہے۔ شرح سود میں عظیم کمی ممکن ہوسکی ہے۔ معیشت کے حوالے سے بہتری کے آثار پیدا ہورہے ہیں۔ ملک و قوم کی خوش حالی کی جانب تیزی سے قدم بڑھ رہے ہیں۔ اس کا برملا اظہار بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی اپنی رپورٹس میں کررہے ہیں، آئندہ کچھ سال میں پاکستان کی معیشت تیزی سے اُبھرنے کی پیش گوئیاں بھی سامنے آرہی ہیں۔ اس حوالے سے بڑی پیش گوئی عالمی بینک کی جانب سے کی گئی ہے۔ عالمی بینک کے جنوبی ایشیا کے لیے نائب صدر مارٹن ریزر نے کہا ہے کہ پاکستان 2035تک ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بننے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، تاہم اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو سالانہ 7فیصد کی شرح نمو سے ترقی کرنا لازمی ہوگا۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مارٹن ریزر نے حکومت کے معاشی بحالی کے 5سالہ منصوبے کے حوالے سے کہا کہ پاکستان 2035ء تک 1ٹریلین ڈالر کی معیشت بن سکتا ہے مگر اس کے لیے معاشی اصلاحات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا۔ عالمی بینک نے کنٹری پارٹنر شپ فریم ورک کے تحت پاکستان کو 10سال میں 20 ارب ڈالر کے قرضے یا مالی تعاون کی یقین دہانی کرانے سے قبل حزب اختلاف سمیت سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا ہے۔ کنٹری پارٹنرشپ فریم ورک کے تحت ورلڈ بینک نے پاکستان کو قرضے یا مالی تعاون کی جو یقین دہانی کرائی وہ ایک تخمینہ ہے مگر پاکستان مختلف پروگرامز کے تحت رعایتی قرضے حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے کیے گئے سوال کے جواب میں مارٹن ریزر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنے موجودہ وسائل پر توجہ دینی چاہیے، پاکستان کے پاس بہت سارے ایسے مواقع ہیں جن سے وہ مزید سرمایہ کاری کو راغب کر سکتا ہے۔ دوسری طرف وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور سے عالمی بینک کے وفد نے پختونخوا ہائوس اسلام آباد میں ملاقات کی، مختلف سماجی اور اقتصادی شعبوں میں ورلڈ بینک کے تعاون سے جاری عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا، جن میں صحت، مواصلات، سیاحت، پن بجلی، آبی وسائل، دیہی ترقی اور دیگر شعبے شامل ہیں۔ ملاقات میں مختلف سماجی شعبوں میں صوبائی حکومت اور ورلڈ بینک کے درمیان اشتراک کار کو مزید وسعت دینے کے نئے مواقع کا جائزہ لیا گیا اور صوبائی حکومت اور ورلڈ بینک کے درمیان اشتراک اور باہمی تعاون کے دائرہ کار کو مزید وسعت دینے پر اتفاق کیا گیا۔ وفد کی قیادت ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا مارٹن رائزر کر رہے تھے۔ وفد ارکان میں گیلیئس، حنا لوثیا اور ادارے کے دیگر عہدیدار شامل تھے۔ عالمی بینک کی جانب سے دیا گیا یہ بیان خوش آئند ہونے کے ساتھ حوصلہ افزا بھی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان ماضی میں بھی کئی بڑے بڑے بحرانوں سے احسن انداز میں اُبھرا ہے اور گزشتہ برسوں میں پیدا کیے گئے سنگین بحرانوں سے بھی اُبھرنے میں سرخرو ہوچکا ہے۔ ملک و قوم نے ترقی اور خوش حالی کی جانب تیزی سے قدم بڑھائے ہوئے ہیں۔ حوصلہ افزا نتائج برآمد ہورہے ہیں۔ ملک وسائل سے مالا مال ہے، انہیں درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو صورت حال خاصی موافق ہوسکتی ہے۔ پاکستان یقیناً اپنے تمام تر اہداف کو حاصل کرتے ہوئے 2035ء تک ایک ہزار ارب ڈالر کی معیشت بننے میں کامیاب ہوگا۔
پاک ویسٹ انڈیز سیریز برابر
رواں سال ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی کارکردگی انتہائی ناقص رہی، جہاں بنگلادیش کے ہاتھوں سیریز میں وائٹ واش کا سامنا ہوا، وہیں جنوبی افریقا اور دیگر ٹیموں کے مقابلے میں پاکستان کی کارکردگی کوئی زیادہ اچھی نہ تھی۔ گو انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں 2۔1سے کامیابی ضرور ملی، لیکن باقی ٹیموں کے مقابلے پاکستان وہ کارکردگی نہ پیش کر سکا، جو اس کا خاصہ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم ٹیسٹ سیریز کھیلنے پاکستان آئی تھی تو شائقین کو امید تھی کہ اس نسبتاً کمزور ٹیم کو پاکستان باآسانی زیر کرلے گا۔ پہلے ٹیسٹ میں پاکستان نے ایسا کر بھی دِکھایا، لیکن دوسرے ٹیسٹ میں خود ویسٹ انڈیز کا شکار بن کر 35سال بعد پہلی بار اپنی سرزمین پر کالی آندھی سے شکست پائی۔ اس ہار میں ہمارے بلے بازوں کی ناقص ترین کارکردگی بنیادی وجہ قرار پاتی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز میں ہمارا کوئی بھی بلے باز قابلِ ذکر کارکردگی پیش نہ کرسکا اور مخالف بولرز کے سامنے وہ بے بس نظر آئے۔ دوسرے ٹیسٹ کا فیصلہ تو تیسرے روز ہی کچھ وقت کے کھیل کے دوران ہوگیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ویسٹ انڈیز نے پاکستان کو دوسرے ٹیسٹ میں شکست دیتے ہوئے 35سال بعد اس کی سرزمین پر فتح حاصل کرلی۔ قومی ٹیم 254 رنز ہدف کے تعاقب میں 133رنز بناکر ڈھیر ہوگئی، بابراعظم 31رنز بنا کر نمایاں رہے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان دو میچز کی سیریز ایک ایک سے برابر ہوگئی۔ ویسٹ انڈیز کے اسپنر جومیل واریکن کو پلیئر آف دی میچ اور پلیئر آف دی سیریز کے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ انہوں نے سیریز میں 85رنز دے کر 19وکٹیں اپنے نام کیں۔ ٹیسٹ کے تیسرے روز کھیل شروع ہوا تو سعود شکیل پہلے اوور کی تیسری گیند پر 13رنز بناکر پویلین لوٹ گئے۔ اگلے اوور میں نائٹ واچ مین کاشف علی بولڈ ہوگئے۔ محمد رضوان اور سلمان علی آغا کے درمیان ساتویں وکٹ کی شراکت میں 39رنز جوڑے گئے تاہم 115کے مجموعی اسکور پر سلمان علی آغا وکٹ گنوا بیٹھے۔ وکٹ کیپر محمد رضوان بھی پچ پر زیادہ دیر جم کر نہ کھیل سکے اور 25رنز بنا کر بولڈ ہوگئے۔ اس کے بعد نعمان علی 6اور ساجد خان 7رنز بنا کر پویلین لوٹ گئی۔ سیریز ایک ایک سے برابر رہی۔ اس شکست سے کھلاڑیوں کو سبق سیکھنا چاہیے، اپنی خامیوں پر قابو پانا چاہیے اور ایسی غلطیوں کو آئندہ دہرانے سے گریز کرنا چاہیے، جو شکست کی وجہ بنیں۔ اگلے مہینے پاکستان چیمپئنز ٹرافی کرکٹ کے میگا ایونٹ کی میزبانی کرنے جارہا ہے۔ اس میں دُنیا بھر کی آٹھ ٹیمیں حصّہ لے رہی ہیں۔ اس ایونٹ میں تمام کھلاڑیوں کو بہترین کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ خاص طور پر فیلڈنگ کا معیار بہتر بنانا ہوگا۔ پاکستان اپنے اعزاز کا دفاع کر رہا ہے اور قوم کو ٹیم سے بڑی توقعات وابستہ ہیں۔