پائیدار ترقی کیلئے راست کوششیں ناگزیر

ایسے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں، جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات اور معاشی تباہی کے باوجود شبانہ روز محنتوں کے طفیل دُنیا میں ممتاز مقام حاصل کیا۔ وہ ممالک بالکل تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے تھے، لیکن پھر اُنہوں نے جانفشانی کے ساتھ ترقی معکوس کے سفر کو روکا اور خوش حالی کی شاہراہ پر اس شان سے گامزن ہوئے کہ دُنیا حیران رہ گئی۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان پچھلے 6، 7سال کے دوران تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرا ہے۔ ڈھائی، تین سال قبل ایسا بھی موڑ آیا کہ جب ملکی معیشت ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار تھی۔ اُس وقت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے ڈیفالٹ کی لٹکتی تلوار سے ملک و قوم کو بچایا۔ چند سخت فیصلے لیے، جن کے ثمرات آج تک ظاہر ہورہے ہیں۔ پچھلے سال فروری میں ملک میں عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اس کے نتیجے میں ملک میں اتحادی حکومت وجود میں آئی، جس کی قیادت کا سہرا ایک بار پھر میاں شہباز شریف کے سر بندھا۔ اُنہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی شبانہ روز محنت کا آغاز کیا۔ دوست ممالک کے پے درپے دورے کرکے اُنہیں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاریوں پر رضامند کیا۔ کفایت شعاری کی راہ اختیار کی، فضول خرچیوں کے سلسلے کو بند کرنے پر توجہ دی، اصلاحات کی بناء ڈالی اور اس کے سلسلے دراز کیے۔ ٹیکس چوری کے خاتمے کے لیے صائب اقدامات کیے، جن کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں اور گزشتہ برس لاکھوں لوگوں نے ٹیکس ریٹرن جمع کرایا ہے۔ گو اب بھی بڑے بڑے پانچ فیصد ٹیکس چور ملکی معیشت کی ترقی کی راہ میں بڑی رُکاوٹ ہیں۔ اس کے باوجود معیشت بہتر رُخ اختیار کررہی ہے۔ حکومت اور ایف بی آر ان چند فیصد متمول لوگوں کو ٹیکس ادائیگی کی راہ پر لانے کے لیے کوشاں ہے اور اس ضمن اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ملک کو مختلف شعبوں میں خساروں کا سامنا ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز اسی حوالے سے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ اپنا گھر ٹھیک کیے بغیر قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا پانا مشکل ہے، پائیدار ترقی کا حصول پاکستان کی اوّلین ترجیح ہے، ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ اور فسکل اکائونٹ کا جڑواں خسارہ رہا ہے، ڈھانچہ جاتی اصلاحات سے ٹیکس ٹوجی ڈی پی شرح کو 13فیصد تک لے جانے کی کوشش ہے، حکومت اپنے اخراجات میں کمی، قرضوں کی ادائیگی کا حجم کم کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ترقی پذیر معیشتوں پر قرضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے موضوع پر منعقدہ مذاکرے سے بطور پینلسٹ گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ وزیر خزانہ نے مالیاتی پالیسیوں میں تبدیلی اور قرضوں میں پائیداری کے ذریعے مضبوط اور لچک دار معیشتوں کے قیام پر نقطہ نظر بیان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ فسکل خسارے کی سب سے بڑی وجہ 9سے 10فیصد غیر پائیدار ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح ہے، وزیر خزانہ نے کہا کہ ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے باعث ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کو 13 فیصد تک لے جانے کی کوشش جاری ہے۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بڑھائے بنا قوموں کر برادری میں باعزت مقام کا حصول ناممکن ہے، وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اپنا گھر ٹھیک کیے بنا قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قرض ٹو جی ڈی پی شرح 78فیصد سے کم ہو کر 67فیصد پر آگئی ہے۔ قرض لینا برا نہیں قرض کا صحیح استعمال ضروری ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ قرضوں سے خرچے چلانے یا سبسڈیز دینے کے بجائے پیداواری صلاحیت بڑھاکر برآمدات کو فروغ دینا چاہیے۔ پاکستان کی معاشی ترقی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 4فیصد ہوتے ہی معیشت کے درآمدات پر انحصار کے باعث ادائیگیوں کا توازن بگڑجاتا ہے۔ ادائیگیوں کے توازن کے بگڑنے سے ہر دفعہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے۔ پائیدار ترقی کا حصول پاکستان کی اوّلین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کے ڈی این اے کو تبدیل کرکے برآمدات کے ذریعے معیشت کو مستحکم بنانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ نجی شعبے کو معاشی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنا ہوگا، سی پیک فیز ٹو میں حکومت ٹو حکومت کی بجائے بزنس ٹو بزنس پر توجہ مرکوز رہے گی۔ سی پیک فیز ٹو میں چینی کمپنیوں کو پیداواری یونٹس پاکستان منتقل کرنے پر قائل کیا جائے گا، وزیر خزانہ اورنگزیب نے کہا کہ چینی کمپنیاں پاکستان کو اپنی برآمدات کا مرکز بناسکتی ہیں۔ وفاقی وزیر خزانہ کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ اپنے گھر کو ٹھیک کیے بغیر قرضوں کے بوجھ سے عہدہ برآ نہیں ہوا جاسکتا۔ اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر بلاتکان اقدامات ناگزیر ہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے حوالے سے ہدف کے حصول کے لیے مزید محنت درکار ہوگی۔ اخراجات میں جتنا ممکن ہوسکے، کمی لائی جائے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ملک و قوم پر قرضوں کا بھاری بھر کم بوجھ ہے، اس بار سے نجات کے لیے لگن اور محنت کے ساتھ صائب کوششیں بارآور ثابت ہوسکتی ہیں۔ ملک 25کروڑ آبادی کا حامل ہے، اس میں 60فیصد سے زائد نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ نوجوان ملک کی قسمت بدلنے کی پوری اہلیت رکھتے ہیں۔ پاکستان قدرت کی عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ وسائل بے پناہ ہیں۔ بس ان کو درست خطوط پر استعمال کیا جائے۔ ان شاء اللہ کچھ سال میں حالات بہتر ہوجائیں گے۔
پولیو وائرس کا نیا کیس!
دُنیا بھر کے لگ بھگ تمام ہی ممالک میں پولیو پر مکمل قابو پایا جا چکا ہے، چند ایک ممالک اب تک پولیو وائرس کے سنگین چیلنج سے نبردآزما ہیں، ان میں پاکستان بھی شامل ہے، اس کی وجہ سے ہمارے شہریوں کو بیرون ممالک سفر کے دوران بعض پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ امر ہماری جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔ پولیو وائرس سالہا سال سے بڑی تعداد میں ہمارے اطفال کو پولیو کا شکار بناتا چلا آیا ہے۔ حکومتی سطح پر مسلسل پولیو سے بچائو کی مہمات جاری رکھی جاتی ہیں۔ ان مہمات کے طفیل اتنی کامیابی ضرور ملی ہے کہ پولیو کیسز میں ماضی کے مقابلے میں خاصی کمی آگئی ہے، لیکن اس وائرس کو مکمل شکست دینے کی منزل اب بھی دُور ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے بعض والدین پروپیگنڈوں اور من گھڑت مفروضوں میں آکر اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کی ویکسین پلانی سے اجتناب کرتے چلے آرہے ہیں۔ ماضی میں اس حوالے سے حالات خاصے سنگین بھی رہ چکے ہیں جب ملک کے بعض حصّوں میں ناصرف لوگ اپنے بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے نہیں پلواتے تھے، بلکہ ان حصّوں میں پولیو کارکنان اور اُن کی حفاظت پر مامور سیکیورٹی اہلکاروں پر حملے بھی ہوتے تھے۔ پولیو سے بچائو کی مہمات کے دوران کئی اہلکار اور کارکنان جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ پولیو ہمارے معصوم بچوں کو عمر بھر کے لیے اپاہج بنارہا ہے اور ہم اس کو شکست دینے میں ناکام ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ گزشتہ برس ملک بھر میں پولیو کے 69 کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ اب سال2025کا پہلا کیس ڈی آئی خان سے سامنے آیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نئے سال 2025کا پہلا پولیو کیس جنوبی خیبر پختون خوا کے شہر ڈی آئی خان سے رپورٹ ہوگیا، حکام کے مطابق ڈی آئی خان میں حالیہ پولیو کے پھیلائو پر گہری تشویش ہے۔ صوبائی محکمہ صحت کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی یونین کونسل لچرہ میں 3سال 9ماہ کے عمر کے ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ کوآرڈی نیٹر نیشنل ایمرجنسی آپریشنز سینٹر، محمد انوار الحق نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر حل تلاش کر رہے ہیں۔ سال 2025کی پہلی قومی پولیو مہم 3 فروری سے شروع ہورہی ہے، جس میں ڈی آئی خان سمیت تمام پولیو سے متاثرہ اضلاع پر خصوصی توجہ دی جائے گی، جنوبی خیبر پختونخوا سمیت پاکستان کے ہائی رسک اضلاع میں پولیو کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ پولیو کا نیا کیس سنگین حالات کی غمازی کرتا ہے۔ پولیو کو شکست دینے کے لیے اس سے بچائو کی مہمات کو ہر صورت کامیاب بنانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اپنا کردار نبھائے۔ پولیو سے بچائو کی ویکسین سے متعلق جھوٹ کے خلاف ہر مکتب فکر کی شخصیت اپنا کردار ادا کرے۔ بتایا جائے کہ پولیو ویکسین کے کوئی سائیڈ افیکٹس نہیں بلکہ یہ ہمارے معصوموں کو زندگی بھر کی معذوری سے بچانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ تمام والدین اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچائو کے قطرے لازمی پلوائیں۔