ColumnRoshan Lal

ٹرمپ، منتخب صدر یا امریکی شہنشاہ

تحریر: روشن لعل
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور صدارت کے دوران اکثر لوگوں نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کر لی تھی کہ وہ انتہائی غیر متوقع انسان ہیں۔ امریکی صدر کی حیثیت سے دوسری مرتبہ حلف اٹھانے کے فوراً بعد انہوں نے جو احکامات جاری کیے انہیں دیکھتے ہوئے قانون شناس لوگوں نے اب یہ سوچنا شروع کر دیا ہے کہ ٹرمپ غیر متوقع ہونے کے ساتھ اب شہنشاہوں کی طرح اپنے اختیارات استعمال کرنے کی طرف مائل ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ شہنشاہ نہ صرف خود اپنی ذات کو قانون کی پاسداری سے ماورا سمجھا کرتے تھے بلکہ ان کی رعایا بھی ان کے حکم کو حتمی قانون سمجھتی تھی۔ اپنی دوسری صدارت کے پہلے روز ٹرمپ نے جس طرح اور جس قسم کے احکامات جاری کیے اس سے یہ گمان ہونے لگا ہے کہ قانون سازی کا عمل ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے جس مقام پر پہنچا، ٹرمپ اسے آگے لے جانے کی بجائے پیچھے کی طرف موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قانون سازی کی قدیم روایتیں قبل از مسیح ادوار میں تلاش کی جا چکی ہیں لیکن تاریخ دانوں کی اکثریت برطانیہ میں تحریر کیے گئے میگنا کارٹا کو قانون سازی کے جدید رجحانات کی بنیاد قرار دیتی ہے۔ سال 1215میں تحریر کیے گئے میگنا کارٹا میں پہلی مرتبہ یہ طے کیا گیا تھا کہ آئندہ بادشاہ کی ذات اور اس کی حکومت کو قانون سے بالا تصور نہیں کیا جائے گا۔ بعد ازاں برطانیہ اور یورپ میں قانون سازی کا عمل میگنا کارٹا کی روح کے مطابق ارتقائی مراحل طے کرتا رہا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں قانون سازی کا عمل یورپی روایتوں کے تسلسل میں شروع ہوا اور ان کے مطابق آگے بڑھتا رہا۔ امریکی آئین و قانون کے مطابق ہر امریکی صدر، ملک کا کمانڈر ان چیف ، حتمی انتظامی اختیارات کا حامل، پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو ویٹو کرنے ، ملک کے اعلیٰ ترین انتظامی عہدوں پر تعیناتی کرنے، کسی شہری کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزا اور ثابت شدہ جرم کو معاف کرنے ، خارجہ امور کو طے کرنے اور کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں طاقت کے حتمی استعمال کا اختیار رکھنے کے ساتھ دیگر کئی استحقاق کا حامل حکمران ہوتا ہے۔ اس قدر اختیار رکھنے والے امریکی صدر کو دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک کے حکمران سے زیادہ طاقتور اور با اختیار سمجھا جاتا ہے۔ ایسی قطعی حیثیت رکھنے کے باوجود ماضی کے کسی امریکی صدر نے اپنے اختیارات اس طرح آمرانہ طریقے سے استعمال نہیں کیے جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ یہ اختیارات پہلے دور صدارت میں استعمال کرنے کے چار سال بعد دوسری مرتبہ صدر کا عہدہ سنبھالتے ہی پھر سے استعمال کرنا شروع ہو چکے ہیں۔
امریکی صدور، مجرموں کو عدالت کی طرف سے دی گئی سزا اور ثابت شدہ جرم معاف کرنے کا ناقابل تنسیخ حکم جاری کرنے کا آئینی اختیار رکھتے ہیں ۔ اکثر امریکی صدر یہ اختیار استعمال کرنے میں اتنے محتاط رہے کہ 1921کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے علاوہ صرف دو صدور نے اس اختیار کے تحت سزا یافتہ مجرموں کو معاف کیا۔ یہ دونوں صدر باپ اور بیٹا، جارج بش سینئر اور جارج بش جونیئر تھے۔ ان دونوں میں سے جارج بش سینئر نے78اور جارج بش جونیئر نے200مجرموں کو معاف کرنے کا صدارتی حکم نامہ جاری کیا۔ ان دونوں نے مجرموں کو معاف تو کیا لیکن حجت کے مطابق ہر مرتبہ پارڈن اٹارنی کے دفتر سے مشاورت کے بعد اپنا اختیار استعمال کیا۔ اس معاملے میں اپنے پہلے دور صدارت کے دوران ٹرمپ کا طرزعمل یہ رہا کہ اس نے چار برسوں کے دوران 237مجرموں کو معافی نامے جاری کیے ۔ ان 237مجرموں میں سے صرف 25ایسے تھے جنہوں نے پارڈن اٹارنی کی وساطت سے صدر سے معافی کی درخواست کی ۔ اس بات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت میں 212مجرموں کو معاف کرتے وقت پارڈن اٹارنی کی مشاورت اور اس کے دفتر کے کردار کو بری طرح نظر انداز کیا۔ ٹرمپ کا پہلا دور صدارت ختم ہونے سے پہلے 212ایسے مجرموں کی سزائیں معاف کی گئیں جنہوں نے پارڈن اٹارنی کو کوئی درخواست نہیں دی تھی ۔پارڈن اٹارنی سے مشاورت کے بغیر ٹرمپ نے ان 1400امریکی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جنہوں نے پارڈن اٹارنی کے دفتر میں اپنی سزا کی معافی کے لیے باقاعدہ درخواستیں دے رکھی تھیں۔ امریکی صدر مجرموں کو دو طرح سے معاف کر سکتا ہے ایک معافی نامہ جسے پارڈ ن(Pardon)کہتے ہیں اس کے تحت مجرم کی سزا کے ساتھ جرم بھی معاف ہو جاتا ہے ، دوسری معافی کمیوٹیشن (Commutation)ہے جس سے صرف سزا معاف کی جاتی ہے اور جرم برقرار رہتا ہے۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی صدارتی مدت کے دوران پہلے سال ایک، دوسرے سال 6تیسرے سال 11چوتھے سال 52اور آخری سال2021کے صرف بیس دنوں میں 74مجرموں کو پارڈن کے تحت معافی دی۔ اسی دور میں اس نے پہلے برس ایک دوسرے برس3 تیسرے برس 2چوتھے برس 18اور آخری سال 2021کے چند دنوں میں70مجرموں کی سزائیں کمیوٹیشن کے تحت معاف کیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے صدارتی دور کے آخری دنوں میں آئینی اختیارات آمرانہ انداز میں استعمال کرنے کا سلسلہ جہاں پر ختم کیا تھا ، دوسری صدارتی مدت کے پہلے دن وہیں سے شروع کیا۔ پہلی صدارتی مدت پوری کرنے کے بعد جب 2020 کے الیکشن میں ٹرمپ کو جو بائیڈن کے ہاتھوں شکست ہوئی تو ٹرمپ سمیت اس کے حامیوں نے انتخابی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے6جنوری کو کانگریس کی سٹیٹ بلڈنگ پر حملہ کر دیا۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی ایجنسیوں نے سخت ایکشن کرتے ہوئے یہ حملہ ناکام بنایا۔ اس حملے کو ناکام بنانے کے لیے جو کاروائی ہوئی اس کے نتیجے میں پانچ حملہ آوروں سمیت ایک پولیس آفیسر ہلاک ہوا اور کئی حملہ آوروں سمیت 174پولیس آفیسر زخمی ہوئے۔ ٹرمپ کے حامی مشتعل حملہ آوروں نے جو توڑ پھوڑ کی اس کے نتیجے میں 2.7ملین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ اس حملے کے الزام میں 1586لوگ گرفتار ہوئے یا انہیں سزا دی گئی ۔ ان لوگوں میں سے 600پر پولیس پر حملہ کرنے اور 175 پر پولیس کے خلاف ہتھیار استعمال کرنے کا الزام تھا۔ ان سزا یافتہ حملہ آوروں کی اکثریت گزشتہ چار برس کے دوران اپنی قید کی سزا پوری کرنے کے بعد رہا ہو چکی تھی لیکن 250کے قریب لوگ اب بھی جیلوں میں بند اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔ ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالتے ہی ایک مرتبہ پھر پارڈن اٹارنی کا دفتر نظر انداز کرتے ہوئے 6جنوری کے تمام مجرموں کو معاف کرنے کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ ٹرمپ کے پارڈن کو دیگر تمام مجرموں نے تو قبول کر لیا لیکن پامیلا ہیمفل نامی عمررسیدہ خاتون نے یہ کہا کہ6 جنوری کے حملے میں وہ خود کو غلطی پر اور قصور وار سمجھتے ہوئے شرمسار ہے اس لیے پارڈن قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ پامیلا ہیمفل جیسے لوگ چاہے جو بھی سمجھیں لیکن ٹرمپ شاید خود کو منتخب صدر کی بجائے امریکی شہنشاہ سمجھتے ہوئے قانونی و اخلاقی حجتیں پوری کیے بغیر کچھ بھی کرنا جائز سمجھتا ہے۔

جواب دیں

Back to top button