فوج کا شفاف اور کڑا احتسابی نظام
پاک فوج جہاں اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے باعث دُنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہے، وہیں اپنے شفاف اور کڑے احتسابی نظام کے حوالے سے بھی خصوصی شہرہ رکھتی ہے۔ اس جیسا شفاف اور کڑا احتسابی نظام ملک کے کسی اور شعبے میں نہیں۔ فوج انتہائی منظم ادارہ ہے، جس کے ہر فرد کی پیشہ ورانہ مہارت اور وفاداری صرف ریاست و افواج پاکستان کے ساتھ ہے۔ پاک فوج غیر متزلزل عزم سے ایک مضبوط اور کڑے احتساب کے ذریعے اپنی اقدار کی پاسداری کرتی ہے، جس میں کسی قسم کی جانبداری اور استثنیٰ کی گنجائش نہیں ہوتی، ادارے کے استحکام کا تقاضا بھی ہے کہ کوئی فرد اس عمل سے بالاتر یا مستثنیٰ نہ ہو۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پہلی شخصیت نہیں جن کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہورہی ہو، فوج اپنے کڑے احتسابی عمل کو کئی بار عملی جامہ پہلے بھی پہناچکی ہے۔ فوج میں احتساب سے کوئی مبرا نہیں، جرم کرنے پر فوجیوں کو بلاامتیاز سزائیں بھی ملتی ہیں، انہیں احتساب اور سزا کے کڑے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ ماضی میں کئی افسران کے کورٹ مارشل ہوچکے ہیں۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کا کورٹ مارشل ہوا تھا، انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی جس کے بعد ضابطہ فوجداری کی خلاف ورزی پر عمر قید کی سزا ہوئی جو بعد ازاں تبدیل کردی گئی۔ 22فروری 2019ء کو دو سینئر افسران کا کورٹ مارشل ہوا۔ لیفٹیننٹ جنرل جاوید اقبال کو جاسوسی کے الزام میں 3مئی 2019ء کو عمر قید کی سزا سنائی گئی اور تمام مراعات اور پنشن اور جائیداد ضبط کرلی گئی۔ بریگیڈئیر رضوان کا غیر ملکی اداروں کے ساتھ روابط پر کورٹ مارشل ہوا اور14 سال کی سزا سنائی گئی۔ میجر جنرل ظہیر الاسلام کے خلاف سیاچن میں ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی کی گئی اور انہیں 30جولائی 1995ء کو فوج سے برطرف کر کے تمام مراعات واپس لے لی گئیں۔ آرمی انجینئر کرنل شاہد کا شمسی ایئر بیس پر جاسوسی کے الزام میں کورٹ مارشل ہوا اور انہیں فوج سے نکال دیا گیا۔ میجر جنرل تجمل حسین کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 1995ء میں 14سال کی سزا ہوئی۔ بغاوت کیس میں بریگیڈئیر مستنصر بلا اور چار افسران کا کورٹ مارشل ہوا، انہیں 14سال کی سزا ہوئی اور تمام مراعات اور پنشن ضبط کرلی گئی۔ امسال کے وسط میں سابق کور کمانڈر ایمن بلال پر سیاسی الزامات لگے، جبری ریٹائرڈ کیا گیا اور ان کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی ہوئی۔ فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم چلانے کے الزام میں سابق لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین، میجر (ر) عادل راجہ اور حیدر مہدی کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں 14سال کی سزا سنائی گئی اور پاکستان میں ان کی تمام جائیداد ضبط کرلی گئی۔ اسی طرح 9مئی کے واقعے میں غفلت برتنے پر قریباً 15افسران کے خلاف کارروائی ہوئی، جن میں سابق کور کمانڈر لاہور، دو میجر جنرل، پانچ بریگیڈئیر اور کرنل، میجر بھی شامل تھے۔ اب فوج کے اسی کڑے احتسابی نظام کے تحت لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کارروائی میں اُنہیں چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی و لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی کے اگلے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق 12اگست 2024ء کو پاکستان آرمی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ( ر) کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اگلے مرحلے میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ( ر) کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران ملک میں انتشار اور بدامنی سے متعلق پُرتشدد واقعات میں لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید ( ر) کے ملوث ہونے سے متعلق علیحدہ تفتیش بھی کی جارہی ہے۔ ان پرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں 9مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ان متعدد پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے عمل کے دوران لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کو قانون کے مطابق تمام قانونی حقوق فراہم کیے جارہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ( ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی ظاہر کرتی ہے کہ کوئی بھی شخص چاہے وہ کتنے ہی بڑے عہدے پر کیوں نہ ہو، قانون سے بالاتر نہیں، اگر اُس سی کوئی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی یا جرم سرزد ہوا ہے تو اُسے اس کے کیے کی سزا ضرور ملے گی۔ وہ کسی طور بچ نہیں پائے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاک فوج کا احتسابی عمل بہت شفاف اور کڑا ہے، جو فوری حرکت میں آ کر حقائق اور ثبوتوں کی روشنی میں، معاملات کو قانون کے مطابق سختی کے ساتھ نمٹاتا ہے۔ فوج میں احتساب اور قانون کی عملداری کا جتنا مضبوط اور شفاف نظام ہے اُس کی کسی اور جگہ مثال نہیں ملتی۔
شذرہ۔۔۔۔
شام میں پھنسے 350پاکستانی لبنان پہنچ گئے
گزشتہ دنوں شام میں اسد خاندان کے 53 سال سے زائد عرصے پر محیط اقتدار کا خاتمہ ہوا تھا۔ یوں بشارالاسد کی صدارت کا 24سالہ دور بھی اختتام کو پہنچا تھا۔ بشارالاسد اپنے اہل خانہ کے ہمراہ روس پہنچ چکے ہیں، جہاں اُنہیں سیاسی پناہ مل چکی ہے۔ شام میں اس وقت بے یقینی کی صورت حال ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے شام میں مقیم پاکستانیوں کی بحفاظت وطن واپسی یقینی بنانے کے لیے احکامات صادر کیے تھے۔ اس سلسلے میں تیزی سے اقدامات یقینی بنائے جارہے ہیں۔ وہاں موجود تمام پاکستانیوں کی بخیر و عافیت واپسی کے لیے سفارت خانے کے حکام سنجیدگی سے کوشاں ہیں اور اس ضمن میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھ رہے۔ اسی سلسلے میں منگل کو ساڑھے 3سو سے زائد پاکستانیوں کو بہ حفاظت لبنان منتقل کر دیا گیا ہے۔ ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق شام میں پھنسے پاکستانیوں کے انخلا کے لیے اقدامات شروع، 350 سے زائد پاکستانی بحفاظت لبنان پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق بیروت پہنچنے والے پاکستانیوں کو خصوصی پرواز سے وطن واپس لایا جائے گا، لبنان پہنچنے والے پاکستانیوں میں 20اساتذہ اور طلبا بھی شامل ہیں۔ بیروت ایئرپورٹ سے پاکستانیوں کیلئے خصوصی پرواز چلانے کا امکان ہے، وزیراعظم کی ہدایت پر سول ایوی ایشن خصوصی پروازوں کی اجازت دے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے شام اور لبنان میں پاکستانی سفارت خانے کے حکام شام سے شہریوں کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ شام سے پاکستانیوں کی بحفاظت وطن واپسی کے لیے سفارت خانے کے حکام اور عملے کی کوششیں لائق تحسین ہیں۔ ضروری ہے کہ شام سے تمام پاکستانیوں کی بخیر و عافیت وطن واپسی یقینی بنائی جائے اور اس کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جائیں۔ اس ضمن میں چنداں تاخیر نہ کی جائے۔