انتہاپسندی کی روک تھام، قومی پالیسی بنانے کی منظوری
موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے محض 9ماہ ہی ہوئے ہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی ولولۂ انگیز قیادت میں اس حکومت نے عظیم کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ حکومتی اقدامات کے طفیل ناصرف گرانی سنگل ڈیجیٹ پر آگئی ہے بلکہ ہر شعبے سے حوصلہ افزا اطلاعات بھی سامنے آرہی ہیں۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں روزانہ ہی کاروبار کے نئے ریکارڈز بن رہے ہیں۔ شرح سود میں پچھلے مہینوں میں خاطرخواہ کمی دیکھی گئی ہے اور مزید کمی کی توقع ہے۔ پاکستانی روپیہ پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں سے سستی سے ہی سہی اُبھرتا نظر آتا ہے۔ معیشت کا پہیہ چلنے لگا ہے۔ صنعتوں سے پیداوار بڑھ رہی ہے۔ آئی ٹی اور زراعت پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے، جس سے آئندہ وقتوں میں ان شعبوں سے ملک و قوم کو بڑے فوائد میسر آسکیں گے۔ ملک میں دوست ممالک و دیگر کی جانب سے بڑی سرمایہ کاریاں کی جارہی ہیں۔ پچھلے 6ساڑھے 6سال کے دوران غریبوں کی پہلی مرتبہ حقیقی اشک شوئی ان 9ماہ کے دوران ہوتی دیکھی گئی ہے۔ ملک میں افراط زر 70ماہ کی پست ترین سطح پر آگئی ہے۔ ملک کے حوالے سے مختلف بین الاقوامی ادارے آئندہ وقتوں میں خوش کُن پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ ایسا تب ہی ہوسکتا ہے، جب امن و امان کی صورت حال برقرار ہو، انتہاپسندی اور دیگر خرابیاں معاشرے میں وجود نہ رکھتی ہوں۔ سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کرنے کی مذموم کوششیں نہ کی جائیں۔ جیسا نومبر کے آخری ہفتے میں اسلام آباد میں بدترین صورت حال پیدا کرنے کی مذموم کوششیں سامنے آئیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کی ٹیم کو ان مسائل کا ادراک ہے، تبھی گزشتہ روز پُرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے وفاقی کابینہ نے قومی پالیسی بنانے کی منظوری دی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی معیشت کی بہتری، گرانی اور افراطِ زر میں کمی اور دیگر کامیابیوں کا احاطہ کرنے کے ساتھ سیاسی عدم استحکام و دیگر چیلنجز سے متعلق کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس میں شرکت پر ارکان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے میں آپ کو ایک اچھی خبر دے رہا ہوں کہ 70ماہ بعد افراط زر اس نومبر میں اپنی کم ترین سطح پر ہے، 2018ء میں نواز شریف کے دور میں افراط زر 3.5فیصد تھی، اب اس مہینے میں یہ 4.9فیصد تک پہنچی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے، اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، کیونکہ افراط زر واحد وہ ہتھیار ہے جو غریب آدمی کی غربت میں مزید اضافہ کرتا ہے یا آسودگی لے کر آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 70ماہ بعد ایک ریکارڈ کمی آئی ہے، ملک کے اندر عام آدمی، غریب آدمی کا بوجھ مزید کم ہوگا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ امید کی جانی چاہیے کہ افراط زر میں کمی سے اب اسٹیٹ بینک کے آئندہ اجلاس میں پالیسی ریٹ مزید کم ہوگا، تاہم فیصلہ اسٹیٹ بینک کو کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ چاہتا تھا کہ پچھلے دنوں جو دھرنوں نے ملک میں ہیجانی کیفیت پیدا کردی تھی اور ملک کے اندر خاص طور پر اسلام آباد میں ہر طرف افراتفری اور ہیجان کا ماحول تھا، توڑ پھوڑ کی گئی اور پولیس و رینجرز کے اہلکار شہید ہوئے، درجنوں زخمی ہوئے اور اپنے ان انتہائی غلط اور غیر قانونی ہتھکنڈوں سے ملک کی عالمی سطح پر بے عزتی کرائی گئی۔ ایک دن کے اندر اسٹاک ایکسچینج ساڑھے تین ہزار پوائنٹس نیچے آگئی، لیکن ڈی چوک سے پیچھے ہٹتے ساتھ ہی اگلے دن اسٹاک ایکسچینج میں دوبارہ فوری بہتری آئی۔ انہوں نے کہا کہ افراط زر میں کمی ٹیم ورک کا نتیجہ ہے، ہم نے مزید عرق ریزی اور محنت سے کام کرنا ہے، اس کے ثمرات آنے والے دنوں میں مثبت ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر محصولات کا ہدف حاصل کرے گا تو بہتری آئے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے چینی کی برآمد کی اجازت دی تو اس سے 500ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا اور ملکی سطح پر چینی کی قیمتیں بھی کم ہوئیں۔ پاک فوج کے اقدامات سے افغانستان کو چینی کی اسمگلنگ کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔ آج ملک میں چینی کا وافر اسٹاک موجود ہے۔ اسی طرح ایف بی آر کو بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف اور ان کی ٹیم کی کاوشوں سے یورپ کے لئے پی آئی اے کی پروازیں بحال ہوگئی ہیں، ان پروازوں کی بندش سے قوم کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ ایک منچلے وزیر کے پی آئی اے میں پائلٹس کی جعلی ڈگریوں کے بیان سے یہ نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پی آئی اے کی نجکاری نہ ہونے کی ایک وجہ ان روٹس کی بندش بھی تھی۔ اس پر سابق وزیر ہوا بازی خواجہ سعد رفیق اور ان کی ٹیم کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ پوری قوم اور سیاسی قیادت کو بھی اس پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی استحکام کے ساتھ اب گروتھ بھی حاصل کرنی ہے، اقتصادی اہداف حاصل کریں گے۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ نے پرتشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی قومی پالیسی 2024ء کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے وزارت داخلہ کی سفارش پر پر تشدد انتہاپسندی کی روک تھام کی قومی پالیسی 2024ء کی منظوری دے دی۔ کابینہ نے وزارت قانون و انصاف کی سفارش پر اور سندھ ہائیکورٹ کراچی کے احکامات کی روشنی میں خصوصی عدالتوں کی حدود/دائرہ کار میں تبدیلی کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ملک ترقی و خوش حالی کی راہ پر تیزی سی گامزن ہے۔ کامیابی کے اس سفر میں رُکاوٹیں بننے والے عناصر کا تدارک ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی بنانے کی منظوری احسن اقدام ہے۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس پالیسی کو وضع اور حتمی شکل دینے کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کوششیں ہونی چاہیے۔ اس ضمن میں تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں۔ پاکستان پہلے ہی سیاسی عدم استحکام، انتہاپسندی، دہشت گردی اور دیگر خرابیوں کے باعث بے پناہ نقصانات اُٹھا چکا ہے، اب مزید اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ امن و امان ملک و قوم کی ضرورت ہے۔ ترقی کے سفر کو مہمیز دینے کے لیے امن ایندھن کا کام کرتا ہے۔ امید ہے کہ ملک سے پُرتشدد انتہاپسندی، سیاسی عدم استحکام، دہشت گردی اور دیگر خرابیاں جلد ختم ہوں گی اور ملک و قوم تیزی سے ترقی و خوش حالی کے مدارج طے کریں گے۔
شذرہ۔۔۔۔۔
ملک کو پولیو سے پاک کیا جائے
پاکستان میں ہزارہا کوششوں کے باوجود پولیو وائرس کو مکمل شکست نہیں دی جا سکی ہے۔ حالانکہ دُنیا بھر کے لگ بھگ سبھی ملکوں سے پولیو وائرس کا خاتمہ ہوچکا ہے، چند ایک ملک اب تک اس چیلنج سے نبردآزما ہیں، جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے۔ رواں سال اب تک پاکستان بھر سے 59کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، یہ صورت حال تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ پاکستان اور اُس کے عوام کو پولیو وائرس کے باعث پابندیوں کا بھی سامنا رہتا ہے۔ بیرون ملک سفر کے لیے اُنہیں اس حوالے سے ویکسی نیشن کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ پولیو وائرس سالہا سال سے ہمارے اطفال کو عمر بھر کی معذوری سے دوچار کر رہا ہے۔ اب تک بے شمار بچے پولیو وائرس کے باعث زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوچکے ہیں۔ اس وائرس کے تدارک کے لیے وطن عزیز میں پولیو سے بچائو کی مہمات سالہا سال سے جاری ہیں۔ ان کی نتیجے میں پولیو کیسز میں خاصی کمی ضرور واقع ہوئی ہے، لیکن اس کے خلاف مکمل کامیابی اب بھی ہم سے دُور ہے۔ حکومتی سطح پر ہر کچھ عرصے بعد پولیو سے بچائو کی مہم شروع کی جاتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض والدین اپنے پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو وائرس سے بچائو کی ویکسین پلوانے سے اجتناب کرتے ہیں۔ وہ پولیو ویکسین سے متعلق پروپیگنڈوں کا شکار ہیں۔ حالانکہ پولیو سے بچائو کی ویکسین کسی بھی قسم کے سائیڈ افیکٹس سے مبرا ہے اور یہ صرف اور صرف بچوں کو پولیو سے بچانے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی پولیو کا نیا کیس سامنے آتا ہے۔ گزشتہ روز تین نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان میں پولیو وائرس کے تین مزید کیسز کی تصدیق ہوگئی۔ نیشنل ای او سی کے مطابق پولیو کے نئے کیس ڈیرہ اسماعیل خان، کراچی کے ضلع کیماڑی اور کشمور سے رپورٹ ہوئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے اب تک 8پولیو کیس رپورٹ ہوچکے ہیں، کراچی کے ضلع کیماڑی سے رواں سال اب تک 3پولیو کیس رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ سندھ کے شہر کشمور میں رواں سال پولیو کا یہ پہلا کیس سامنے آیا ہے۔ نیشنل ای او سی کے مطابق رواں سال ملک میں پولیو کیسز کی تعداد 59ہوگئی ہے۔ رواں سال بلوچستان سے 26اور خیبرپختونخوا سے 16پولیو کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ سندھ سے 15اور پنجاب و اسلام آباد سے ایک ایک کیسز سامنے آئے ہیں۔ اگر اب بھی پولیو کا راستہ نہ روکا گیا تو آگے چل کر حالات مزید سنگین ہوجائیں گے۔ پولیو مہمات کو کامیاب بنانے کے لیے ہر مکتب فکر کے افراد اپنا حصہ ڈالیں۔ پولیو ویکسین سے متعلق پراپیگنڈوں کا توڑ ہر صورت کیا جائے۔ اس حوالے سے آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے۔ والدین کو بتایا جائے کہ پولیو سے بچائو کے قطرے پلانا آپ کے بچوں کے لیے ازحد ضروری ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کے بچے عمر بھر کی معذوری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پولیو ویکسین سے متعلق جھوٹ گھڑا گیا ہے۔ پولیو مہمات کی مکمل کامیابی ملک سے اس وائرس کے خاتمے کی نوید ثابت ہوگی۔