پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ
پاکستان میں کرونا وبا کی آمد کے بعد تک پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں معقول سطح پر تھیں، وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستانی روپیہ مستحکم تھا اور ڈالر نے اسے چاروں شانے چت نہیں کیا تھا، مہنگائی نے بھی اُس طرح زور نہیں پکڑا تھا، جیسے بعد میں اُس وقت کی ناقص حکمت عملیوں کے باعث انتہائی سُرعت سے بڑھی۔ حالانکہ کرونا سے پاکستان میں زیادہ تباہی نہیں پھیلی تھی، اس عالمی وبا سے اموات کی شرح دُنیا کے تمام تر خطوں کے مقابلے میں خاصی کم تھی، معیشت کو بھی اس سے اتنی زیادہ زک نہیں پہنچی تھی، جیسے دُنیا کے دیگر خطوں میں دیکھنے میں آئی، لیکن اس کے باوجود پاکستان معاشی طور پر اس سے سب سے زیادہ متاثر ملک دِکھائی دیا، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ناقص حکمت عملی اور پالیسیاں کہہ لیں یا معیشت سے کھلواڑ کا طرز عمل، وجہ کچھ بھی ہو، لیکن اس سے ملک و قوم کا بھرکس نکل کر رہ گیا، جو گرانی 2035۔40ء میں عوام النّاس کا مقدر بننی تھی وہ بہت پہلے 2021ء میں ہی قوم پر بُری طرح مسلط کردی گئی۔ پاکستانی روپیہ روز بروز بے توقیر ہوتا رہا۔ ڈالر تیزی سے مضبوط و مستحکم ہورہا تھا۔ اسی تناسب سے مہنگائی کے نشتر بھی قوم پر مسلط کیے جاتے رہے۔ پٹرول کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر اُسی وقت پہنچی تھی۔ یہاں تک کہ ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر آگیا تھا۔ ملک و قوم کی کسی کو چنداں پروا نہ تھی، بس اقتدار کا ہُما سر پر سجائے رکھنے کا جنون تھا، امورِ مملکت درست خطوط پر چلانے کے بجائی، کرسی بچائو مہم کو رواج دیا گیا اور اس کے لیے ہر حد عبور کی گئی۔ اس کے نتائج ملک و قوم کو ہولناک انداز میں بھگتنے پڑے۔ عوام روزانہ ہی مہنگائی کی چکی میں بُری طرح پستے چلے جارہے تھے۔ اُن کے لیے ہر آنے والا نیا دن بدترین گرانی کے نشتر کا باعث بن رہا تھا۔ عوام روز دعا کرتے تھے کہ اُن کی اشک شوئی کی کچھ سبیل ہو۔ ملکی حالات بہتر رُخ اختیار کریں۔ قوم کی خدا نے سُن لی اور پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت آنے سے صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا۔ شہباز شریف کی سربراہی میں قائم ہونے والی اُس وقت کی حکومت کا بڑا کارنامہ ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے بچانا تھا۔ گو اُس وقت حالات کے پیش نظر حکومت نے بولڈ فیصلے کیے، جن کے اثرات عوام پر بُری طرح مرتب ہوئے، لیکن ایسا کرنا وقت کی ضرورت تھی۔ پی ڈی ایم حکومت مدت اقتدار پوری کرنے کے بعد الگ ہوئی تو حالات نے بہتر رُخ اختیار کرنا شروع کردیا تھا۔ نگراں دور میں بھی ملک و قوم کی بہتری کے لیے چند بڑے اقدامات کیے گئے، جن کے نتیجے میں پاکستانی روپیہ تھوڑا بہت مستحکم ہوا۔ ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، اُس کے نرخ گرے۔ پٹرولیم
مصنوعات کی قیمتوں میں بڑی کمی دیکھنے میں آئی جو اُس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں موجودہ اتحادی حکومت برسراقتدار آئی، جس نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں عظیم معرکے سر کیے اور اصلاحات پر مبنی ایسے اقدامات کیے، حکومتی آمدن میں خاطرخواہ اضافہ یقینی بنایا گیا، ساڑھے 6سال کے دوران پہلی بار عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوتی نظر آئی۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مسلسل کم ہورہی ہیں۔ مہنگائی سنگل ڈیجیٹ پر آگئی۔ شرح سود میں واضح اور بڑی کمی ممکن ہوسکی۔ پاکستان میں عظیم سرمایہ کاریاں آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ معیشت نے بہتر رُخ اختیار کیا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے سلسلے رہے۔ گو چند ایک بار حکومت کو ان کی قیمتیں بڑھانی بھی پڑیں، لیکن عالمی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں بڑا اضافہ اس کی وجہ تھا۔ بحالت مجبوری حکومت کو پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھانے پڑتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ایک مشکل فیصلہ سامنی آیا ہے۔ ملک میں آئندہ 15روز کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردو بدل کردیا گیا۔ وزارت خزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ردّوبدل کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 3روپے 72پیسے فی لٹر اضافے کے بعد نئی قیمت 252روپے 10پیسے فی لٹر مقرر کی گئی ہے۔ ڈیزل کی قیمت میں 3روپے 29 پیسے فی لٹر اضافے کے بعد 258 روپے 43پیسے فی لیٹر ہوگی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق مٹی کے تیل کی قیمت میں 62پیسے فی لٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی قیمت میں 48پیسے فی لٹر کمی کی گئی ہے۔ مٹی کے تیل کی نئی قیمت 164روپے 98پیسے فی لٹر اور لائٹ ڈیزل آئل کی نئی قیمت 151روپے 73پیسے فی لٹر ہوگی۔ پٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو چکا ہے۔ موجودہ حکومت عوام کا درد اپنے دل میں محسوس کرتی ہے۔ وزیراعظم کو غریبوں کے مصائب و مشکلات کا پوری طرح ادراک ہے۔ وہ غریبوں کے مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہیں، اُنہیں مہنگائی سے مکمل نجات دلانا چاہتے ہیں۔ آگے پٹرولیم مصنوعات سمیت اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں خاطرخواہ کمی ضرور واقع ہوگی۔ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان میں آئندہ وقتوں میں مہنگائی میں مزید کمی کی پیش گوئی کررہے ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں تمام دلدر دُور ہوجائیں گے اور ملک و قوم ترقی و خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوتے ہوئے بڑی کامیابیاں سمیٹیں گے۔
اسموگ: 68فیصد آبادی
طبی مسائل کا شکار
پاکستان کے اکثر حصّوں میں موسم سرما میں اسموگ کا چیلنج سر اُٹھاتا اور عوام کی بڑی تعداد کو متاثر کرتا ہے۔ پچھلے کافی سال سے یہ سلسلہ جاری ہے، اسموگ میں کمی کے بجائے اضافے ہی نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی کا بڑھنا ہے، جو انسان دشمن ثابت ہورہا ہے، اس کے باعث بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیاں بھی ہورہی ہیں، سخت سردی اور جھلساتی گرمی کے موسموں سے لوگوں کا واسطہ پڑرہا ہے، ایسے موسم فصلوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہورہے ہیں، انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، بچے اس سے زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں۔ نت نئے امراض پیدا ہورہے ہیں۔ پنجاب میں اسموگ کا مسئلہ زیادہ شدّت سے دیکھنے میں آتا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی قیادت میں صوبائی حکومت نے اسموگ تدارک کے لیے احسن اقدامات یقینی بنائے، جن کے انتہائی مثبت نتائج سامنی آئے۔ اسموگ کا زور ٹوٹتا نظر آیا، لیکن اب بھی اسموگ کے مکمل تدارک کے لیے تسلسل کے ساتھ بڑے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا اسموگ سے عوام کی بڑی تعداد متاثر ہوتی ہے اور اُنہیں طبی مسائل بھی درپیش ہوتے ہیں۔ بچے اور بزرگ حسّاس اور نازک ہونے کے باعث امراض کی لپیٹ میں جلد آجاتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک سروے رپورٹ سامنے آئی ہے، جس میں پاکستان کی 68 فیصد آبادی طبی مسائل سے دوچار بتائی گئی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق 68 فیصد پاکستانی اسموگ کے باعث طبی مسائل کا شکار ہیں۔ یہ بات اپسوس پاکستان کے نئے سروے میں سامنے آئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسموگ سے عوام نے سب سے زیادہ سانس کے امراض میں مبتلا ہونے کاکہا ۔ سروے میں 68 فیصد نے کھانسی ، 66فیصد نے فلو، 37 فیصد نے سانس لینے میں مشکلات جبکہ 29 فیصد نے آنکھوں میں جلن کی شکایت کی۔ اسموگ سے طبی مسائل کا شکار ہونے والوں کی سب سے زیادہ شرح پنجاب میں 77 فیصد نظر آئی،جس میں راولپنڈی ، اسلام آباد میں 87 فیصد ، لاہور میں 84 فیصد افراد نے سانس کے امراض میں مبتلا ہونے کا بتایا۔ خیبرپختونخوا کے شہر پشاور میں 76 فیصد نے اسموگ کے باعث سانس کے امراض میں مبتلا ہونے کی شکایت کی۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکر ہیں۔ اسموگ کے تدارک کے لیے جہاں حکومتیں کوشاں ہیں، وہیں عوام کو بھی ذمے داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ماحول کو انسان دوست بنانے میں ہر شہری اپنا حصّہ ڈالے، جس طرح لوگ اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح یہ گلی محلے، سڑکیں، عوامی مقامات بھی آپ ہی کے ہیں۔ انہیں بھی صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان مقامات پر گندگی پھیلانے سے گریز کریں۔ صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے، اس پر سختی سے عمل پیرا ہوں۔ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے خلاف حکومت سخت کریک ڈائون کرے، ان کے مالکان کو کسی طور بخشا نہ جائے اور دھویں کے نقصانات سے عوام کو ہر صورت بچایا جائے۔ درخت اور پودے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ہر کچھ روز بعد ملک گیر شجرکاری مہم کا سلسلہ شروع کیا جائے، ہر شہری اس میں اپنے حصّے کی شمع جلاتے ہوئے ایک پودے اور درخت کو لگانے اور اُس کی آب یاری کرنے کی ذمے داری نبھائے۔ کچھ ہی سال میں صورت حال بہتر ہوجائے گی۔