منی بجٹ کا خطرہ ٹل گیا
پاکستان اور اس کے عوام مشکلات سے اُبھرتے نظر آتے ہیں۔ معیشت درست پٹری پر گامزن ہوچکی ہے۔ حالات روز بروز بہتر رُخ اختیار کررہے ہیں۔ مہنگائی میں بتدریج کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اشیاء ضروریہ کے دام گر رہے ہیں۔ گرانی کی شرح سنگل ڈیجیٹ پر آچکی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات میں بڑی کمی پچھلے کچھ ماہ کے دوران ہوئی ہے، شرح سود میں بہت بڑی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان روپیہ زیادہ تیز رفتاری سے نہ سہی لیکن استحکام کی جانب گامزن ہے۔ پاکستان میں دوست ممالک کی طرف سے عظیم سرمایہ کاریوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں حکومت کی جانب سے نظام مملکت چلانے کے لیے قرضوں کے بجائے بڑے پیمانے پر کی جانے والی اصلاحات کے ذریعے آمدن میں خاطرخواہ اضافے کے لیے کیے گئے اقدامات سے صورت حال بہتر ہورہی ہیں۔ کفایت شعاری کی راہ اختیار کرکے کئی سنگِ میل عبور کرنا ممکن ہے۔ ٹیکس آمدن کافی حد تک بڑھ چکی ہے۔ ٹیکس چوری کے راستے مسدود ہورہے ہیں، ٹیکس دہندگان کی تعداد میں حوصلہ افزا حد تک اضافے جاری ہیں، حیرت انگیز نتائج سامنے آرہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے 8ماہ اور چند ہفتے ہی ہوئے ہیں۔ اُس نے وہ کر دِکھایا جو ماضی میں کوئی نہ کرسکا، ناممکن کو ممکن بناڈالا ہے۔ لگن، محنت اور جدوجہد سے کاوشیں کی جائیں تو وہ بارآور ہوتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے اب بھی بڑے فیصلے اور اقدامات ہورہے ہیں۔ حکومت کئی بار کہہ چکی ہے کہ موجودہ پروگرام آئی ایم ایف کے ساتھ آخری پروگرام ہوگا۔ اب لگنے لگا ہے کہ ایسا ضرور ہوگا۔ آئی ایم ایف کی کٹھن شرائط پر پورا اُترنے کے لیے حکومت کی جانب سے بڑے اقدامات کیے گئے۔ پچھلے کچھ ایّام سے منی بجٹ کی بازگشت سے عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ غریبوں کو اندیشہ تھا کہ اشیاء ضروریہ کے دام میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس حوالے سے ملک و قوم کے مفاد میں ایک خوش کُن پیش رفت ہوئی ہے۔ منی بجٹ کا خطرہ ٹلنے کے ساتھ پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی نہیں لگے گا۔نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، ایف بی آر حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا اور پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی بھی نہیں لگایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن اور معاشی ٹیم کے درمیان گزشتہ روز مذاکرات کے 2دور ہوئے، وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان مقامی قرض پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ حکام نے آئی ایم ایف مشن کو مقامی قرض پربریفنگ دی، آئی ایم ایف کی طرف سے مقامی قرض سے متعلق اعتراض نہیں اٹھایا گیا۔ بریفنگ میں بتایاگیا کہ حکومت مقامی قرض کو بتدریج کم کررہی ہے، مقامی قرضوں کی ادائیگیوں کی مدت بڑھا رہے ہیں۔ ایف بی آر ذرائع کا کہنا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا اور 12ہزار 970ارب روپے کا سالانہ ٹیکس ہدف برقرار رہے گا، پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس بھی نہیں لگایا جائے گا، آئی ایم ایف نے ٹیکس محصولات پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 8.8فیصد سے بڑھ کر 10.3فیصد ہوگئی۔ ذرائع ایف بی آر کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ٹیکس ٹو جی ڈی پی میں 1.5فیصد بہتری پر مطمئن ہے، زرعی آمدن پر ٹیکس وصولی اگلے سال سے شروع ہوجائے گی، آئی ایم ایف کے ساتھ ابھی مزید مذاکرات بھی ہوں گے، آئی ایم ایف کے ساتھ تاجر دوست اسکیم میں کچھ تبدیلیوں پر بات چیت متوقع ہے۔ ذرائع کے مطابق تین ماہ میں ریٹیلرز سے 12ارب روپے ٹیکس جمع کیا گیا، چار لاکھ نئے تاجروں نے ٹیکس گوشوارے جمع کرا دئیے ہیں ، رجسٹرڈ تاجروں کی تعداد 2لاکھ سے بڑھ کر 6 لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کسٹمز انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن سے انفورسمنٹ واپس لے لی گئی ہے البتہ کسٹمز انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ برقرار ہے۔ اس کے علاوہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو جلد فیملی انکم ٹیکس ریٹرن بھی متعارف کروانے جارہا ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں زیرو ٹیکس کے ساتھ جمع کروائی گئی انکم ٹیکس ریٹرنز ختم کردی جائیں گی کیونکہ ان میں سے زیادہ لوگ وہ ہیں جو ٹیکس اہلیت کے زمرے میں نہیں آتے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ترمیمی ٹیکس قوانین کے بارے میں بھی آرڈیننس منظوری کے لیے وزیراعظم کو بھجوا دیا گیا ہے اور توقع ہے یہ بھی منظوری کے بعد وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت کے دستخط کے بعد جلد جاری ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ٹیکس چوری میں ملوث عناصر اور کمپنیوں و بڑے اداروں کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کے سیلز ٹیکس چوری یا ان پُٹ ٹیکس ایڈجسٹمنٹ کے غلط استعمال میں ملوث پائے جانے پر ٹیکس چوری میں ملوث مزید کمپنیوں کے چیف فنانشل افسران کی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے حوالے سے بریفنگ دی گئی ہے، جس میں بینظیر انکم سپورٹ پروگرام حکام کی جانب سے آئی ایم ایف وفد کو رواں مالی سال کے پہلے 4ماہ میں بی آئی ایس پی کی کارکردگی کے بارے میں آگاہ کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفد کو مستحقین کو پہلے 4ماہ میں امداد کی فراہمی اور مالی مشکلات کے بارے میں بتایا گیا جس پر آئی ایم ایف حکام نے بی آئی ایس پی کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کیا۔منی بجٹ نہ آنے اور پٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی نہ لگانے پر آئی ایم ایف کو راضی کرنا عظیم کامیابی ہے، اسے بڑا بریک تھرو ٹھہرانا غلط نہ ہوگا۔ عوام کی حقیقی اشک شوئی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اور ان شاء اللہ یہ آگے بھی جاری رہے گا۔ حکومت کے انقلابی اقدامات کے مثبت ثمرات آئندہ بھی ظاہر ہوتے رہیں گے۔ پاکستان درست سمت پر چل پڑا ہے۔ ترقی اور خوش حالی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے۔ کچھ ہی سال میں تمام دلدر دُور ہوجائیں گے۔
ذیابیطس سے بچائو کا عالمی دن!
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہمارے عوام کو صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل درپیش ہیں۔ ہر دوسرا شخص کسی نہ کسی مرض میں مبتلا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وطن عزیز میں مناسب آگہی نہ ہونے کے سبب بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ ویسے تو تمام ہی امراض انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، لیکن ذیابیطس کے مرض پر اگر بات کی جائے تو یہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ یہ انسانی جسم کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہوتا ہے، تبھی تو اسے خاموش قاتل گردانا جاتا ہے، پاکستان میں اس مرض کے متاثرین کی تعداد 3کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہیں۔ بدقسمتی سے بیماریوں کے تدارک کے ضمن میں اقدامات نہ ہونے کے سبب وطن عزیز میں ہر سال ذیابیطس کے مریضوں میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ جمعرات کو پاکستان سمیت دُنیا بھر میں ذیابیطس سے بچا کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کی مناسبت سے مراکز صحت، عوامی مقامات، پارکوں اور شاہراہوں پر پوسٹرز، بینرز آویزاں کیے گئے اور خصوصی تقریبات کا اہتمام کیا گیا، جن میں لوگوں کو ذیابیطس سے متعلق آگہی دی گئی۔ ذیابیطس کی علامات میں تھکاوٹ، دھندلی نظر، پائوں کا سُن ہونا، زخموں کا دیر سے بھرنا، چڑچڑاپن، کمزوری، بہت زیادہ پیاس، وزن میں کمی و دیگر شامل ہیں۔ بلاشبہ ذیابیطس سے متاثرہ فرد نارمل زندگی بسر کر سکتا اور اپنی شوگر کو کنٹرول میں رکھ سکتا ہے، لیکن اس کے لیے مناسب احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحت بڑی نعمت ہے، لہٰذا اس کی قدر کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے۔ طبی ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کھانے میں توازن رکھا جائے اور اس میں پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ کی مناسب مقدار شامل ہو تو ذیابیطس سے بچائو ممکن ہے۔ چہل قدمی اور مناسب ورزش ذیابیطس کے خطرے سے نمٹنے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے یہاں اس حوالے سے آگہی کا فقدان دِکھائی دیتا ہے۔ ہمارے ہاں ایسے کتنے لوگ ہیں جو آگاہ نہیں کہ اُن کے جسم میں کون کون سی خطرناک بیماریاں پنپ رہی ہیں۔ اُس پر طرہ کہ صحت کی صورت حال خاصی دگرگوں ہے۔ اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں دستیاب نہیں، لوگ علاج کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ ضروری ہے کہ بیماریوں کی سنگینی کا ادراک کیا جائے، ذیابیطس کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ حکومت اس شعبے پر خصوصی توجہ دے، بجٹ میں صحت کے لیے معقول حصّہ ناصرف مختص کیا جائے بلکہ سرکاری اسپتالوں میں علاج کی مناسب سہولتیں بھی یقینی بنائی جائیں، ذیابیطس سمیت تمام امراض سے متعلق آگہی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے، لوگوں کو ان سے محفوظ رہنے کے طریقے بتائے جائیں، ذرائع ابلاغ بھی اس ضمن میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے کیے گئے سنجیدہ اقدامات ذیابیطس کی روک تھام میں معاون ثابت ہوں گے۔