چین پاکستان کا آئرن برادر
پاکستان اور چین کی دوستی کو لازوال قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دوچار برسوں کا قصّہ نہیں، بلکہ 7 عشروں سے زائد پر مشتمل وہ دیرینہ تعلق ہے، جو وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط سے مضبوط اور مستحکم ترین ہوتا چلا جارہا ہے۔ بہت سے ظاہر و پوشیدہ دشمنوں کی آنکھوں میں یہ دوستی کانٹے کی طرح چبھتی ہے اور وہ اس میں دراڑ ڈالنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں، ماضی میں بھی اس میں لگے رہے اور اب بھی اس حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، لیکن پاک چین دوستی کو نقصان پہنچانے کی اُن کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوتی۔ ہر بار ہی اُن کے ہاتھ ناکامی اور نامُرادی ہی آتی ہے۔ چین پاکستان کا دیرینہ اور مخلص دوست ہے، جس نے کبھی بھی مشکل وقت میں وطن عزیز کو تنہا نہیں چھوڑا ہے۔ اسی طرح پاکستان بھی ہر موقع پر چین کے ساتھ کھڑا دِکھائی دیتا ہے۔ چین نے پچھلے 25 برسوں میں حیرت انگیز ترقی سے دُنیا کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ چین اُس وقت دُنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر اپنی دھاک بٹھاچکا ہے۔ ہر شعبے میں اس نے مہارتوں کی عظیم نظیریں قائم کی ہیں۔ یہ کامیابی، ترقی ایسے ہی نہیں مل گئی۔ اس کے لیے چین کی حکومت اور عوام نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ شب و روز محنت کو اپنا شعار بنایا ہے۔ محنت و لگن کی عظیم نظیریں قائم کی ہیں۔ تب جاکر یہ ترقی کی معراج کو پانے میں سرخرو ہوئے ہیں۔ چین پاکستان کو بھی ترقی و خوش حالی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے مختلف شعبہ جات میں اُس کی جانب سے تعاون کے سلسلے دراز دِکھائی دیتے ہیں۔ وطن عزیز میں چین عظیم سرمایہ کاری کررہا ہے۔ سی پیک اس کی روشن مثال ہے۔ یہ گیم چینجر منصوبہ دُنیا کی بہت سی قوتوں کو بُری طرح کھٹک رہا ہے اور وہ ماضی میں اس کو نقصان پہنچانے کی بارہا کوششیں کرچکے ہیں، اس کے خلاف پروپیگنڈے، من گھڑت باتیں کرچکے، لیکن ناکام رہے۔ یہ گیم چینجر منصوبہ ہے۔ اس کی تکمیل سے ملک و قوم کی قسمت بدل جائے گی۔ پاکستان اس منصوبے کو جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے وطن عزیز کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس منصوبے سمیت دیگر پروجیکٹس پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو پاکستان ہر طرح کی سیکیورٹی فراہم کررہا ہے کہ ماضی میں چینی ماہرین پر مختلف مقامات پر نہ صرف حملے کیے جاچکے، بلکہ بعض مواقع پر اُن کی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی دیکھنے میں آیا۔ پاکستان کو مالی مشکل ہو تو چین ہمیشہ سب سے آگے دِکھائی دیتا ہے۔ ماضی اور حال
اس کا گواہ ہے۔ پاکستان اور اس کے عوام چین ایسے عظیم دوست کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کے زیرصدارت ماڈل ٹائون میں اہم مشاورتی اجلاس ہوا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزرا ء محمد اورنگزیب، خواجہ آصف، عطا اللہ تارڑ، مصدق ملک، رانا تنویر، علی پرویز ملک سمیت دیگر اعلیٰ سرکاری حکام شریک ہوئے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ چین آئرن برادر ہے، چین سے دوستی اور تعلقات پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ چین جیسے دیرینہ دوست کے ساتھ تعلقات پر سیاست کی کسی قسم کی گنجائش نہیں ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ چین کو باضابطہ طور پر پاکستانی قرضوں کو 5سال کیلئے ری شیڈول کرنے کی درخواست کی ہے اور امید ہے چینی حکومت ہماری درخواست پر مثبت ردعمل کا اظہار کرے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سی پیک جاری رہے گا، سی پیک منصوبے اسی دور میں مکمل کریں گے۔ اگلے کچھ عرصے میں چین کی متعدد کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اپنے حالیہ دورہ چین میں اہم مقاصد حاصل کیے ہیں، شہباز شریف کا کہنا تھا کہ چینی عوام کی ترقی ان کی یکجہتی میں پنہاں ہے، پاکستانی عوام کو بھی معاشی ترقی کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مٹھی کی طرح یکجا ہونا پڑے گا، پاکستان میں کام کرنے والے چینیوں کی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، وزیراعظم نے مزید کہا کہ چینی باشندوں کی حفاظت پر حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں، اسے اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ چین پاکستان کا آئرن برادر ملک ہے۔ چین نے کبھی پاکستان اور اس کے عوام کو مایوس نہیں کیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 5سال کے لیے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی درخواست پر ان شاء اللہ چین سے مثبت جواب آئے گا۔ وزیراعظم سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے کو جاری رکھنے کے حوالے سے پُرعزم دِکھائی دئیے اور اسے اسی مدت میں مکمل کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ سی پیک کی جلد از جلد تکمیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس سے پاکستان کو ترقی و کامیابی کی شاہراہ پر گامزن ہونے میں ازحد مدد ملے گی۔ ان شاء اللہ یہ جلد پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ وزیراعظم نے چین کی ترقی کی مثال پیش کی کہ چینی قوم یکجہتی کے باعث اس مقام پر پہنچی ہے۔ پاکستانی عوام کو بھی اس ضمن میں یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک و قوم کی ترقی کے لیے شبانہ روز محنت کرنی چاہئے۔ اپنی صفوں میں پائے جانے والے مذموم کرداروں اور تفریق کا باعث بننے والوں کو پہچاننا اور ان کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔ اس میں شبہ نہیں کہ چینی باشندوں کی سیکیورٹی پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے مقدم ہے اور وہ اپنے محسنوں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کرنے میں مصروفِ عمل رہے گا۔
غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی واپسی
پاکستان میں عرصہ دراز سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی باشندے رہائش پذیر تھے۔ یہ ملکی وسائل پر بوجھ اور مسائل میں اضافے کی بنیادی وجہ تھے۔ ان کی وجہ سے ملک میں امن و امان کی صورت حال بھی متاثر ہورہی تھی۔ ویسے تو پاکستان میں برمی، بنگالی اور دیگر ممالک کے غیر قانونی مقیم باشندے بڑی تعداد میں تھے، لیکن ان میں سب سے زیادہ تعداد افغانستان سے تعلق رکھنے والوں کی تھی۔ 1979ء میں سوویت یونین افغانستان پر حملہ آور ہوا تھا۔ اس دوران لاکھوں کی تعداد میں افغان باشندوں نے پاکستان میں پناہ لی۔ ملک اور عوام نے ان کے لیے دیدہ و دل فرش راہ کیے۔ ان کو رہنے کے لیے سائبان فراہم کیے۔ تمام شعبوں میں ان کو شامل کیا۔ ان کی تین نسلیں یہاں پروان چڑھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اپنے ملک میں قیام امن کے بعد یہ ازخود افغانستان کی راہ لے لیتے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کی وجہ سے منشیات اور کلاشنکوف کلچر یہاں ہولناک حد تک پروان چڑھا۔ جرائم کی وارداتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہوا۔ ملکی وسائل پر یہ بے پناہ بوجھ بن رہے تھے۔ پاکستان پہلے ہی مشکل صورت حال سے دوچار ہے، اوپر سے یہ مزید ہولناک بار ثابت ہورہے تھے۔ اس لیے گزشتہ سال نگراں دور حکومت میں تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان سے اُن کے ممالک واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہیں یکم نومبر تک کی ڈیڈلائن دی گئی۔ اس دوران ہزاروں گھرانے رضاکارانہ طور پر اپنے ممالک روانہ ہوگئے، جو بچ رہے، اُن کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حکومتی قائم کردہ مراکز میں رکھا جاتا اور وہاں انہیں ضروریات زندگی کی تمام سہولتیں فراہم کی جاتیں اور پھر کچھ روز بعد انہیں اُن کے ملک روانہ کردیا جاتا۔اب تک پونے سات لاکھ سے زائد غیر قانونی مقیم غیر ملکی باشندے اپنے ملکوں کو واپس بھیجے جاچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مختلف شہروں میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کی وطن واپسی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 21جولائی سے 3اگست تک مزید 15ہزار 537غیر قانونی افغان باشندے اپنے ملک چلے گئے، واپس جانے والوں میں 6345 مرد، 4963 خواتین اور 4229 بچے شامل ہیں۔ افغانستان روانگی کے لیے 489 گاڑیوں میں 421 خاندانوں کی اپنے وطن واپسی عمل میں لائی گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 03 اگست 2024 تک مجموعی طور پر 6 لاکھ 75 ہزار 190 افغان باشندے اپنے ملک جا چکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی اُن کی وطن واپسی تک یہ اقدامات اسی طرح جاری رکھے جائیں۔ اس سے ملکی وسائل پر بوجھ میں ناصرف بڑی کمی واقع ہوگی، بلکہ امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی۔