پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی، صنعتوں کیلئے بجلی بھی سستی
وطن عزیز میں گزشتہ کچھ عرصے سے صورت حال بہتری کی جانب گامزن دِکھائی دیتی ہے۔ پچھلے 6سال کے دوران چھائے رہنے والے مایوسی کے بادل چھٹتے نظر آتے ہیں۔ کئی سال بعد عوام کی حقیقی اشک شوئی ہوتی دِکھائی دے رہی ہے۔ رفتہ رفتہ گرانی میں کمی آرہی ہے۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں زیادہ نہ سہی مگر گر ضرور رہی ہیں۔ معیشت کے حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کررہی ہے۔ اس کا سہرا وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت کے سر بندھتا ہے، جس نے بہت کم عرصے میں وہ کر دِکھایا جو ماضی میں کسی سے نہ ہوسکا تھا۔ بیرون ممالک سے عظیم سرمایہ کاری پاکستان لائی جارہی ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کی کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ زراعت اور آئی ٹی کے شعبوں میں بہتری کے لیے حکومت مصروفِ عمل ہے۔ دوسری جانب عوام کی مشکلات میں کمی لانے کے لیے بھی اس کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی کے سلسلے دِکھائی دیتے ہیں۔ حکومت پاکستان بلاتاخیر عوام النّاس کو اس کے ثمرات پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کرکے منتقل کرتی نظر آتی ہے۔ گزشتہ روز بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی گئی۔ پٹرول پر 10روپے سے زائد کم کیے گئے۔ حکومت پچھلے دو ماہ کے دوران پٹرول کی قیمت میں 35روپے کا ریلیف عوام کو دے چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کے ایک دن میں دو بڑے اعلان، صنعتوں کے لیے بجلی سستی کرنے کے بعد بڑی عید پر عوام کے لئے بڑی عیدی کا اعلان کر دیا۔ وزیراعظم آفس کے مطابق پٹرول کی قیمت میں 10روپے 20پیسے فی لٹر کی بڑی کمی کردی گئی، ڈیزل کی قیمت میں 2روپے 33پیسے فی لٹر کی کمی کی گئی ہے۔ یکم جون کو حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 4روپے 74پیسے جبکہ ڈیزل کی قیمت میں 3روپے 86پیسے فی لٹر کمی کی تھی۔ وزیراعظم آفس کے مطابق اب تک پٹرول کی فی لٹر قیمت میں مجموعی طور پر 35روپے کا ریلیف عوام کو دیا جا چکا ہے۔ وزیراعظم آفس کے مطابق پٹرول کی نئی قیمت 258روپے 16 پیسے فی لٹر ہوگی جبکہ ڈیزل کی نئی قیمت 267روپے 89پیسے فی لٹر ہوگی، نئی قیمتوں کا اطلاق ہوچکا ہے۔ دوسری طرف وزیراعظم نے صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمت میں 10روپے 69پیسے فی یونٹ کمی بھی کر دی ہے۔ وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم نے صنعت اور برآمدات میں بڑے اضافے کے لیے اہم اقدام کیے ہیں، نیپرا نے صنعتوں کیلئے بجلی کی قیمت میں 10روپے69 پیسے فی یونٹ کمی تجویز کی تھی، جسے وزیراعظم نے منظور کرلیا۔ ذرائع وزیر اعظم آفس کا کہنا ہے کہ صنعتوں کو یہ پیکیج عالمی منڈی میں اشیا کی لاگت کے مقابلے کے قابل بنانے کے لیے دیا گیا، جس سے صنعتی اور زرعی مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی اور برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ وزیر اعظم آفس نے مزید بتایا کہ اس پیکیج سے صنعتی ترقی کی رفتار مزید تیز ہوگی، روزگار میں اضافہ ہوگا، صنعتوں کے پہیے کی رفتار تیز اور برآمدات میں اضافے سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوگا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر عوام خوشی سے نہال دِکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کے اس فیصلے کی ہر جگہ ستائش کی جارہی ہے اور اسے عیدالاضحیٰ کے موقع پر حکومت کی جانب سے قوم کے لیے تحفہ قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی کہ اس سے مہنگائی کا زور مزید توڑنے میں خاصی مدد ملے گی، کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں جب اضافہ ہوتا ہے تو گرانی بڑھتی ہے، اسی طرح جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے تو مہنگائی کے زور میں بھی کمی آنی چاہیے۔ اشیاء ضروریہ کے نرخ کم ہونے چاہئیں۔ ٹرانسپورٹ کرایوں میں کمی آنی چاہیے۔ اس ضمن میں حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور گرانی میں کمی کی خاطر مزید فیصلے یقینی بنانے چاہئیں۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر حکومت کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ توقع کی جاسکتی ہے کہ آئندہ بھی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں جانے دے گی۔ دوسری جانب صنعتوں کے لیے بجلی کی قیمت میں 10روپے 69پیسے کی کمی کا اعلان انقلابی فیصلہ ہے۔ اس اقدام سے صنعتوں کا پہیہ مزید تیزی سے چلانے میں ناصرف مدد ملے گی بلکہ ملکی پیداوار بھی خاصی بڑھنے کی راہ ہموار ہوسکے گی۔ ملک میں ہونے والی اشیاء کی پیداوار بڑھنے سے ان کی برآمدات میں بھی خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ اس میں شبہ نہیں کہ صنعتوں کے لیے بجلی خاصی گراں تھی اور بہت سے صنعت کاروں کو اپنا نظام چلانے میں ازحد دُشواریوں کا سامنا تھا۔ اشیاء کی تیاری میں اتنے زیادہ اخراجات آرہے تھے کہ اُن کے بین الاقوامی سطح پر مناسب قیمت ملنے میں دُشواریاں تھیں۔ بجلی کے فی یونٹ میں 10روپے سے زائد کمی صنعت دوست اقدام ہے۔ اس کے انتہائی دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صنعتوں کا پہیہ مزید تیزی سے چلانے کے لیے کاروبار دوست اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ اس حوالے سے حکمت عملی مرتب کی جائے۔ ماہرین کی آرا کی روشنی میں فیصلے یقینی بنائے جائیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
4اداروں کی حکومتی سرپرستی کا خاتمہ
ملک عزیز میں سرکاری سرپرستی میں چلنے والے بعض اداروں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ دِکھائی دیتی ہے۔ جس طرف نظر دوڑائی جائے، مایوس کُن حالات سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ وقت گزرنے کے ساتھ سفید ہاتھی بنتے چلے جارہے ہیں۔ ان کا بوجھ سہارنا حکومت کے لیے خاصا دُشوار ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بدعنوانی کی دیمک عرصہ دراز سے اہم ملکی اداروں کو دیمک کی طرح چاٹتی چلی آرہی ہے۔ نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن کی بھرمار دِکھائی دیتی ہے۔ عوام کو ان سے کوئی کام وابستہ ہو تو اس کے لیے خاصے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ کئی عشرے بیت گئے، ان کی حالت سُدھرنے کے بجائے اس میں مزید بگاڑ دیکھنے میں آئے۔ حکومت کی جانب سے ان کو بہتر انداز میں چلانے کی بارہا کوششیں کی گئیں۔ ہر سال ہی یہ بھاری گھاٹے سے دوچار رہتے، جس کا تمام تر بوجھ ملکی خزانے پر پڑتا۔ ملک کے اکثر سرکاری اداروں میں یہی صورت حال دِکھائی دیتی ہیں۔ کچھ کو چھوڑ کر باقی سب خسارے میں چل رہے اور قومی خزانے پر بدترین بوجھ ثابت ہورہے ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے حکومت کی جانب سے ملک و قوم پر بوجھ اداروں کی نج کاری اور ان کی حکومتی سرپرستی ختم کرنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں۔ اس ضمن میں آئے روز اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ آئندہ وقتوں میں اس حوالے سے بڑے فیصلے سامنے آئیں گے۔ گزشتہ روز چار اداروں کی حکومتی سرپرستی اپنے انجام کو پہنچی اور اب یہ خودمختار بورڈ کی سرپرستی میں فعال رہیں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے چار سرکاری اداروں کی حکومتی سرپرستی ختم کرنے سے متعلق قوانین کی منظوری دے دی۔ نجی ٹی وی کے مطابق صدر مملکت نے پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ ترمیمی بل 2024اور پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل 2024پر دستخط کردیے۔ علاوہ ازیں صدر نے پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور این ایچ اے ترمیمی بل 2024کی بھی منظوری دے دی۔ صدر مملکت کی جانب سے چاروں اداروں کے ترمیمی بل پر دستخط کے بعد مذکورہ اداروں کی حکومتی سرپرستی ختم ہوگئی ہے اور اب یہ ادارے خودمختار بورڈ کے زیر سرپرستی چلائے جائیں گے۔ پاکستان پوسٹل سروسز، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور این ایچ اے کی حکومتی سرپرستی کا خاتمہ مشکل فیصلہ تھا، جسے بحالت مجبوری لینا پڑا ہے کہ حکومت کے لیے ان کا انتظام و انصرام چلانا چنداں آسان نہ تھا۔ ایک طرح سے اس کو صائب فیصلہ بھی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس سے خزانے پر سے بوجھ میں خاصی کمی واقع ہوگی۔