Editorial

ناروے، اسپین اور آئر لینڈ کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنیکا احسن اقدام

فلسطین اور اس میں بسنے والے مسلمان نصف صدی سے زائد عرصے سے ناجائز ریاست اسرائیل کے بدترین ظلم و ستم کو برداشت کرتے چلے آرہے ہیں۔ کتنے ہی بے گناہ فلسطینیوں کو درندہ صفت اسرائیلی افواج شہید کر چکی ہے۔ پچھلے 56، 57سال سے اسرائیلی فوج کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اوّل بیت المقدس کے تقدس کی پامالی کے سلسلے ہیں۔ آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے یہودیوں کی بڑی تعداد میں آبادکاری بھی کی گئی۔ تمام تر حربے آزمائے گئے، لیکن اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو جدوجہد آزادی سے باز رکھنے میں ناکام رہا۔ اسرائیل ظلم و ستم میں تمام حدیں عبور کرچکا ہے۔ بڑی تعداد میں اطفال کے خون سے اُس کے ہاتھ رنگے ہیں۔ درندہ صفت اسرائیل فلسطینی خواتین کو بھی زندگیوں سے محروم کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ پچھلے سال اکتوبر میں مسلسل اسرائیلی ظلم و ستم کے خلاف حماس نے عَلَم بغاوت بلند کرتے ہوئے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ داغے۔ ابتدا میں ان حملوں پر اسرائیل سٹپٹا گیا، لیکن چند روز بعد سنبھل کر اُس نے اتنی بے دردی سے فلسطین پر حملوں کا سلسلہ شروع کیا، جو آج تک جاری ہے۔ درندہ صفت اسرائیل سات ماہ اور کچھ ایّام کے دوران35ہزار سے زائد فلسطینی مسلمانوں کو شہید کر چکا ہے۔ ان میں بہت بڑی تعداد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ اسرائیل نے جب پلٹ کر وار کیا تو جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسکولوں پر حملے کیے، اسپتالوں کو نشانہ بنایا، عبادت گاہوں پر متواتر حملے کیے گئے، اسی طرح امدادی مراکز کو بھی نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ غزہ کا انفرا سٹرکچر برباد کر ڈالا گیا۔ غزہ میں تمام عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئیں۔ ان کے ملبوں تلے کتنے افراد حیات ہیں اور کتنے زندگی کی قید سے آزاد ہوچکے، کوئی شمار نہیں۔ بعض نام نہاد مہذب ممالک اس پر اسرائیل کی پیٹھ تھتھپاتے دِکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ سمیت دُنیا کے اکثر ممالک اسرائیل سے حملے بند کرنے کے مطالبات متواتر کرتے چلے آرہے ہیں۔ پچھلے مہینوں عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو حملے بند کرنے کا حکم صادر کیا تھا، جسے ناجائز ریاست کی جانب سے کسی خاطر میں نہیں لایا گیا۔ اسی طرح چند ہفتوں پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین پر اسرائیلی حملوں کی روک تھام سے متعلق قرارداد اکثریت سے منظور ہوئی تھی، اس کے باوجود اسرائیل نے حملے بند کیے اور نہ اپنی جارحیت میں کمی لایا۔ دُنیا کا دستور ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو یہ امر اُس کے خاتمے کی نوید ہوتا ہے۔ یہی معاملہ اسرائیل کے ساتھ بھی ہونے والا ہے۔ اس کا خاتمہ نزدیک ہے۔ جلد اس کی داستان تک نہ ہوگی، داستانوں میں۔ اس نے ظلم و ستم کی انتہائیں کر ڈالی ہیں۔ تاریخ انسانی کے بدترین ظالموں ہلاکو اور چنگیز خان کی ارواح بھی اسرائیلی مظالم کو دیکھ کر شرمسار ہیں۔ اسرائیل عصر حاضر کا ظالم ترین ملک ہے، جس کو دُنیا کا کوئی ملک اچھا نہیں سمجھتا، سوائے اُن نام نہاد ’’ مہذب ممالک’’ کے جن کے مفاد اس سے وابستہ ہیں۔ یہ ملک بھی ظالموں میں شمار ہوں گے اور انہیں تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔ سلام ہے اُن ملکوں پر جو حق کا ساتھ دینے میں کسی دبائو کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حق کا ساتھ ہر باضمیر دیتا ہے، آج پوری دُنیا اسرائیل کو ظالم اور فلسطینیوں کو مظلوم قرار دیتی نہیں تھک رہی اور فلسطینیوں کے حق میں آوازیں زور و شور سے بلند ہورہی ہیں۔ اس ضمن میں ایک اچھی پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ گزشتہ روز دُنیا کے تین اہم ملکوں نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق آئر لینڈ، ناروے اور اسپین کے وزرائے اعظم نے فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق آئر لینڈ کے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے، تسلیم کرنے کے عمل سے امن کی کوششوں کی تکمیل اور دو ریاستی حل کی حمایت ہوگی۔ ناروے کے وزیراعظم نے کہا کہ ناروے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر رہا ہے، تاہم سرکاری سطح پر اعلان 28 مئی کو کیا جائے گا۔ یورپی یونین کے کئی ممالک نے گزشتہ ہفتوں میں اشارہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دُنیا کے 173میں سے 140ممالک فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کر چکے ہیں۔ یہ کوششیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب غزہ میں حماس کو شکست دینے کے لیے اسرائیل کی جارحیت کی وجہ سے فلسطینی شہادتوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور یہ عالمی سطح پر جنگ بندی اور خطے میں قیام امن کے لیے ایک دیرپا حل پر زور دینے کا سبب بنا ہے۔ تین مزید ملکوں کا فلسطین کو تسلیم کرنا انتہائی خوش آئند امر ہے۔ یہ دُنیا کے نام نہاد مہذب ملکوں کو آئینہ دِکھانے کے مترادف امر ہے، جو آج بھی ظالم اسرائیل کے ہمنوا بنے ہوئے اور فلسطینیوں پر تاریخ انسانی کے رواں بدترین مظالم پر چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان شاء اللہ کچھ ہی عرصے میں فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم سے نجات ملے گی اور فلسطین اور اُس کے عوام خودمختار اور آزاد ریاست کے طور پر نئی شروعات کریں گے۔
آئی ٹی کے فروغ کیلئے احسن کوششیں
معیشت کی گاڑی کو درست پٹری پر گامزن کر دیا گیا ہے۔ پاکستان معاشی بحالی کے سفر پر تیزی سے گامزن ہے۔ حکومتی کوششوں کے طُفیل معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کر رہی ہے۔ وطن عزیز قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مالا مال ملک ہے۔ سونے، تانبے، پٹ سن، تیل و گیس کے ذخائر، نمک، کوئلہ وغیرہ یہاں کی زمینوں میں وافر موجود ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ تمام موسم یہاں میسر ہوتے ہیں۔ پاکستان کی 60 فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، جو ہر لحاظ سے باصلاحیت اور دُنیا فتح کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ بس نوجوانوں کو ہر سطح پر مواقع فراہم کرنے اور ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت خصوصاً وزیراعظم اس حوالے سے تندہی سے مصروفِ عمل ہیں اور ملک کو آئی ٹی کے شعبے میں مہارت کی معراج پر پہنچانے کے متمنی ہیں اور اس ضمن میں اقدامات بھی بروئے کار لارہے ہیں۔ اسلام آباد میں دُنیا کے سب سے بڑے آئی ٹی پارک کے قیام کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس حوالے سے مزید کوششیں جاری ہیں اور نوجوانوں کو شعبہ آئی ٹی میں بہترین پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لیے حکومت بڑے فیصلے لے رہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ رپورٹ کے مطابق حکومت کی جانب سے سال 2025تک ملک بھر میں 100نئے ای روزگار مراکز اور 10نئے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارک قائم کیے جائیں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت انفارمیشن ٹیکنالوجی پارکس کے حوالے سے اہم اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کے شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آئی ٹی کے فروغ، آئی ٹی برآمدات بڑھانے اور اسٹارٹ اپس کو سہولتوں فراہم کرنے کے حوالے سے آئی ٹی پارکس کا قیام خوش آئند ہے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ اسلام آباد آئی ٹی پارک کی تعمیر کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے، وزیراعظم نے سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کی کارکردگی کے حوالے سے تھرڈ پارٹی ایویلیوایشن کرانے کی ہدایت بھی کی۔ آئی ٹی کے فروغ کے لیے یہ کوششیں لائق تحسین ہیں، ان شاء اللہ ان کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ دوسری جانب وطن عزیز قیمتی پتھروں کے حوالے سے بھی دُنیا بھر میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاکستان ان وسائل سے بھرپور نفع حاصل کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں وزیراعظم نے کہا کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بے پناہ قدرتی وسائل ہیں، ان وسائل سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت پاکستان میں جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کے حوالے سے اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں پاکستان میں جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کی ترقی پر غور کیا گیا، شہباز شریف نے کہا کہ وسائل سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ قیمتی پتھروں اور تیار ہونے والی مصنوعات کی بین الاقوامی سرٹیفیکیشنز پر کام کیا جائے، عالمی نمائشوں میں پاکستانی نمائندگی یقینی بنائی جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کے حوالے سے اقدامات کیے جائیں، جیمز اور قیمتی پتھروں کے شعبے کی ترقی کے لیے نجی شعبے اور صوبوں سے ضروری مشاورت کی جائے۔ جیمز اور قیمتی پتھروں کی صورت موجود وسائل سے ملکی معیشت کو استحکام مل سکتا ہے۔ حکومت کی اس حوالے سے کاوشیں لائقِ تحسین ہیں۔ اسی طرح کوششیں جاری رہیں تو ان شاء اللہ چند ہی سال میں پاکستان خوش حالی اور ترقی کے ثمرات سے بہرہ مند ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button