Columnمحمد مبشر انوار

چند قدم دور !!!

تحریر: محمد مبشر انوار (ریاض)
تادم تحریر مشرق وسطیٰ کے حالات انتہائی گھمبیر اور پیچیدہ دکھائی دے رہے ہیں کہ یکم اپریل کو دمشق میں ایرانی قونصل خانہ پر اسرائیلی حملے میں ہونے والے جانی نقصان کے علاوہ، ایرانی خودمختاری پر آنے والی آنچ پر ایرانی ردعمل، منطقی اور حالات کا تقاضہ تو تھا ہی لیکن اس پر اسرائیل ابھی تک تلملا رہا ہے۔ گو کہ اپنی گزشتہ تحریر میں رقم کر چکا ہوں کہ ایرانی جواب درحقیقت اشک شوئی کے مترادف تھا، اسرائیل کو اس جواب میں خاطر خواہ نقصان بھی نہیں پہنچا لیکن اس کے باوجود چونکہ اسرائیل کو امریکی و دیگر مغربی ممالک کی بھرپور پشت پناہی حاصل ہے، اس لئے امریکہ کے منع کرنے کے باوجود اطلاعات یہی ہیں کہ اسرائیل ہر صورت ایران پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسرائیلی جنگی کابینہ اس حوالے سے متعدد میٹنگز کر چکی ہے، مختلف منصوبہ زیر غور آ چکے ہیں تا ہم عملا کوئی بھی اقدام امریکی منظوری کے بغیر اٹھانے کی اہلیت و ہمت اسرائیل کر پاتا ہے یا نہیں، اصل سوال ہی یہی ہے۔ البتہ امریکی دہرے کردار و معیار کو مد نظر رکھیں تو عین ممکن ہے کہ عالمی برادری میں امن عالم کا خود ساختہ ٹھیکیدار بنتے ہوئے، امریکہ اسرائیل کواس حملے کی اجازت نہ دے لیکن حملہ ہونے کی صورت میں امریکہ اسرائیل کی پشت پناہی میں کھڑا نظر آئے۔ ایک مرتبہ تیر کمان سے نکل گیا تو پھر عالمی سطح پر صف بندی مختلف ہو جائیگی اور امریکہ کے لئے بھی اس جنگ سے پیچھے ہٹنا ممکن نہ رہے، اس صورت میں روس اور چین کا ردعمل کیا ہو سکتا ہے اور وہ کس طرح امن عالم کو درپیش خطرات میں خاموش رہ پائیں گے؟ بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ معاملات سنگین ہونے کے باوجود، اس نہج تک نہیں پہنچیں گے لیکن پوری دنیا اس وقت ان خطرات کو محسوس کر رہی ہے کہ ایک طرف اسرائیل کی ضد ہے تو دوسری طرف اس کے پشت پناہوں کی دوغلی پالیسی ہے، جس کی وجہ سے کسی کو بھی کو کامل یقین نہیں ہے کہ حالات پرسکون ہو جائیں گے۔ یہاں یہ امر انتہائی واضح ہے کہ ایران کی خودمختاری پر حملہ ہونے کے باوجود، ایران نے انتہائی تحمل و بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، عالمی برادری کی بات کو نہ صرف سنا بلکہ جوابی حملہ بھی قدرے تاخیر سے کیا کہ کسی بھی طور امن عالم خراب کرنے کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہو لیکن دوسری طرف اسرائیل ایسی کسی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر قائل دکھائی نہیں دیتا۔ درحقیقت اسرائیل کی اس بوکھلاہٹ کے پیچھے، اس کی وہ شکست ہے جو پچھلے چھ ماہ سے اسے غزہ میں جھیلنی پڑ رہی ہے، اس کے منصوبہ سازوں کے مطابق غزہ کو ہڑپ کرنا انتہائی آسان تھا، جسے اپنے ہتھیاروں کی بدولت، عالمی برادری بالعموم اور طاقتور ملکوں کی بے جا حمایت کے باعث،وہ بآسانی نگل سکتا تھا، لیکن حماس مجاہدین نے اسرائیل کے ان منصوبوں کو ناکام بنا کر رکھ دیاہے۔ یوں اسرائیل عالمی برادری میں ایک تماشہ بن کر رہ گیا ہے،جو بے سروسامان،تقریبا نہتے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل نہیں کر پایا بلکہ اپنے مغویان تک کو بازیاب کروانے میں ناکام رہا ہے۔اس کارکردگی نے ،اسرائیل کی اہلیت و قابلیت کو بیچ بازار ننگا کرکے رکھ دیا ہے اور گریٹر اسرائیل کے دعوے کرنے والا اسرائیل،اس وقت بری طرح پیچ و تاب کھا رہا ہے،لیکن سب بے سود دکھائی دے رہا ہے۔اسرائیل اپنی اس ناکامی کو چھپانے کے لئے ،کبھی حزب اللہ پر حملہ آور ہوتا ہے،کبھی شام میں جارحیت کا ارتکاب کرتا ہے تا کہ کسی نہ کسی طرح میدان کارزار کو اپنی سرحدوںسے باہر تک پھیلا کر،اپنے جنگی جرائم پر پردہ ڈال سکے اور ساری دنیا کو اپنی خواہشات کی تکمیل میں میدان جنگ میں لاکھڑا کرے۔ اس پس منظر میں ایرانی ردعمل کے بعد،اسرائیل کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسی لازمی کرے کہ دنیا میدان جنگ میں نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی جنگی کابینہ کے اجلاس ہو رہے ہیں لیکن عملاوہ اس وقت تک کچھ کرنے سے قاصر ہے جب تک امریکہ اسے اجازت نہ دے،جبکہ امریکہ کو بخوبی معلوم ہے کہ اس کے اگلے اہداف کیا ہیں یا وہ کن ممالک کے خلاف،کس محاذ پر برسر پیکار آنے کی منصوبہ بندی میں مشغول ہے۔ اس وقت امریکہ ،روس کو یوکرین میں مشغول رکھے ہوئے ہے تو دوسری طرف اس نے چین کو بھارت کے علاوہ،تائیوان و جاپان وغیرہ مشغول کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں،اگر مشرق وسطی کا محاذ مزید گرم ہوتاہے،تو امریکہ کے لئے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا مشکل ہو گا۔ یہاں یہ امر واضح ہے کہ اگر امریکہ و دیگر مغربی ممالک اسرائیل کو ،ایران پر حملہ کرنے سے نہ روک پائے تو روس اس جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کر چکا ہے او رایسی صورت میں چین کی کیا حکمت عملی ہو گی؟کیا وہ خاموش بیٹھ کر تماشہ دیکھے گا یا امریکی یقین دہانیوں پر ایران کو محدود جواب دینے پر قائل کرنے کا حساب طلب کرے گا یا ایران کی حمایت میں اس کے ساتھ میدان جنگ میں کھڑا ہوگا کہ چین کی ایران کے ساتھ شراکت داری کا تقاضہ تو یہی بنتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف چین ،امن کا علم لے کر میدان میں نکلا ہے اور روس یوکرین کی جنگ بندی کے لئے، جو نکات چین نے دئیے ہیں، ان سے واضح ہے کہ چین کسی بھی صورت اقوام عالم کے درمیان جنگ کی حمایت نہیں کرتا بلکہ دنیا کو امن وسکون کے ساتھ معاشی ترقی کے لئے ایک قابل عمل راستہ فراہم کرنا چاہتا ہے۔ چین کی یہ کوشش واضح طور پر موجودہ عالمی سیاست کے برعکس دکھائی دے رہی ہے کہ چین کا مد مقابل امریکہ دنیا بھر میں جنگوں کے کاروبار میں ملوث رہا ہے اور اپنی ہتھیاروں کی صنعت پر ہی ،لمحہ موجود تک ،نہ صرف بااختیار ہے بلکہ بہت حد تک عالمی برادری میں اپنا اثرورسوخ قائم رکھے ہوئے ہے،اس پس منظر میں اگر چین کی مجوزہ تجویز پر دنیا کان دھرتی ہے، چین کا ساتھ دیتی ہے تو معاملات امریکہ کے ہاتھ سے پھسلتے دکھائی دیتے ہیںاور امریکی چوہدراہٹ خطرے میں دکھائی دیتی ہے۔ہوس اقتدار و اختیار میں مدہوش امریکی ریاست یہ کیسے اور کیونکر گوارا کرے گی کہ اس کی حاکمیت یوں اس کے ہاتھوں سے چلی جائے؟جس کی خاطر امریکہ نے ساری دنیا میں اپنی ٹانگ پھنسا رکھی ہے،اپنے ناجائز پھسڈی بچے،اسرائیل کی ہر غیر قانونی حرکت کے سامنے ایک دیوار بن کر کھڑا ہے،اس کی غزہ میں جارحیت کو حق دفاع کا نام دے کر،اسے غزہ کے مسلمانوں کے قتل عام کا پروانہ تھما رکھا ہے،اس کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کر رہا ہے،آج بھی اس کو نہ صرف مالی معاونت کر رہا ہے بلکہ اسے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کر رہا ہے،وہ ایسی کسی تجویز پر عمل درآمد کیونکر ہونے دے گا؟اگر اس مفروضہ کو سامنے رکھیں تو نتائج مزید بھیانک دکھائی دے رہے ہیں کہ ماضی میں بھی اسرائیل چند ممالک پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہو چکا ہے ،جن کے ایٹمی پر وگرام سے امریکہ خوش نہیں تھا ۔ اس میں سرفہرست دیکھا جائے تو عراق و شام کے ایٹمی پروگرامز کو اسرائیل امریکی پشت پناہی سے تباہ کر چکا ہے،جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام بھی امریکہ و اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن تاحال دونوں باوجود کوشش کے،اسے تباہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ پاکستان کاایٹمی پروگرام تو کامیاب ہو چکا جبکہ عراق و شام میں یہ کامیابی کے قریب تو تھے لیکن کامیاب نہیں ہو سکے تھے،اس کے باوجود انہیں تباہ کر دیا گیا اور ثانوی طور پر امریکہ نے اپنی فوج کو با ضابطہ طور پر مشرق وسطی میں اتار کر ،معدنی ذخائر میںاپنا حصہ بخوبی وصول کر لیا۔تقریبا یہی صورتحال اس وقت ایران کے ایٹمی پروگرام کی ہے اور اسے روکنے کے لئے امریکہ اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لا رہا ہے لیکن اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو پایا،ہوس اقتدار کی اس سے زیادہ خواہش اور کیا ہو گی کہ امریکہ ساری دنیا کی ٹھیکیداری میں ،غیر مسلم ریاستوں کے ایٹمی پروگرام سے تو صرف نظر کرتا ہے لیکن کسی بھی اسلامی ملک کو اپنے دفاع کے لئے بھی ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی اجازت دینے پرقطعی تیارنہیں۔شنید تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لئے،پاکستان کو خطیر رقم کی پیشکش کی جا چکی ہے ،جو تقریبا پاکستان پر واجب الادا قرضوں کے حجم کے قریب قریب ہے،دیکھنا یہ ہے کہ ہماری سیاسی و عسکری قیادت اس کا کیا جواب دیتی ہے،آیا دفاع و سلامتی پر سودے بازی کی جاتی ہے یا خودمختاری و سالمیت کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ بہرطوریہ معاملہ ضمنا ہی سہی ،اس تحریر کا حصہ بنا ہے گو کہ پاکستانی سلامتی و خودمختاری ضمنا نہیں بلکہ اولا ترجیح ہے، اسرائیل کے حوالے سے اطلاعات یہی ہیں کہ ایرانی ردعمل کے جواب میں،اسرائیل ہر صورت ایرانی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے پر تلا ہے،آئی اے ای اے کہ سربراہ نے اس حوالے سے اپنے بیان میں،اس خدشے کو تقویت دی ہے کہ ایجنسی نے ایران میں ایٹمی تنصیبات کے معائنے فی الوقت بند کر دئیے ہیں۔عالمی حالات کے پس منظر میں،اگر امریکہ ریاستی مفادات کو مقدم رکھتا ہے،تو یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ درپردہ وہ اسرائیل کو ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی اجازت دے سکتا ہے،جس کے بعد روس و چین کے میدان میں اترنے پر ،امریکہ خود بھی اسرائیل حمایت میں میدان جنگ کا حصہ بن سکتا ہے۔ یہ خوفناک منظر کشی حقیقت کا روپ اسی صورت دھار سکتی ہے اگر امریکہ ،اسرائیل کو روکنے میں ناکام رہا،جو فقط چند قدم کی دوری پر ہے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button