ColumnImtiaz Ahmad Shad

جمہوریت کی زندہ مثال

تحریر : امتیاز احمد شاد
پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی میں جہاں بہت سی رکاوٹیں ہیں وہاں سب سے بڑی رکاوٹ وطن عزیز کی سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری وجود اور رویے بھی ہیں۔ جب کوئی بھی سیاسی جماعت ملک میں جمہوریت کی بات کرتی ہے تو اس کے اندر جمہوریت کا ہونا بنیادی چیز ہے مگر افسوس پاکستان کی تمام مین سٹریم پارٹیاں جمہوریت سے کوسوں دور ہیں۔ اس جمہوری قحط الرجالی کے دور میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کے قیام سے لے کر آج تک یعنی بانی امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی سے لے کر حافظ نعیم الرحمان تک ہر شخص کا انتخاب ووٹ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس جماعت میں نظم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے تو متفق ہیں کہ جماعت اسلامی جمہوری اقدا ر و روایات کی تمام تعریفوں پر پورا اترتی ہے مگر عوام میں اسے وہ پزیرائی حاصل نہیں جو عام انتخابات میں اس کی جیت کا سبب بن سکے۔ اس کی شاید وجہ یہ ہے کہ جماعت میں شامل ہونے کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں، وجوہات کوئی بھی ہوں، عام آدمی ان پر پورا اترنے سے قاصر ہیں۔ سراج الحق سابق امیر ہو چکے اب قیادت حافظ نعیم الرحمان کے ہاتھ میں ہے۔
غور سے دیکھا جائے تو پاکستان میں جماعت اسلامی وہ واحد مذہبی سیاسی جماعت ہے جس میں کوئی موروثیت نہیں اور امیر کا انتخاب مکمل جمہوری طریقے سے ہوتاہے۔ بانی امیر سید ابوالاعلیٰ مودودی تھے جن کا تعلق ہندوستان کے علاقے پٹھان کوٹ سے تھا۔ ان کے بعد میاں طفیل محمد امیر منتخب ہوئے۔ میاں طفیل محمد کے بعد نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے پختون قاضی حسین احمد امیر منتخب ہوئے۔ اس کے بعد اردو بولنے والے سید منور حسن صاحب امیر بن گئے۔ پھر قرعہ فال پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سراج الحق کے نام نکلا اور اب جماعت کے اراکین کی اکثریت نے کراچی سے تعلق رکھنے والے اور اردو بولنے والے حافظ نعیم الرحمان صاحب کو امیر چن لیا۔ یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ جماعت اسلامی کے دستور کے مطابق کوئی فرد خود امارت کا امیدوار نہیں بن سکتا۔ مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے جن میں ووٹر اراکین ایک کا انتخاب کرتے ہیں لیکن اراکین ان سے ہٹ کر بھی کسی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی یہ واحد جماعت ہے جس کا نظم بطور مثال پیش کیا جاتا ہے اور اس کا پھیلائو پاکستان کے طول و عرض سے نکل کر تقریبا دنیا کے ہر ملک تک ہے۔ امیر ہو یا غریب ہر کارکن ماہانہ چندہ دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ وسائل کے لحاظ سے جماعت اسلامی سب سے امیر تنظیم ہے۔ اس کے برعکس دیگر جماعتوں کی قیادت دولت مند ہے یا پھر دولت مند شخصیات ان سے وابستہ ہوتی ہیں تاہم ان جماعتوں میں احتساب نام کی کوئی چیز نہیں جب کہ احتساب جماعت کا بنیادی اصول ہے۔ نومنتخب امیر حافظ نعیم الرحمان ایک متحرک اور فعال سیاسی کارکن ہیں۔ کراچی میں جماعت اسلامی کو ایک نئی زندگی دی چکے۔ اپنے کام اور کردار سے ثابت کر چکے کہ اگر ان کی قیادت میں جماعت اسلامی کو حکمرانی کا موقع ملا تو یقینا نوجوانوں کی امنگوں پر پورا اتریں گے۔ ان سے توقع کی جاری ہے کہ وہ جماعت اسلامی کو سیاسی افق پر عوامی حمایت کی حامل مقبول ترین عوامی جماعت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کی شخصیت میں یہ چیز نمایاں ہے مگر اس کے لئے انہیں جماعت کی بزرگ قیادت اور دستور میں موجودہ دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تبدیلی لانا قدرے مشکل نظر آتا ہے۔ اگر حافظ نعیم الرحمان عوامی انداز سیاست جو کہ ان کی پہچان ہے کو لے کر میدان عمل میں اترتے ہیں تو انہیں سب سے زیادہ مخالفت کا سامنا جماعت کے اندر موجود ان افراد کا ہو گا جو نئے دور کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔ موجودہ حالات میں جماعت اسلامی کے پاس گولڈن چانس ہے۔ سیاست میں موقع اور وقت بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ عوام فارم 47والوں کو حاکم ماننے سے انکاری ہے۔ مہنگائی عروج پر ہے، روزگار ناپید ہے۔ ظلم کے تمام بند ٹوٹ چکے۔ ایسے میں حافظ نعیم الرحمان مظلوموں کی آواز بن کر ملک کے طول و عرض میں جماعت کے کارکنان کو متحرک کرتے ہیں تو یقینا عام آدمی ان کے قریب ہو گا اور یہی موقع ہے کہ وہ اپنی سوچ اور اپنی بات ان کے ذہنوں میں ڈال سکتے ہیں۔ تقریب حلف برداری میں ان کا خطاب ایک واضح پیغام ہے کہ وہ دور حاضر کے تقاضوں سے نا صرف بخوبی آگاہ ہیں بلکہ ان پر پورا اترنے کا جذبہ بھی رکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button