CM RizwanColumn

ہر پاکستانی ایک تولہ سونا کا مقروض

تحری : سی ایم رضوان
ایک سرسری اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 64ہزار ارب روپے سے زائد کے ہندسوں پر جا پہنچا ہے۔ اکتوبر 2023میں سٹیٹ بینک کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق وفاقی حکومت نے اگست 2023میں 2ہزار 218ارب روپے کے نئے قرضے لئے تھے تب مقامی قرضوں کا حجم 24فیصد بڑھ کر 39792 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جبکہ اس وقت ہر پاکستانی ڈھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ ان دنوں سونے کی فی تولہ قیمت بھی ڈھائی لاکھ روپے سے بڑھ گئی یوں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہر پاکستانی ایک تولہ سونا کے برابر کا مقروض ہے۔ یہ صورت حال ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ خطرناک اور سنگین ہے۔ ’’ جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں‘‘ کے مصداق اس وقت سب سے پہلے تو حکومت کو عوام کا اعتماد حاصل ہونا ضروری ہے جو کہ نہایت مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ دوسرا قوم کو اعتماد میں لے کر درست سمت میں کچھ مشکل اور تلخ فیصلے لینا از حد ضروری ہے مگر شاید یہ حکومت کی ترجیح نہیں ہے بلکہ حکومت روایتی پروپیگنڈا اور جھوٹ کی بنیاد پر ایک طرف تو سب اچھا ہے کی دہائی دے رہی ہے اور دوسری طرف سے پٹرول اور دیگر بنیادی نوعیت کی ضروریات کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس منافقانہ روش کی حامل حکومت عوام کا اعتماد اور یقین کیسے حاصل کر سکتی ہے اور عوام کو اعتماد میں لے کر کس طرح مشکل فیصلہ لے کر ایسی کامیابی حاصل کر سکتی ہے کہ ملکی معیشت مستقل طور پر اپنے پائوں پر کھڑی ہو جائے۔ دوسرا یہاں حکومت کے سیاسی مخالفین کی ترجیحات اس نہج پر جا پہنچی ہیں کہ بیشک ملک کا نقصان ہو جائے مگر سیاسی مخالف حکمرانوں کو رگڑا ضروری ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی رہنما شیر افضل مروت کا یہ بیان اس حوالے سے ملک دشمنی کی بدترین مثال ہے کہ ان کے بقول ’’ پی ٹی آئی حکومت گرانے میں ( امریکہ کا بغل بچہ) سعودی عرب ملوث ہے‘‘۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ سعودی عرب پاکستان میں کروڑوں ڈالر انویسٹ کر رہا ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پارلیمانی روایات سے ہٹ کر موجودہ حکومت میں وزیر خزانہ ایک ایسے فرد کو منتخب کر لیا گیا ہے جو کہ سیاسی بیک گرائونڈ نہیں رکھتے مگر وہ نہ صرف موجودہ ترجیحات کے مطابق اپنا کام بطریق احسن کر رہے ہیں بلکہ بیرونی بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور حلقوں میں ان کی خوب پذیرائی ہے۔ بلوم برگ تک ان کی تعیناتی کو پاکستان کے لئے نیک شگون اور مفید قرار دے رہے ہیں۔ بوقت تحریر بھی ہمارے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب وزارت خزانہ کے وفد کے ہمراہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود ہیں جہاں وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اس سے منسلکہ مالیاتی اداروں کے عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف ہیں، اس موقع پر انہوں نے عالمی بینک اور ایشیائی بینک کے صدور کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوتیں بھی دی ہیں۔ دوسری طرف فوجی سربراہ کی دلچسپی اور شرکت کے ساتھ سرمایہ کاری کونسل کی تشکیل بھی سابقہ اتحادی حکومت میں ہو گئی تھی تا کہ کان کنی اور زراعت سمیت پاکستان کے قدرتی وسائل کو کام میں لانے کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کرنے کی گارنٹی دی جا سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کی جاسکے۔ دوسری طرف خارجہ تعلقات کے ذریعے تزویراتی تعلقات کو بھی بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں سعودی عرب کی طرف سے خیر سرمایہ کاری بھی کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں سعودی وزیر خارجہ ایک وفد کے ہمراہ پاکستان کا کامیاب دورہ بھی کر چکے ہیں جس کی وجہ سے توقع یہ کی گئی ہے کہ پاکستان کو 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہو جائے گی۔ ماضی گواہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ جب بھی ہنگامی طور پر پاکستان کو اشد مالی ضرورت پڑ جاتی تھی تو ہمارے حکمران سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں سے رابطہ کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے لیکن گزشتہ چار عشروں میں ملک میں جس طرزِ حکمرانی کا مظاہرہ کیا گیا اس نے نہ صرف پاکستانی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے بلکہ ہمارے حکمرانوں میں وہ اعتماد بھی نہیں رہا کہ وہ اپنے ان دوستوں سے بلا جھجک کچھ مدد مانگ سکیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف ایک سے زائد بار یہ کہہ چکے ہیں کہ جب بھی ہم ان حکمرانوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم ان کے پاس بھیک مانگنے آئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی مدد اور سرمایہ کاری ہنگامی ضرورت تو پوری کر سکتی ہے لیکن معیشت کی بحالی میں کوئی غیر معمولی کردار ادا نہیں کرسکتی۔ بالخصوص گزشتہ 15برسوں میں جو حکومتیں رہی ہیں انہوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے کی سطح پر پہنچا دیا۔ یعنی زرمبادلہ کے ذخائر کی اتنی قلت ہو گئی کہ ملک کا قرض ادا کرنے اور اپنی درآمدات کے لئے بھی رقم موجود نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے آئی ایم ایف کے پاس اس مصیبت سے نجات کے لئے جانا ضروری ہوگیا حالانکہ آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں کی شرائط پر کیے جانے والے معاہدے ملکی معیشت کی مزید تباہی اور اپنی معیشت چند سو ارب ڈالر کے عوض عالمی مالیاتی اداروں کے پاس گروی رکھنے کا سبب بنے ہیں۔ اب بھی نئے وزیر خزانہ محمد جن حالات میں آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے گئے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ تین سالہ پروگرام ختم ہوا ہے جس نے پاکستان کے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ عوام تو دیوالیہ ہو چکے اب ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے ملک کو ڈالر کی صورت میں زر مبادلہ کی ضرورت ہے۔ ڈالر کے حصول کے لئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے جبکہ زرمبادلہ دو ہی ذریعے سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک تارکین وطن کی ترسیلات زر سے اور دوسرے یہ کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔ لیکن اب صورت یہ بن گئی ہے کہ معاشی استحکام کے تمام اشاریے منفی تصویر دکھا رہے ہیں۔ بجٹ خسارہ تو مستقل مسئلہ ہے، یعنی آمدنی اور اخراجات میں مسلسل فرق آ رہا ہے۔ اس کا ثبوت پاکستان کی معاشی صورت حال کے بارے میں آئی ایم ایف کی تازہ رپورٹ ہے جس کے مطابق ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ بجٹ خسارہ مستقل رہنے کا خدشہ ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے مرکزی بینک سے قرض لے لیتی تھی لیکن آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط نے مرکزی بینک پر حکومت پاکستان کا کنٹرول بھی ختم کر دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں مرکزی بینک سے براہ راست قرض لینے پر پابندی ہے جس کی وجہ سے حکومت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے تجارتی بینکوں کے رحم و کرم پر ہے، جس سے قرض کی لاگت یعنی شرح سود میں اضافہ ہو رہا ہے اور قرض کے بوجھ میں حکومت دبتی چلی جا رہی ہے۔ اس پس منظر میں وفاقی وزیر خزانہ نے آتے ہی اس بات کا اعلان کیا کہ ہم آئی ایم ایف سے مزید 3سال کے لئے قرض پروگرام لیں گے۔ انہوں نے واشنگٹن جا کر بھی یہی کہا ہے۔ یعنی حکمرانوں کا ارادہ ہی نہیں ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف کے قرضوں کے چنگل سے آزادی حاصل کی جائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب ہم عالمی مالیاتی شکنجے میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہمارے کسی بھی وزیراعظم کو اپنا وزیر خزانہ منتخب کرنے کا اختیار بھی حاصل نہیں رہا۔ اب ہمارے وزرائے خزانہ تعلق تو پاکستان سے رکھتے ہیں لیکن ان کی تعلق داری یا ورکنگ ریلیشن شپ عالمی اقتصادی اداروں سے ہوتی ہے جو کہ عالمی معیشت پر حکمرانی کر رہے ہیں جس میں آئی ایم ایف کو مرکزیت حاصل ہے۔ ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید یہ خوش گمانی ہے کہ ہمارے ہاں کی سیاسی اور عوامی مزاحمت ان عالمی مالیاتی گماشتوں کے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان اداروں نے یہ دیکھ لیا ہے کہ پاکستان میں عوامی مزاحمت کو تقریباً ساری سیاسی قیادت کی مفاد پرستی اور بدعنوانی نے زیرو کر دیا ہے۔ اس لئے وہ ہر قسم کی شرائط عائد کر کے بھی اپنے قرض پروگرام کامیاب کروا سکتے ہیں۔ اس پر ستم یہ کہ ہمارے حکمرانوں نے بھی اپنی ناکامی، نااہلی تسلیم کرنے کی بجائے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں معیشت کی بحالی کے لئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے لیکن یہ سخت فیصلے پاکستانی عوام ہی کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ حکمرانوں کے اللے تللے جوں کے توں ہیں بلکہ ان کی معاشی قیمت اب قوم کو ماضی سے بہت زیادہ ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ بہرحال اب آئی ایم ایف سے تین سال کے لئے قرض کا نیا معاہدہ ہو گا۔ ماضی کی طرح اب اس پروگرام کے حصول کے بعد بھی حکومت اور اپوزیشن دونوں کی جانب سے یہی کہا جائے گا کہ مہنگائی کی وجہ آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط ہیں۔ پٹرول، بجلی، گیس کے نرخوں اور ڈالر کی شرح میں اضافے سے عوام کے حالات بیشک برباد ہو جائیں۔ اب تک تو نوبت یہاں تک آ گئی ہے کہ متوسط اور قدرے خوشحال طبقہ بھی چیخ رہا ہے، اس لئے کہ کاروباری لاگت نے صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کے ساتھ بے روزگاری کا سیلاب بھی آ گیا ہے۔
ٹھیک ہے ملکوں پر ایسے وقت بھی آ جاتے ہیں لیکن ایسے میں ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ ملک میں اتفاق رائے پیدا ہو اب بھی موجودہ صورتحال کا مرکزی نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ آئی ایم ایف کی سامراجی غلامی نہ ہو بلکہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی قرض سے نجات کا قابل عمل اور نتیجہ خیز روڈ میپ تیار ہو۔ اس کے بغیر مستقل معاشی بحالی ممکن نہیں۔ یہ بھی طے شدہ امر ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کی بجائے مزید کمزور کرنے کا سبب بنے گی مگر اس تباہی کو بھی ہنس کر گلے لگایا جا رہا ہے۔ بجلی کی پیداوار کے بارے میں عوام دشمن معاہدے ایک الگ مسئلہ ہیں اور بجلی مہنگی ہونے کے باوجود گردشی قرضہ کم ہونے میں نہیں آ رہا۔ دوسری طرف بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا اور ہمارے حکمران صرف پروپیگنڈے اور وقت گزاری کے لئے تمام تر حکومتی طاقت اور وسائل کا استعمال کر رہے ہیں۔ اوپر سے یہ ظلم بھی ہونے جا رہا ہے کہ پاکستان جیسے غذائی خود کفالت رکھنے والے ملک کو نام نہاد ترقی کے نام پر گروی رکھنے کے معاہدے کیے گئے ہیں اور معدنیاتی وسائل کو بیچنے کے لئے بھی سودا ہو چکا ہے یعنی مقروض قوم مزید مقروض ہو اور یہاں جینا مشکل ہو جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button