ColumnRoshan Lal

عدلیہ کی آزادی کیسے ؟

تحریر : روشن لعل
زیر نظر تحریر کا عنوان ’’ عدلیہ کی آزادی کیسے‘‘ ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کے اس مشترکہ خط کے سیاق و سباق میں رکھا گیا ہے جو انہوں نے دیگر سینئر ججوں سمیت ، چیف جسٹس پاکستان کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین کی حیثیت سے مخاطب کرتے ہوئے لکھا۔ کسی عنوان کے بغیر لکھے گئے اس خط میں سپریم جوڈیشل کونسل پاکستان سے یہ رہنمائی طلب کی گئی کہ ہائیکورٹ کے ججوں کی اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران اگر ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اور دیگر ادارے مداخلت کر تے ہوئے دبائو ڈالیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اس خط میں ایجنسیوں کی طرف سے عدلیہ پر دبائو ڈالنے کے مختلف حوالے دیتے ہوئے جو کچھ کہا گیا، اسے پڑھ کر ملک میں حقیقی انصاف کی خواہش رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جانا چاہیے تھے ، مگر دیکھا یہ گیا کہ ججوں کا مذکورہ خط کسی پر بھی ایسے اثرات مرتب نہیں کر سکا ۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر عدلیہ ہر قسم کے دبائو سے آزاد فضا میں کام نہ کررہی ہو توپھر آئین و قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی ممکن نہیں رہتی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کے خط میںپیش کیے گئے حوالوں کو دیکھتے ہوئے اگرچہ عدلیہ پر دبائو کے موقف کو رد کرنا ممکن نہیں مگر پھر بھی یہ بات حیران کن ہے کہ دبائو کا موقف جاندار ہونے کے باوجود سماج میں ویسی ہلچل نظر نہ آئی جیسی ہلچل ماضی میں ججوں کے اس طرح کے موقف سامنے آنے کے بعددیکھنے
کو ملتی رہی۔ اگر ججوں پر دبائو کے واضح اشارہ سامنے آنے کے بعد بھی یہاں کوئی ہلچل پیدا نہیں ہو سکی تو کیا یہ تصور کر لینا چاہیے کہ ہمارا سماج اتنا بے حس ہو چکا ہے کہ اسے عدلیہ پر دبائو یا اس کے کاموں میں مداخلت جیسی کارروائیوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس مظہر کو سماج کی بے حسی تصور کیا جاسکتا ہے اسے اگر اسے اسی سماج میں ابھر چکی ماضی کی کچھ تحریکوں کے تناظر میں دیکھا جائے توزیادہ مناسب یہ لگے گا کہ بے حسی کی بجائے بیگانگی کا لفظ استعمال کیا جائے۔ بے حسی اگر احساس کی کمی اور زندہ ہونے کے باوجود مردوں کی طرح کسی معاملے میں جذبات، محسوسات یا فکر سے خالی ہونی کا نام ہے تو بیگانگی سے مراد ایسی ذہنی و نفسیاتی کیفیت ہے جس میں ِ ذات کے زیاں کی وجہ سے کوئی انسان خود کو دوسرے انسانوں اور اپنے معاشرتی ماحول سے بیگانہ سمجھنے لگتا ہے۔ بے حسی اگر کسی کے اندرونی رویوں کا اظہار ہے تو بیگانگی ایسی کیفیت ہے جو کسی پر بیرونی اثرات کی وجہ سے طاری ہوتی ہے۔ عدلیہ پر دبائو کا موقف سامنے آنے کے بعد بھی اگر ہماراسماج میں اس سے بیگانہ نظر آرہاہے تو پھر سوچنا ہوگا کہ عام لوگوں کے اندر یہ کیفیت کی پیدا ہونے میں خود عدلیہ اور ججوں کے کردار نے کیا اثرات مرتب کیے ہیں۔ زیادہ پرانی بات نہیں اسی سماج میں عدلیہ کی آزادی کے نعروں سے مزین ایک تحریک چلی تھی۔ اس تحریک کا محرک بننے والوں نے عام لوگوں کو یہ خواب دکھائے کہ ان کے ممدوح ججوں کی بحالی کے بعد ملک میں ایسی فضا قائم ہو گی جس میں صرف عدلیہ ہر قسم کے دبائو سے آزاد نہیں ہوگی بلکہ عام لوگوں کو سماجی اور معاشی انصاف کی فراہمی یقینی بناتے ہوئے ان کے لیے اس دھرتی کو ماں جیسی بنا دیا جائے گا۔ پھر عام لوگوں نے محرکوں کے ممدوح اور مطلوبہ ججوں کی بحالی کے بعد ان کے ایسے رویے بھی دیکھے جن کی وجہ سے وہ انہیں عدالتی مارشل لا کا سربراہ تک کہنے پر مجبور ہوگئے۔ جو جج انصاف کی شفاف ترین فراہمی اور آزاد عدلیہ کے قیام کے خوبصورت خوابوں کی بھیانک ترین تعبیر ثابت ہوئے انہوں نے اپنے دور کی حکومت پر بدترین دبائو ڈال کر اسے آئین میں ایسی انیسویں ترمیم لانے پر مجبور کیا جس کے ذریعے انہیں ایسی طاقت حاصل ہوگئی کہ ان کے ’’ پرتو‘‘ اور ’’ عکس‘‘ کے علاوہ کسی اور کا اعلیٰ عدلیہ کا حصہ بننا ممکن نہ رہا۔ آزادعدلیہ کے نام پر بحال ہونے والے ججوں نے ہاں کون سے اصولوں کے تحت کس طرح اور کس قسم کے ججوں کو بھرتی کیا ، اس کی یہاں ایک چھوٹی سی مثال پیش کی جارہی ہے۔
وکلا تحریک کے نتیجے میں افتخار محمد چودھری کی بحیثیت چیف جسٹس پاکستان بحالی کے بعد پشاور ہائیکورٹ میں ستمبر 2009 اور مارچ 2010کے دوراں دو مرحلوں میں ایک ایک سال کی مدت کے لیے سات ایڈشنل جج تعینات کیے گئے۔ بعد ازاں ان سات ججوں میں سے دو کو نہ تو مستقل کیا گیا اور نہ ہی ان کی ملازمت میں توسیع کی گئی۔ بقایا پانچ ایڈیشنل ججوں میں سے4کو مزید ایک سال کے لیے توسیع دے دی گئی ۔ مذکورہ سات ایڈیشنل ججوں میں سے صرف ایک ایسے جج کو مستقل کیا گیا جس کی ریٹائرمنٹ میں صرف 15دن باقی رہ گئے تھے۔ اس منظور نظر جج کو مستقل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ وہ تاحیات لاکھوں روپے پینشن وصول کرنے کے ساتھ سپریم کورٹ میں وکالت بھی کرتا رہے۔ افتخار محمد چودھری نے اہلیت کی بجائے اقربا پروری اور وفاداری کے تقاضوں کے تحت نئے ججوں کو اعلیٰ عدلیہ میں شامل کرنے کی جو روایت قائم کی، ان کے بعد آنے والے بھی تقریباً اسی روایت پر عمل پیرا نظر آئے۔
جو لوگ بھی اس وقت اعلیٰ عدلیہ کا حصہ ہیں اگرچہ ان میں سے اکثر کی تعیناتی افتخار چودھری کی قائم کردہ روایتوں کے مطابق ہوئی مگر اس کے باوجود یہ بات قابل قبول نہیں ہو سکتی کہ کوئی ایجنسی ان پر دبائو ڈال کر ان اسے اپنی مرضی سے فیصلے کرائے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے مشترکہ خط میں عدلیہ پر دبائو ڈالنے کے جو حوالے پیش کیے وہ تقریباً تمام تر اس دور کے ہیں جب عمر عطا بندیال چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ عدلیہ پر ایجنسیوں کے دبائو ڈالنے کا موقف جاندار ہونے کے باوجود یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ عمر عطابندیال کے دور میں ہماری عدلیہ نے واضح طور پر دھڑے بندی کا شکار ہوکر کئی ایسے فیصلے کیے جنہیں اب تک متنازعہ تصور کیا جاتا ہے ۔ یہاں صرف ایجنسیوں کے دبائو کا ہی نہیں بلکہ یہ موقف بھی جاندار ہے کہ ججوں کی تعیناتی سے انہیں مستقل کیے جانے اور پھر کام کرنے میں بھی کئی دیگر گروہوں اور دھڑوں کا دبائو کارفرما ہوتا ہے۔ آج یہاں ایجنسیوں کے جس کردار کو عدلیہ پر دبائو سے جوڑا جارہا ہے ، اگر اس کردار کو ختم بھی کردیا جائے تو کیا یہ ممکن ہے کہ عدلیہ دھڑے بندی کے دبائو سے پاک ہو کر آزاد ی سے غیر متنازعہ فیصلے کرنے کی طرف مائل ہو جائے گی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں نے اپنے خط میں جو باتیں بیان کیں نہ تو وہ یہاں کسی کے لئے راز ہیں اور نہ ہی وہ باتیں چھپی ہوئی ہیں جن کا ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ جن باتوں کا ذکر نہیں کیا گیا وہ ہماری عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی سے جڑی ہوئی ہیں۔ اگر یہاں افتخار چودھری کا بنایا ہوا ججوں کی تعیناتی کا نظام رائج رہنے دیا گیا تو ہوسکتا ہے ججوں کے مختلف دھڑے کمزور یا مضبوط ہوتے رہیں مگر عدلیہ کبھی دبائو سے آزاد تصور نہیں کی جاسکے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button