CM RizwanColumn

ایک اور بڑا خط

سی ایم رضوان
خطوط کی بھرمار اور دے مار ساڑھے چار کی یلغار میں ایک اور سنجیدہ اضافہ یہ ہوا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیراعظم شہباز شریف کے نام ایک خط ارسال کر دیا ہے۔ پاک امریکہ تعلقات میں یہ خوش آئند ہے کہ ان کی جانب سے ہمیں یہ خط ملا ہے۔ اس خط میں امریکی صدر نے نو منتخب حکومت کے لئے نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری، دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے۔ جو بائیڈن نے دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جبکہ حال ہی میں امریکی کانگریس میں پاکستان سے متعلق سماعت کے دوران الیکشن میں بے ضابطگیوں کی شکایات کے ازالے پر زور دیا گیا تھا اور امریکی معاون وزیرِ خارجہ برائے وسطی و جنوبی ایشیائی اُمور ڈونلڈ لو نے سماعت کے دوران مبینہ سائفر لیک معاملے کو جھوٹ قرار دیا تھا۔ انتخابات کے بعد امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے صدر بائیڈں کو خط بھی لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کے ازالے تک پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے لیکن ان تمام امور سے ہٹ کر امریکی صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان گرین الائنس فریم ورک کے ذریعے ماحولیاتی بہتری کے اپنے اتحاد کو مضبوط کریں گے۔ خط میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں پائیدار زرعی ترقی اور 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔ واضح رہے کہ2022میں پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر اراضی زیرِ آب آ گئی تھی جبکہ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے تھے اور پاکستان نے اس سیلاب کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔ صدر بائیڈن کا اپنے خط میں مزید کہنا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لئے پرعزم ہیں۔ دونوں اقوام کے درمیان استوار مضبوط پارٹنر شپ کو تقویت دیں گے کیونکہ اس خط میں پاکستان میں جاری سیاسی جنگ سے متعلق کوئی بات نہیں کی گئی اس لئے بعض حلقوں کی جانب سے یہ معمول کی بات قرار دی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ جب بھی نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو اس طرح کے مبارک باد کے خطوط سربراہان حکومت کو موصول ہوتے ہیں۔ اس طرح کا خط پی ٹی آئی سربراہ کے حکومت سنبھالنے پر انہیں بھی موصول ہوا تھا۔ لہٰذا اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں ڈونلڈ لو کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں بات کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے جو خط لکھا گیا ہے اس میں بھی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کہا گیا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہے اور تمام حکومتیں آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں۔ یہ بھی سوچا جا رہا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اپنے لئے بھی اگلے چند ماہ خاصے مشکل ہیں اور انہیں انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ ایسے میں وہ کسی بھی ملک کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ نہیں لے سکتے۔ لہٰذا یہ خط بنیادی طور پر سفارتی شائستگی کا مظہر ہے۔ گو کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں تھی لہٰذا اس تناظر میں صدر بائیڈن کا خط اہمیت کا حامل ہے۔ اس خط کی بناء پر حکومت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ امریکہ نے ایک لحاظ سے پاکستان کی نئی حکومت اور انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کم سطح پر ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان سے مکمل طور پر الگ نہیں ہونا چاہتا۔ یاد رہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد خیال کیا جاتا تھا کہ کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد وہاں امن آ جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بہرحال یہ خط پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نئی سمت پر استوار کرنے کی ایک روش ہے کہ خطے کے ابھرتے ہوئے چیلنجز اور افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر امریکہ کے لئے پاکستان اہم ہے۔
پاکستان اس وقت شدید معاشی بحران کے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ملک کو سیاسی افراتفری، ماحولیاتی تباہی، پھیلتی ہوئی دہشت گردی اور بڑھتی ہوئے معاشی بحران نے شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ معاشی محاذ پر ملک کو کمر توڑ افراطِ زر، روپے کی قدر میں کمی اور خطرناک حد تک کم ذخائرِ زرمبادلہ کا سامنا ہے۔ جیسا کہ موڈیز انویسٹر سروس نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں ڈیفالٹ کا ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی نے بحران کی وجوہات کے بارے میں ایک کشیدہ بحث کو جنم دیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہ آیا بیرونی شراکت دار ایک بار پھر پیسوں کی تنگی کے شکار پاکستان کو اس بحران سے باہر نکال سکتے ہیں یا نہیں۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان اپنے بگڑتے ہوئے معاشی بحران سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، امریکہ اور چین کے درمیان طاقت کا زبردست مقابلہ اور ان حالات میں امریکہ کا پاکستان کو یہ تہنیتی خط پاکستان کی سنگین معاشی صورتحال کو جغرافیائی و سیاسی نہج دیتا ہے۔ اگرچہ امریکہ اور چین کے مابین مسابقت پاکستان کے لئے ایک پیچیدہ چیلنج ہے اور رہا ہے تاہم حالیہ معاشی بحران کا جغرافیائی و سیاسی استعمال اسلام آباد پر اثر انداز ہونے کی ان کی مسابقتی کوششوں کو بڑھاتا ہے۔ گو کہ بیجنگ اور واشنگٹن اس بحران کے لئے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں مگر پاکستان اپنے آپ کو ان دونوں کے جغرافیائی و سیاسی مسابقت کے شکنجے میں دیکھتا ہے، جس سے بگڑتے ہوئے معاشی بحران کو مزید نقصان پہنچتا ہے۔ امریکہ اب بھی پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود اسلام آباد میں بیجنگ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے چوکنّا ہے۔ اگرچہ پاکستانی اشرافیہ اور عوام چین کے بڑے کردار اور سرمایہ کاری کے بارے میں بظاہر پرامید نظر آتے ہیں لیکن مغربی خدشات پاکستان کو چین اور امریکہ کے درمیان متوازن طرزِ نظر اپنانے کے لئے غور کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔ جیسا کہ ماضی قریب میں اسلام آباد کے دورے کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے قونصلر چولٹ ڈیرک نے پاکستان پر چین کے قرضوں اور ان کے دوطرفہ تعلقات کو لاحق خطرات پر واشنگٹن کی تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے جواب میں چین کی وزارت خارجہ نے امریکہ پر ڈھکا چھپا طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان سمیت ترقی پذیر ممالک کی معاشی مشکلات کے پیچھے مغربی غلبے والے مالیاتی ساہوکاروں اور ایک مخصوص ترقی یافتہ ملک کی مالیاتی پالیسیاں ہیں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستان امریکہ اور چین کے مابین سفارتی تنازع کی زد میں آیا ہے۔ گزشتہ سال بھی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے تباہ کن سیلاب کے پیش نظر پاکستان کے لئے چینی قرضوں کی ادائیگی کی تنظیمِ نو کا مطالبہ کیا تھا۔ چین کی وزارت خارجہ نے واشنگٹن کو پاک چین تعاون پر غیر ضروری تنقید کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستانی عوام کے لئے کچھ حقیقی اور فائدہ مند کام کرے۔ اس سے قبل امریکہ نے پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ وہ آئی ایم ایف کا پیسہ چینی قرضوں کی ادائیگی کے لئے استعمال نہ کرے۔ جس کا بڑا سبب واشنگٹن کی جانب سے چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) پر تنقید ہے۔
ریکارڈ گواہ ہے کہ چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیڈ لاک کے دوران پاکستان کو اضافی قرضے دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس دوران پاکستان میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کے دوران بیجنگ کی جانب سے قرضوں کی تنظیمِ نو پر غور کرنے کا التوا کا شکار رہا۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کیا چین پاکستان پر جون میں واجب الادا سات ارب ڈالر کا قرضہ رول اوور کرنے دے گا، جواب میں چینی وزارت خارجہ نے دونوں فولادی بھائیوں کے درمیان کُل موسمی تزویراتی اور تعاون پر مبنی شراکت داری کے فرسودہ جملوں کو دہرایا تھا جبکہ قرضوں کی واپسی میں تاخیر کے بارے میں تفصیلات قابل چینی حکام کے بتانے پر چھوڑ دی تھیں جبکہ چین سی پیک بطور اپنے فلیگ شپ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ( بی آر آئی) منصوبے کے ذریعے کئی بلین فراہم کر کے پاکستان کا اہم اقتصادی شراکت دار رہا ہے۔ پاکستان میں جہاں سی پیک کو معاشی گیم چینجر کے طور پر پہچانا جاتا ہے، وہیں واشنگٹن نے اس منصوبے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے پاکستان کے لئے ناقابل برداشت قرضے کا بوجھ چھوڑا ہے۔ اس وقت جیسے جیسے پاکستان کا معاشی بحران شدت اختیار کر رہا ہے، ناقدین، خصوصاََ مغربی دارالحکومتوں میں موجود ناقدین، پاکستان کے چینی قرضوں کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سو بلین ڈالر کے مجموعی بیرونی قرضوں کا چالیس فیصد بیجنگ کا قرضہ ہے۔ اگرچہ پاکستان کا معاشی بحران براہ راست چین کا کام نہیں ہے، تاہم غیر ملکی زرمبادلہ پیدا کیے بغیر چینی منصوبوں کے ارد گرد بڑھتے ہوئے قرضوں نے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سی پیک کے آغاز کے تقریباََ ایک دہائی بعد بھی پاکستان کو شدید معاشی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی کے پیچھے چین کا عامل ایک حقیقت ہے یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ اس حوالے سے داخلی طور پر نااہلی اور بداعمالیوں کی طویل ترین فہرست موجود ہے۔ ملک کے بہت سے مسائل ہمارے حکمرانوں کے اپنے پیدا کردہ ہیں، کیونکہ مراعات یافتہ اشرافیہ نے عوامی مفاد کو نظر انداز کیا اور ملک کو تباہی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے۔
جیسے جیسے امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے، بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پاکستان کی داخلی سیاست میں ایک بڑا مسئلہ بن گئے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران سی پیک پر پیش رفت سست روی کا شکار رہی ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ تعلقات جو پی لی آئی کی سابقہ حکومت میں سرد مہری کا شکار ہو گئے تھے، اب سابقہ اتحادی حکومت اور نگران حکومت کے دوران کثیرالوقوع دو طرفہ تعاملیت کے باعث ان میں تیزی آئی ہے۔ گزشتہ سال جون میں، جیسا کہ موجودہ معاشی بحران میں بھی ہوا ہے، چین کی جانب سے اضافی مالی امداد فراہم کرنے سے انکار کے بعد پاکستان نے آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے لئے واشنگٹن کی مدد طلب کی تھی۔ جو کہ پیکیج مل گیا۔ اب بھی اگرچہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کو عام طور پر افغانستان میں سکیورٹی کنورجنس ( سلامتی کے لئے ایکا) کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے لیکن واشنگٹن اب بھی پاکستان کا بنیادی تجارتی شراکت دار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی امریکہ نے اس خط کے ذریعے پاکستان کو اپنا شراکت دار قرار دیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button