ColumnImtiaz Ahmad Shad

نواز شریف کسان کارڈ

امتیاز احمد شاد
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی کل افرادی قوت کا تقریباً 44فیصد حصہ زرعی شعبے سے وابستہ ہے، زراعت کے شعبے سے حاصل ہونے والی آمدن کا حصہ ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ ایک چوتھائی ہے۔ زراعت کا ملکی ترقی اور خوشحالی میں بنیادی اور انتہائی اہم کردار ہونے کے باوجود یہ شعبہ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی اور تحقیق کے فقدان کے باعث اس حال کو پہنچ چکا ہے کہ ملک کو کپاس، دالیں اور دیگر زرعی اجناس کی درآمد پر ہر سال خطیر زرمبادلہ صرف کرنا پڑ رہا ہے۔ اور اب نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ گندم بھی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ اس حد تک غفلت اور نااہلی کہ گندم کی کاشت کے وقت ڈی اے پی غائب اور بعد میں یوریا کھاد نایاب۔ حکومت کو ماننا پڑے گا کہ باقی مافیاز کی طرح کھاد، سپرے اور دیگر زرعی آلات مافیا کے سامنے بھی وہ بے بس ہے۔بدبختی کا یہ عالم ہے کہ پنجاب کی زرخیز زمینوں پر دیوہیکل کالونیاں تعمیر کرنے کا رجحان شدت پکڑ چکااور جو بچی کھچی زمین کاشت کے لئے رہ گئی ہے اس کے لئے کسان کو مہنگی اور ناقص ادویات اور بیج فراہم کر کے تباہی مقدر بن چکی۔آخر حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ایک گندم ہی تھی جس میں ہم خودکفیل تھے ،صرف انتظامی غفلت اور ڈیلرز مافیا کا حکومتی اہلکاروں سے گٹھ جوڑہمیں اس مقام پر لے آیا کہ دنیا کا چھٹا بڑا زرعی ملک آٹے کے بحران کا شکار ہے اور پنج آب کی سر زمین پانی سے محروم اور عوام اناج سے محروم ہیں۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہماری حکومتیں زراعت کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتیں تاکہ ملک زرعی شعبہ میں خود کفالت کی منزلیں طے کرتا۔ آج ہمارا ملک گندم اور تیلدار اجناس جیسی بنیادی غذائی فصلیں درآمد کے بجائے دوسرے ممالک کو برآمد کر رہا ہوتا افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ حکومتی پالیسیوں اور دیگر عوامل کے باعث کسان بطور خاص چھوٹے کاشتکار زراعت سے دور ہوتے چلے جا رہے ہیں جس کے منفی اثرات ابھی سے ہمارے سامنے آ رہے ہیں۔ اور مستقبل میں اگر یہ رجحان برقرار رہا تو ہماری آنے والی نسلوں کو اس سے بھی زیادہ خوفناک غذائی بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تیلدار اجناس کی کاشت کیلئے افسر شاہی نے ایک سال پلان تیار کیا کہ کسانوں کو کینولا اور سورج مکھی کی کاشت کرنے پر 5 ہزار روپے سبسڈی دی جائے گی،کسانوں کو یقین دہانی کروائی گئی مگر ستم ظریفی یہ کہ سبسڈی تو دور کوئی خریدار نہیں ملا۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہرسال کسانوں نے نہ ہونے کے برابر اسے کاشت کرنا شروع کر دیا ہے۔یہ بات سب پر عیاں ہے کہ ملک بھر میں پانی کی شدید قلت ہے۔ کسان آئندہ فصلوں کی کاشت کیلئے مہنگے ڈیزل اور بجلی کے زرعی ٹیوب ویلوں پر غیرعلانیہ لوڈشیڈنگ کے باوجود انحصار کرنے لگے ہیں۔ پھر بھی کسان کو مارا جارہا ہے۔مہنگائی کے اس دور میں کسان کو اس کی فصل کا جائز معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا۔اس طرح کے حالات میں کھیتی باڑی کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہر حکومت عام لوگوں کی فلاح اور بہبود کیلئے اعلانات تو بہت کرتی ہے مگر کبھی کوئی مثبت قدم نہیںاٹھاتی۔مریم نواز نے بھی زراعت کے حوالے سے اعلانات تو کر کر دیئے مگر عمل درآمد ہو گا یا نہیںیہ بنیادی سوال ہے۔یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ کسان کار ڈ کا نام نواز شریف کسان کارڈ رکھ کر مسائل کی تلافی کر لیں گے۔اس کے لیئے آپ کو بنیادی مسائل اور وسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔دیگرلوگوں کی طرح کسان بھی ناقص حکومتی پالیسیوں کے باعث معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ اسے کسی حال میں اس کی فصل کا جائز معاوضہ نہیں ملتا۔ ہمیشہ مڈل مین سارا منافع لے جاتا ہے جبکہ کاشتکار سارا سال محنت کرنے اور اپنا خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود مقروض ہی رہتا ہے۔ اس کے گھر میں فاقوں کا راج رہتا ہے۔ ملک کی نقد آور فصل کپاس تھی جو اب پاکستان میں تقریبا ختم ہو چکی اور اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں کہ ہم گندم سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی فصلوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو ان کی پیداواری میں کمی کا رجحان جاری ہے محکمہ زراعت کی عارضی اور فرضی پالیسیوں سے نہ صرف کسان تنگ آچکے ہیں بلکہ ماہرین زراعت اور زرعی سائنسدان بھی پریشان ہیں۔ سیکرٹری زراعت سے لے کر فیلڈ میں کام کرنے والے آفیسرز تک سب کو بھاری تنخواہیںاور مراعات دی جاتی ہیں مگر کار کردگی صفر بٹہ صفر۔ عارضی پراجیکٹس بنائے جا تے ہیں جس میں کمیشن مافیا کافی متحرک ہوتا ہے۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے ایگری کلچر ڈویلپمنٹ یونٹ بنایا گیا جس کی کارکردگی ابھی تک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اس طرح ایگری کلچر ریسرچ بورڈ سمیت دیگر فصلوں کے بورڈز بھی آج تک کوئی اہم پیش رفت نہیں کر پائے ہیں بلکہ پہلے سے موجود اداروں کی کارکردگی بھی صفر ہوتی جا رہی ہے۔ نئے ادارے بنانے کی بجائے پرانے اداروں کو بااختیار، جدید اور فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ ارباب اختیار کو یہ بات ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ اگر ملک کا کاشتکار خوشحال ہوگا تو ملک بھی ترقی کرے گا۔اگر حقیقی معنوں میں ہم ملک کو زرعی اجناس،سبزیوں، پھلوں میں خودکفیل بنانا چاہتے ہیں تو عارضی پراجیکٹس بنانے کی بجائے ماہرین سے آراء لے کر اور کسان کو اعتماد میں لے کر نئے سرے سے کام کرناہوگا۔یونیورسٹیوں میں طلباء کو ریسرچ کروائی جائے تاکہ آنے والے دنوں میں ہم زراعت کے شعبہ میں بہتری لا سکیں۔ پنجاب زرعی حوالے سے ملک کی جان ہے۔ پنجاب میں تمام فصلوں کی کاشت سے لے کر مارکیٹ میں لانے تک ماہر اور تجربہ کار زراعت افسروں کو آگے لانا ہوگا۔ نوجوان زرعی گریجویٹس کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی۔ ریٹائرڈ ماہرین زراعت کا علم پرانا ہوچکا ہے۔ اب ان سے فیلڈ میں کام کروانا ناممکن ہے۔ فیلڈ میں کام کرنے والے ماہرین زراعت اور زرعی سائنسدانوں کو آگے لانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ ان پڑھ سادہ کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کروانے کیلئے پہلے عملی تربیت دینی ہوگی۔ مجبور کسانوں کے ساتھ وہی وعدے کئے جائیں جو پورے ہو سکیں۔۔ آج تک کسانوں کو فاسفورس کھاد کے کوپن پر سبسڈی نہیں مل سکی۔ کروڑوں روپے کی سبسڈی، کمپنیاں اور افسر ہڑپ کر گئے۔ کسانوں کو براہ راست مراعات دی جائیں۔ ان کو بھکاری نہ بنایا جائے۔ان کو وافر پانی معیاری اور سستی کھاد، اصل بیج، سستی بجلی کی سہولت دی جائے۔کمپوٹر سسٹم تو رائج ہو گیا مگر ابھی تک پٹواری کلچر کا مکمل طور پرخاتمہ نہیں کیا جاسکا۔کسان کے پاس چھ ماہ بعد پیسہ آنا ہوتا ہے اسے اس سے محروم نہ کیا جائے۔ یہ بات طے ہے کہ کسان خوشحال ہو گا تو ملک ترقی کرے گا۔دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہمسائیہ ملک بھارت سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔جو چیز وہاں دس روپے کی ہے ہمارے ہاں اسی چیز کی قیمت دو سو دس روپے ہے۔ہمارے پالیسی ساز اس قدر ناقص العقل ہیں کہ وہ مکمل اور منظم پالیسی ترتیب دے ہی نہیں سکتے۔سب ڈنگ ٹپائو پالیسی پر کام کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم بنیادی اشاء ضرویہ ہمسایہ ممالک سے منگوانے پر مجبور ہو گئے جو کہ ایک زرعی ملک کے لیئے باعث شرم ہے۔مریم نواز اگر پنجاب کو حقیقی پنجاب دیکھنا چاہتی ہیں تو انہیں زراعت میں انقلابی اقدامات لینا ہوں گے،نام بدلنے سے نہیں کام کرنے سے خوشحالی آئے گی۔اگر ایسا نہ ہو سکا تو لوگ آپ کو بھی بزدار پلس کے نام سے ہی یاد رکھیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button