Columnمحمد مبشر انوار

لاوا

محمد مبشر انوار
پاکستان کو معرض وجود میں آئے آج تقریبا 77برس ہونے کو ہیں لیکن کیا پاکستان بابائے قوم کی امنگوں کے مطابق روبہ عمل ہے؟اس کا جواب قطعیت کے ساتھ نفی میں دیا جا سکتا ہے کہ بابائے قوم نے ہمیشہ قانون کی پاسداری کی،قانون کی بالا دستی کو ہمیشہ مقدم رکھا لیکن بدقسمتی سے آج پاکستان لاقانونیت کی انتہا پر دکھائی دیتا ہے۔پاکستان میں غریب و بے کس و بے بس عوام کی داد رسی کہیں دکھائی نہیں دیتی بلکہ عوام کو بھیڑبکریوں سے زیادہ اہمیت ہی نہیں دی جاتی ،عوام تو دور کی بات یہ ملک تو فقط خواص کے لئے ہی جنت کہلا سکتا ہے ۔انسانی حقوق کی پاسداری تو خیر کہیں دکھائی ہی نہیں دیتی کہ یہاں غیر مسلم تو دور کی بات ،مسلموں کے حقوق بھی کماحقہ پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے کہ غریب محنت کش اپنا پیٹ کاٹ کر اشرافیہ کے اللے تللے پورے کرتا نظر آتا ہے جبکہ اسے اتنا حق بھی نہیں کہ وہ اپنی قربانیوں سے اشرافیہ کے اللے تللوں پر کوئی سوال ہی کر سکے۔ایسا کرنے والا ہر شہری بلا امتیاز ،جمہوریت کے لئے خطرہ اور غدار ٹھہرتا ہے کہ اس کی اتنی اوقات نہیں کہ اپنے حکمرانوں سے سوال کرسکے۔حد تو یہ ہے کہ کسی عوامی لیڈر کو بھی یہ اختیار نہیں کہ وہ عوام الناس کی بہتری کے لئے ،اشرافیہ یا مقتدرہ سے کوئی سوال کر سکے وگرنہ اس پر سینکڑوں کے حساب سے مقدمات دائر کر دئیے جاتے ہیں۔ان مقدمات کا مقصد بادی النظر میں صرف اتنا ہے کہ ایسے شخص کی زباں بندی کا اس سے زیادہ اکثیر نسخہ فی الوقت پاکستان میں ایجاد نہیں ہوا کہ اسے پابند سلاسل کر کے، اس کے چہرے کو منظر سے ہٹا دیا جائے،اس کی زبان کو خاموش کرایا جا سکے۔باقی ماندہ زندگی وہ ان مقدمات کی پیروی میں گزار دے اور عوامی حقوق کی بات ہی نہ کر سکے،یوں ایک مسلسل دردسر سے نجات حاصل کی جا سکے،جبکہ مسند اقتدار پر ایسی کٹھ پتلیوں کو براجمان کیا جائے،جو اشارہ ابرو پر ہر حکم بجا لائیں۔ایسی ہی صورتحال اسو قت بھی پاکستان میں بآسانی دیکھی جا سکتی ہے کہ مسند اقتدار پر موجود شخصیات کی واحد خصوصیت یہی ہے کہ وہ اشارہ ابرو پر سر تسلیم خم کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ان کی منتخب حیثیت پر سیکڑوں سوالیہ نشانات ہیں کہ آیا وہ حقیقتا ،آزادانہ و منصفانہ طور پر منتخب بھی ہوئے ہیں یا نہیں؟درحقیقت یہی وہ خوف ،کمزوری ہے کہ جس نے ہوس اقتدار کی خاطر لبوں کو سی رکھا ہے ،سر کو نگوں کر رکھا ہے کہ جیسے ہی سر اٹھانے کی غلطی کی،لب وا کرنے کی گستاخی کی تو دوسرے ہی لمحہ ان کے انتخابی عمل کو ننگا کیا جا سکتاہے،انہیں نشست سے محروم کیا جا سکتا ہے گو کہ اقتدار پر براجمان شخصیات اس سے قبل بھی عدالتی حکم امتناعی  پر پوری مدت تک کے لئے اقتدار پر قابض رہ چکی ہیں۔
اسے عدالتی نظام کی خامی کہیں یا قانونی سقم کہیں ،لیکن اس تلخ حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان میں ایسے عدالتی فیصلے دہائیوں سے بروئے کار آتے رہے ہیں ،جس پر بالعموم عوامی رائے عامہ کو کبھی ترجیح نہیں دی گئی۔ پس پردہ کیا محرکات رہے ہیں،زبان زدعام رہے ہیں کہ عدالتیں اور معزز جج صاحبان ،کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا ہے لیکن درحقیقت تب بھی عدالتوں اور جج صاحبان پر دباؤ کے آثار واضح رہے ہیں ۔ جن کو نہ صرف وکلاء بلکہ عوام الناس تک کو محسوس کرتے رہے ہیں بلکہ اس کا ادراک ہر صاحب فہم کو رہا ہے کہ ہمارے عدالتی نظام کو کبھی بھی آزادانہ کام کرنے کا موقع نہیں ملا ،ان پر غیر محسوس دباؤ کو ہر طبقہ فکر نے ہمیشہ محسوس کیا ہے اور اس کا اظہار بھی مختلف طریقوں سے کیا جاتا رہا ہے لیکن بدقسمتی یہ رہی کہ جس نے بھی کھل کر اظہار رائے کیا،اس کا ٹھکانہ زندان ہی دکھائی دیا ہے۔موجودہ دور میں کیا یہ ممکن ہے کہ ہر بیماری کا علاج زندان میں ڈھونڈا جائے اور ہر مخالف آواز کو دبانے کے لئے قانون کی ناک موڑ کر ،اسے اپنی مرضی کے مطابق روبہ عمل لایا جائے؟کیا آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرز پر عدالتوں کو قابو کر کے،ایک عوامی لیڈر کو صفحہ ہستی سے مٹایا جا سکتا ہے؟کیا آج بھی عدالتوں کو استعمال کرتے ہوئے،بے نظیر بھٹو طرزپر سزائیں سنائی جا سکتی ہیں؟رہی بات میاں نواز شریف کی،تو جہاں تک عدالتی کارروائی کا تعلق ہے،ممکنہ طور پر عدالتوں کو دباؤ کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن کیا میاں نواز شریف واقعتا بے قصور ہیں؟ان تین واقعات میں بھٹو اور نواز شریف کے خلاف مقتدرہ کی پس پردہ مداخلت سے کسی کو بھی انکار نہیں اور اسی طرح آج عمران خان کے مقدمات میں بھی مقتدرہ کے ہاتھ سے کسی کو انکار نہیں لیکن بے نظیر بھٹو کے خلاف سنائی جانے والی سزاؤں کے پیچھے تو نواز شریف بذات خود ملوث رہے ہیں،کیا اسے بھی مقتدرہ کے کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے؟اسی طرح آج عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے کہ بظاہر تو مقتدرہ کی کارروائی لگتی ہے مگر خواہش نواز شریف او ر ان کی بیٹی کی دکھائی دیتی ہے اور جس طرح سینکڑوں کے حساب سے عمران خان پر مقدمات درج کئے گئے ہیں،وہ شریف خاندان کے ماضی کے تجربات کو آشکار کرتے ہیں۔بہرکیف جو بھی ہے،عمران خان پر مقدمات کی بھرمار کے بعد،اگر عدالتی نظام قانونی طور پر بروئے کار آتا تو قوی امکانات تھے کہ عمران خان پر درج مقدمات کو چند پیشیوں کے بعد خارج کر دیا جاتا اور عمران خان کو باعزت رہائی مل جاتی لیکن ہوا کیا؟چھوٹی عدالتوں نے خلاف معمول،چودہ سے اٹھارہ گھنٹوں تک سماعت کی،ملزم کو اس کے حقوق مہیا نہیں کئے،وکلاء کی غیر موجودگی میں سماعت جاری رکھی،جرح کے لئے سرکاری وکلاء کا سہارا لیا گیا،ایک طرف خود ملزم کے وکلاء کو عدالت تک پہنچنے نہیں دیا گیا اور دوسری طرف سرکاری وکلاء ( جو بنیادی طور پر ملزم کے خلاف ہیں) کو ملزم کی طرف سے جرح کی اجازت دے کر فوری فیصلہ کرتے ہوئے،ملزم کو مجرم قرار دے کر مخصوص وقت سے پہلے ،انتہائی سزائیں دے کرانتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔ پاکستانی عدالتی نظام کی اس طرح بے توقیری کرتے ہوئے اپنی ماضی کی روایات کو دفن نہیں ہونے دیا بلکہ اسے ماتھے کا جھومر بناتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی ججز دبائوبرداشت کرنے کے قابل نہیں،اور یوں عالمی عدالتی نظام میں اس کا درجہ بندی میں مزید تنزلی کا باث بنے۔
خیر یہ دبائوکب تک چل سکتا ہے؟ہر انتہا کا ایک انجام قانون قدرت ہے کہ ہر وہ دنیاوی امر جو اپنی انتہا کو پہنچتا ہے بالآخرزوال بذیر ہوتا ہے لیکن اس کے لئے اسی نظام کے اندر سے فرد/افراد کو سامنے آنا ہوتا ہے،اس دبائو کے خلاف کھڑا ہونا ہوتا ہے تا کہ اس انتہا کو واپس زوال کی طرف یا اپنے اصل کی طرف لاکر معاشرے میں،نظام میں اعتدال قائم کیا جا سکے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام آبادہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان اس بارش کا پہلا قطرہ بننے جا رہے ہیں کہ چھ معزز جج صاحبان نے سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک مشترکہ و متفقہ خط ارسال کیا ہے جس میں ان حقائق کو آشکار کیا گیا ہے کہ انہیں کس طرح اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی سے روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔اس خط میں ان جج صاحبان نے اپنے منصب کے تقدس کو پامال کئے جانے کے ہوشربا انکشافات کئے ہیں جو نظام انصاف کو کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں،کس طرح مرضی کے فیصلوں کی خاطر،ملکی ایجینسیاں نظام انصاف پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔یہ خط ظاہر کر رہا ہے کہ چند اشخاص ،اپنی ذاتی انا ،ضد و مقاصد کی خاطر ہر چیز کو روندنے کے لئے آمادہ ہیں ،شدید ترین خواہش رہی ہے کہ کہ دباؤ ملکی مفادات کی خاطر ہوتا تو آج ملک کہیں سے کہیں پہنچ جاتا لیکن صد افسوس کہ یہ دباؤ ملکی مفادات کے برعکس ذاتی خواہشات کی بنا پر ڈالا جاتا ہے۔ پس پردہ اس گٹھ جوڑ کو بروئے کار لانے کے لئے ڈالا جاتا ہے کہ جس میں ملکی مفادات کے برعکس چند افراد کے ذاتی چھوٹے چھوٹے مفادات اہمیت رکھتے ہیں،ہوس اقتدار زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ بہرطور اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج صاحبان کی جانب سے بارش کا پہلا قطرہ نمودار ہو گیا ہے اور وکلاء برادری کی اکثریت اس کے ساتھ کھڑی دکھائی دے رہی ہے تاہم تادم تحریرسپریم کورٹ بار کی طرف سے ہنوز اس کے موقف کا انتظار ہے، بظاہر وکلاء برادری عدلیہ کی آزادی کے لئے ایک بار متحرک ہوتی دکھائی دے رہی ہے بشرطیکہ عدلیہ بھی اس آزادی کی طلبگار ہوئی تو پھر تاریخ ایک بار پھر خود کو دہراتی نظر آتی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے حالیہ چھ معزز جج صاحبان اور ایک سابق جج شوکت علی صدیقی،جنہیں سپریم کورٹ مستعفی کی بجائے ریٹائر اعلان کر چکی ہے، اداروں میں پنپنے والے لاوے کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں،اور کیا لاوے کا یوں پھٹنا دیگر کو بھی حوصلہ بخش سکتا ہے اور وہ بھی ان کے ساتھ باہر آ سکتے ہیں؟ریاست پاکستان کی بقا تو اسی میں ہے کہ ہر وہ ادارہ جو دبائوکا شکار ہے،اس وقت کھل کر سامنے آ جائے تا کہ اس دبائو کو ہٹا کر،ہر ادارہ قانون کی بالا دستی قائم کرنے کے لئے ریاست پاکستان کی بقا میں ممدومعاون ہو جائے وگرنہ نعوذ بااللہ ۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button