ColumnTajamul Hussain Hashmi

معاشی گھٹن اور دو اتحادی

تجمل حسین ہاشمی
ملک میں اس وقت مہنگائی کی شرح 28فیصد سے زیادہ ہے، پاکستان پر اس وقت ملکی و غیرملکی قرضوں کا کتنا بوجھ ہے؟ جو نئی حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہے۔ ملکی و غیرملکی قرضوں کی تفصیل سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ماہانہ بنیادوں پر جاری ہوتی ہے، مرکزی بینک نے 31دسمبر 2023تک ملک پر قرضے کی جو تفصیلات جاری کی ہیں ان کے مطابق پاکستان پر مجموعی طور پر 65189ارب روپے کا اندرونی و بیرونی قرضہ ہے جس میں صرف ایک سال کے دوران 14000ارب روپے کا اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال 31دسمبر 2022کو ملک پر مجموعی قرضہ 51058ارب روپے تک تھا جو ایک سال میں 65189ارب روپے ہوگیا۔ 1سال میں قرض میں ہونیوالا یہ اضافہ 27.7فیصد تھا، اس مجموعی قرضے میں اندرون ملک بینکوں اور مالیاتی اداروں سے لیا جانے والا قرضہ 42588ارب روپے ہے جب کہ بیرونی عالمی اداروں اور ممالک سے لئے جانے والا قرض 22601ارب روپے ہے۔ جبکہ ڈالر کے حساب میں واجب الادا قرضہ تقریباً 131ارب ڈالر بنتا۔ موجودہ مالی سال میں پاکستان کو 24.5ارب ڈالر قرضہ واپس کرنا تھا جس میں 3.8ارب ڈالر سود کی ادائیگی اور 20.7ارب ڈالر اصل رقم تھی۔ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد کے مطابق 24.5ارب ڈالر کی واپسی میں سے کافی ساری رقم واپس کردی گئی ہے یا پھر اس قرضے کو رول اوور کر دیا گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو 30جون 2024تک مالی سال کے اختتام تک 10ارب ڈالر کا قرضہ واپس کرنا ہے۔ عالمی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان نے موجودہ مالی سال کے پہلے 6مہینوں میں 18ارب ڈالر قرضے کی واپسی کرنی تھی، جس میں آدھی سے بھی کم ادا کی گئی ہے تاہم اس میں دوسرے ممالک کی جانب سے رول اوور کیا جانے والا قرضہ شامل نہیں ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق پاکستان کو اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے کیلئے ملکی استحکام انتہائی ضروری ہے اور استحکام کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر عدل و انصاف کو یقینی بنانا ہوگا، سیاسی مقدمات کو بند کرنا ہوگا۔ نئی حکومت کو درپیش بڑا مسئلہ انتخابات میں دھاندلی یا پھر معاشی عدم استحکام ہے، بظاہر قائم ہونیوالی حکومت کمزور نظر آ رہی ہے لیکن انتخابات کے بعد کوئی ایک سیاسی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور روزانہ کی بنیاد پر کئی حلقوں میں الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری نوٹیفکیشن کینسل ہو رہے ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابات کے بعد سیاسی پارٹیوں نے عدالتوں کی طرف رخ کیا ہوا ہے۔ عدالتوں پر سیاسی مقدمات کا بوجھ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ عوامی فلاحی مقدمات کیلئے عدالتوں کے پاس شنوائی کیلئے انتہائی کم وقت ہے۔ باشعور لوگ درخواست دے کر بھاگ جاتے ہیں۔ عدالتوں کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ ایسے کیسے انصاف ہوگا؟ انتخابات کو کالعدم قرار دینے کی درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان نے درخواست گزار کو جرمانہ کرکے کھلاڑیوں کو پیغام دیدیا ہے کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔ تشکیل دی جانے والی نئی حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات میں بھی مشکلات درپیش ہیں کیونکہ اس وقت دھاندلی کو لیکر چھوٹی بڑی جماعتیں سڑکوں پر ہیں۔ دو ایک جماعتوں کو مینیج کرنا آسان لیکن پورے سیاسی نظام کو مینیج کرنا اتنا آسان نہیں رہا۔ اس دفعہ کے ووٹ پیٹرن نے ثابت کر دیا ہے کہ اب جیت کو بدلنا آسان نہیں رہا، انتخابات میں ہیرا پھیری سیاسی جماعتوں کے وجود کیلئے خطرہ ثابت ہوں گے۔ معاشی صورتحال آنے والے دنوں میں مزید مہنگائی کا سبب ہوگی، معاشی اعدادوشمار سے صاف واضح ہے کہ حالات میں استحکام اور انصاف کو یقینی بنانا ہوگا۔ دوسری طرف دو ایسے منجھے ہوئے سیاست دانوں نے اقتدار سنبھالنے کا اعلان کیا ہے جو جوڑتوڑ اور حکم کی بجا آوری پر یقین رکھتے ہیں، زبان یا اصول ان کے ہاں کوئی معنی نہیں رکھتے۔ صدارت لینے اور وزارتیں نہ لینے کے پیپلز پارٹی کے اعلان سے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کے اندر تحفظات کا سامنا ہے۔ یہ تحفظات مسلم لیگ (ن) کو اندرونی کمزور کریں گے۔ میاں شہباز شریف کو وزیراعظم کیلئے نامزد کرکے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت نے بھی غیر جمہوری ہونے کا ثبوت دیا۔ نوازنے کا سلسلہ جاری ہے، پہلے حمزہ شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب اور اب مریم نوازشریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دی جارہی ہے۔ دوسری طرف آصف زرداری اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو کرسی کیلئے منتخب نہیں کرا سکا۔ بلاول بھٹو کی طرف سے آزاد امیدواروں کو یاد کیا جاتا رہا لیکن جن بابو کو گھر بیٹھنے کا مشورہ دیا وہ آج منتخب ہیں۔ ایسے فیصلے جو غیر جمہوری ہوں ان سے پارٹیوں کو نقصان ہے لیکن یہ نقصان جلدی سامنے نہیں آتا۔ ریکارڈ پر ہے کہ کئی سینئر رہنما ن لیگ سے الگ ہوگئے ہیں۔ پی ڈی ایم کی طرح اس نئے اتحاد میں کچھ ایسا خاص نہیں کہ کمزور ملکی معیشت سے جڑے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کی گئی معاشی پلاننگ میں کوئی امید نظر آتی ہے باقی آنے والے دنوں میں معاشی حالات عوام کیلئے مزید سخت رہیں گے۔ سخت فیصلے کرنے کیلئے اتحادیوں کے ساتھ اپوزیشن کی ضرورت ہوگی لیکن اس دفعہ کی اپوزیشن حکومت سے زیادہ طاقتور نظر آ رہی۔ فیصلہ سازی میں مشکلات ہوں گی ۔ تمام صورت حال کے باوجود ملکی مفاد کیلئے مل جل کر چلنے میں مسائل کا حل ہے۔ ہمارے ہاں کی جمہوریت میں اسی سوچ کی کمی ہے۔ اس بار ناکامی ہوئی تو مستقبل میں ان کے پاس کوئی بیانیہ باقی نہیں رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button