Editorial

عام انتخابات اور نئی حکومت سے توقعات

ملک عزیز میں 8فروری 2024کو عام انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔ اس حوالے سے سیاسی گہما گہمی عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھرپور انتخابی مہمات چلائی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں سیاسی جلسوں کا رواج ہے، ریلیاں نکالی جارہی ہیں، میٹنگز منعقد ہورہی ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے ملک کے طول و عرض میں ہونے والے جلسوں میں مخالفین پر الزامات کی بھرمار ہے، اپنی تعریف و توصیف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ اپنے ادوار میں کیے گئے کاموں کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔ مفت بجلی دینے کے دعوے ہیں۔ گیس لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے وعدے ہیں۔ ملکی معیشت کی صورت حال بہتر بنانے کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ بے شمار لوگوں کے لیے روزگار کے وعدے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے حلقے کے عوام کے ساتھ بیٹھکیں جاری ہیں۔ اُنہیں سُہانے مستقبل کے خواب دِکھائے جارہے ہیں۔ دعوؤں اور وعدوں کا موسمِ بہار چل نکلا ہے۔ یہ صورت حال لگ بھگ ہر عام انتخابات سے قبل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے وعدے اور دعوے ہوتے ہیں۔ عوام کی قسمت بدل دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ اُن کے دُکھ دُور کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ اُنہیں تمام سہولتیں بلاتعطل فراہم کرنے کے وعدے کیے جاتے ہیں، لیکن انتخابات جیسے ہی ہوتے ہیں، اقتدار ملنے کے بعد وعدے فراموش کردیے جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں جنرل الیکشن کے التوا کی افواہ پوری شدومد سے اُڑائی گئیں۔ عوام بھی تذبذب میں مبتلا ہوگئے تھے۔ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت کی جانب سے ایک سے زائد مرتبہ مقررہ وقت پر عام انتخابات منعقد ہونے کا کہا گیا۔ افواہوں نے دم توڑا اور اب صورت حال واضح ہوچکی ہے۔ بہرحال عام انتخابات کا طے کردہ وقت پر انعقاد احسن اقدام ہے۔ اس کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان پوری تندہی سے مصروفِ عمل ہے۔ وہ کافی پہلے سے اپنی تیاریاں جاری رکھا ہوا ہے اور مقررہ وقت پر عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے اُس کی تمام تر کاوشیں قابل تحسین ہیں۔ نگراں حکومت نے بھی اس ضمن میں اُس کی ہر قسم کی ممد و معاونت کی ہے۔ گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک بھر میں پولنگ اسکیم کی سمری کا اجرا کیا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق عام انتخابات 2024کے لیے الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں پولنگ اسکیم کی سمری جاری کردی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے مطابق عام انتخابات کے لیے ملک میں کُل 90ہزار 675پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں، جن میں مَردوں کے 25ہزار 320اور خواتین کے 23 ہزار 950 پولنگ اسٹیشن ہوں گے، الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری سمری میں کہا گیا ہے کہ ملک بھر میں 41 ہزار 405 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہوں گے، الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب میں 50 ہزار 944 پولنگ اسٹیشن ہوں گے، جن میں مردوں کے 14ہزار 556اور خواتین کے 14ہزار 36پولنگ اسٹیشن ہوں گے۔ پنجاب میں 22 ہزار 352 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہوں گے، الیکشن کمیشن کی سمری میں کہا گیا ہے کہ سندھ میں 19 ہزار 6 پولنگ اسٹیشن ہوں گے، جن میں مردوں کے 4 ہزار 439، خواتین کے 4 ہزار 308 پولنگ اسٹیشن ہوں گے، صوبے میں 10ہزار 259 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہوں گے، الیکشن کمیشن کے مطابق خیبرپختونخوا میں 15ہزار 697 پولنگ اسٹیشن ہوں گے، جن میں مردوں کے 4 ہزار 814، خواتین کے 4 ہزار 289 پولنگ اسٹیشن ہوں گے۔ صوبے میں 6 ہزار 594 مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہوں گے، اس کے علاوہ بلوچستان میں 5 ہزار 28پولنگ اسٹیشن ہوں گے، جن میں مردوں کے 1511 اور خواتین کے 1317پولنگ اسٹیشن ہوں گے، صوبے میں 2 ہزار 200مشترکہ پولنگ اسٹیشن ہوں گے، الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں 2 لاکھ 76ہزار 402 پولنگ بوتھ ہوں گے، جن میں مردوں کے 1 لاکھ 47 ہزار 560 اور خواتین کے لیے 1 لاکھ 27 ہزار 842 پولنگ بوتھ ہوں گے، پنجاب میں 1لاکھ 49ہزار 434، سندھ میں 65 ہزار5پولنگ بوتھ ہوں گی، خیبر پختو نخوا میں 47 ہزار 81، بلوچستان میں 14ہزار 882پولنگ بوتھ ہوں گے۔25 کروڑ آبادی کے تناسب سے اتنی بڑی تعداد میں پولنگ اسٹیشنز و بوتھ کا قیام احسن اقدام قرار پاتا ہے۔ تمام تر اقدامات بروقت کرنے پر الیکشن کمیشن کی تعریف نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ اس کی تمام تر کوششیں لائقِ تحسین ہیں۔ دعا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد شفاف اور پُرامن ہو۔ بدامنی کا کوئی بھی واقعہ رونما نہ ہو۔ یہ مرحلہ امن و امان کے ساتھ تکمیل کو پہنچے۔ اس میں دھاندلی کا ذرا بھی شائبہ نہ ہو۔ خالص عوام کے ووٹوں سے ایسی حکومت تشکیل پائے، جو ملک و قوم کو لاحق مسائل کے حل کی جانب تندہی سے قدم بڑھائے۔ معیشت کی زبوں حالی کو خوش حالی میں بدلنے کے لیے راست کوششیں کرے۔ پاکستانی روپے کو اُس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ مہنگائی کے نشتروں میں کمی کا باعث بنے۔ غریب عوام کی زندگی سہل بنانے کی وجہ ثابت ہو، اُن کی زیست کو خوش حالی سے ہمکنار کرے۔ ملک کو مشکلات کے بھنور سے نکالنے کے لیے کاوشیں کرے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں کمی کے لیے اقدامات یقینی بنائے۔ بجلی، گیس اور پانی ایسی سہولتوں کی بلاتعطل فراہمی کے لیے اقدامات کرے۔ ان بنیادی ضروریات کی قیمتیں بھی مناسب سطح پر لانے کے لیے کوششیں کرے۔ غرض نئی منتخب حکومت ملک و قوم کو ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن کرنے کی وجہ ثابت ہو۔
نمونیا سے 258 اموات، تشویشناک امر!
پاکستان میں ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی مرض وبائی شکل اختیار کرلیتا ہے اور کئی زندگیوں کے ضیاع کی وجہ بنتا ہے۔ یہاں صحت کی صورت حال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ بیماریوں کے پھیلائو کے حوالے سے صورت حال خاصی تشویش ناک رہی ہے۔ امراض تیزی سے بڑھتے رہتے اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لیتے رہتے ہیں۔ ان کے تدارک کے حوالے سے صرف بیان بازیاں سامنے آتی ہیں، عملی بنیادوں پر خال خال ہی اقدام کیے جاتے ہیں۔ امسال کے آغاز سے ہی پنجاب میں نمونیا نے تباہ کاریاں مچانی شروع کردی تھیں اور اب صورت حال سنگین شکل اختیار کرچکی ہے۔ روزانہ ہی کئی اطفال اپنی زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں، کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑ چکی ہیں۔ والدین شدید دُکھ و غم کی کیفیات میں مبتلا ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے حالات مزید گمبھیر ہورہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی 18 بچے نمونیا کی بھینٹ چڑھ گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں خطرناک نمونیا مزید 18 بچوں کی زندگیاں نگل گیا۔ گزشتہ روز نمونیا کے 869 جب کہ صرف لاہور میں 177 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں رواں سال نمونیا سے 258 اموات اور 14 ہزار 530 کیسز اور لاہور میں رواں سال نمونیا سے 53 اموات اور 2 ہزار 490 کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں نمونیا سے اموات کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ چار روز کے درمیان 60 سے زائد بچے جان کی بازی ہارچکے ہیں، ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ پنجاب میں نمونیا کے بڑھتے ہوئے کیسز کی بڑی وجہ رواں سال موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی اسموگ بھی ہے۔ نمونیا سے 258 اموات یقیناً تشویش ناک امر ہے جب کہ ہزاروں لوگ اس سے متاثر ہیں۔ حکومت کو نمونیا کے تدارک کے لیے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس حوالے سے عوامی آگہی کا بندوبست کرنا چاہیے۔ میڈیا پر اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ کس طرح سے اس مرض سے تحفظ ممکن ہے۔ دوسری جانب ہم شہریوں سے ان سطور کے ذریعے گزارش کریں گے کہ شدید ٹھنڈ کا موسم ہے، اس میں بچوں اور بزرگوں کا خصوصی خیال رکھا جائے۔ موسمی اثرات سے انہیں بچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں۔ جوان فرد تو نمونیا کے وار سہہ لیتا ہے کہ اُس کی قوت مدافعت اس کی استطاعت رکھتی ہے، لیکن بچے اور بزرگ نمونیا سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور شدید صورت اختیار کرلینے پر جان جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔ اس مرض کا راستہ احتیاط کے ذریعے روکا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button