Editorial

افغانستان اپنے محسن پاکستان کے ساتھ وفا نبھائے

سانحہ نائن الیون کے بعد امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کرتے ہوئے افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوا۔ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا ڈالی۔ امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کے منفی اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔ یہاں بھی دہشت گردی پھیلی۔ ملک کے طول و عرض میں روزانہ کی بنیاد پر دہشت گردی کے واقعات پیش آنے لگے۔ دہشت گردوں کا نشانہ بے گناہ اور معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی فورسز بھی تھیں۔ روزانہ ہی ملک کے مختلف حصّوں میں شر پسندی کی کارروائی میں کئی بے گناہ لوگ جان کی بازی ہار جاتے تھے۔ بم دھماکے، خودکُش حملے اور فائرنگ کے واقعات کے سلسلے تھے، جو تھمنے میں نہیں آرہے تھے، عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ صبح کو گھروں سے نکلنے والوں کو یہ یقین نہیں ہوتا تھا کہ شام کو زندہ سلامت گھر بھی پہنچ سکیں گے یا نہیں۔ ملک میں بدامنی کا دور دورہ تھا۔ کوئی جگہ محفوظ نہ تھی۔ عبادت گاہوں میں بھی دہشت گردی کے بڑے واقعات رونما ہوئے، جن میں سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوئے۔ خوف و دہشت پھیلی تھی۔ مایوسی کے سائے تھے۔ 80 ہزار بے گناہ شہری ان مذموم کارروائیوں میں جاں بحق ہوئے، ان میں بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران و جوانوں کی بھی شامل ہے۔ دسمبر 2014میں سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور رونما ہوا، جس میں 150قریب معصوم بچوں اور اساتذہ نے جام شہادت نوش کیا۔ اس سانحے کے بعد ملک میں دہشت گردی کا مکمل قلع قمع کرنے کے لیے کمر کسی گئی۔ پاک افواج کے تحت پہلے آپریشن ضرب عضب ہوا، جس میں بڑی کامیابیاں ملیں، پھر ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کا سر کچلا گیا۔ ان کو چن چن کر مارا گیا۔ ان کے ٹھکانوں کو تباہ و برباد کیا گیا۔ کتنے ہی دہشت گرد جہنم واصل ہوئے اور کتنے ہی گرفتار، جو باقی بچے اُنہوں نے پاکستان سے فرار میں ہی اپنی بہتری سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بہتر ہوئی۔ عوام نے سکون کا سانس لیا۔ اُن کے دلوں سے خوف و وحشت ختم ہوئی۔ صورت حال نے بہتر رُخ اختیار کیا۔ دوسری جانب افغانستان سے اگست 2021میں امریکی افواج کا انخلا مکمل ہوا اور وہاں افغان طالبان حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اُس کے کچھ ہی عرصے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گردی کے عفریت نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کردیا۔ اس بار سیکیورٹی فورسز ان کے خاص نشانے پر ہیں۔ اُن کے قافلوں پر دہشت گرد حملے ہورہے ہیں، چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کی کارروائیاں بے پناہ بڑھ گئی ہیں۔ ملک کے امن و امان کو سبوتاژ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اپنے فرائض سے ہرگز غافل نہیں اور وہ مختلف حصّوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز
جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ان میں انہیں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ کئی دہشت گردوں کو مارا جاچکا، گرفتار کیا جا چکا، اُن کی کمین گاہیں تباہ کی جاچکی ہیں۔ متعدد علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کیا جا چکا ہے۔ یہ کارروائیاں تھمی نہیں، کامیابی کے ساتھ جاری ہیں اور ان شاء اللہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہیں گی۔ پاکستان پہلے بھی تن تنہا دہشت گردوں کی کمر توڑ چکا اور اب بھی ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔ پاکستان میں دہشت گردی میں کالعدم ٹی ٹی پی کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ سرحد پار سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد حملے کرتے اور بے گناہ زندگیوں کے ضیاع کی وجہ بنتے ہیں۔ افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز ہیں۔ پاکستان اس حوالے سے کئی بار افغان حکومت کی توجہ مبذول کرا چکا اور افغانستان سے اپنے ہاں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کا مطالبہ کر چکا ہے، لیکن افغانستان کی جانب سے ناصرف اس سے انکار کیا جاتا ہے بلکہ اس ضمن میں سنجیدگی کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جارہا۔ اس حوالے سے آئے روز اہم شواہد سامنے آرہے ہیں۔ اب تازہ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے صوبہ کنڑ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے مدرسے کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت کے بعد افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور ٹریننگ ( تربیتی) مراکز کی موجودگی کے مزید شواہد سامنے آگئے۔ تقریب کنڑ میں موجود مدارس، مدرسہ دار الحجرا و الجہاد اور جامعہ منبع الاسلام میں ہوئی جب کہ تقریب میں دہشت گرد عظمت لالا اور مولوی فقیر کی موجودگی بھی دیکھی گئی۔ اس تقریب میں متعدد افغان رہنمائوں نے بھی شرکت کی۔ ترجمان افغان طالبان کے مطابق افغانستان میں ٹی ٹی پی کے کوئی ٹھکانے موجود نہیں جب کہ یہ تقریب افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان کی موجودگی کا کھلا ثبوت ہے۔ ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرتی ہے، جس کا افغان حکومت کو بخوبی علم ہے۔ افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرکے خطے کو دہشت گردی سے پاک کرے۔ ٹی ٹی پی کی افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں کی بنیادی وجہ افغان طالبان کا ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں مہیا کرنا ہے۔ مذکورہ بالا اطلاع افغانستان میں ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اسے حکومتی چھتر چھایا فراہم کرنے کے حوالے سے چشم کُشا قرار پاتی ہے۔ افغانستان آخر کب تک سچ سے منہ موڑتا رہے گا۔ پاکستان نے ہر مشکل وقت میں افغانستان اور اس کے عوام کا ساتھ نبھایا ہے، مدد کی ہے اور اب بھی بے لوث انداز میں اس کے لیے مصروفِ عمل ہے۔ محسنوں کے ساتھ ایسا تو کہیں بھی نہیں کیا جاتا۔ افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نا صرف اپنے ہاں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز کا خاتمہ کرے، بلکہ ان کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائے۔ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کے سلسلے کو روکے۔ اب اس سچ سے منہ موڑنے کے بجائے اپنے محسن پاکستان کے ساتھ وفا نبھائے۔ دہشت گردی کے خاتمے اور خطے کے امن کے لیے ایسا کرنا ناگزیر ہے۔
پیاز کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ
مہنگائی کے بدترین جھکڑ پچھلے پانچ چھ سال سے چل رہے ہیں۔ غریبوں کے لیے جینا دُشوار ہوچکا ہے۔ ناقص پالیسیوں سے بے روزگاری کی شرح بھی ہولناک حد تک بڑھی ہے۔ ایسے میں غریبوں کے لیے زندگی کی ڈور کو قائم رکھنا کسی امتحان سے کم نہیں۔ بعضے ایسے بھی ہیں جو بے روزگاری، فاقہ کشی اور غربت سے تنگ آکر اپنی بیوی بچوں سمیت موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔ ایسے واقعات دل دہلا دیتے ہیں، لیکن حیف ہے کہ مہنگائی کی شدّت میں کمی آئی ہو، بلکہ روز بروز اس میں اضافے کے سلسلے دراز رہتے ہیں۔ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوتے دِکھائی نہیں دیتے۔ غریب عوام کا حال بہت بُرا ہے، اُنہیں روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بے پناہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ بھاری بھر کم بجلی اور گیس کے بل ان کے لیے سوہانِ روح سے کم نہیں ہوتے۔ بچوں کی تعلیم کے اخراجات اور گھر کا راشن اُن کا بھرکس نکال دیتا ہے۔ کتنے ہی سفید پوش گھرانے غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ حالات روز بروز بگڑتے رہے ہیں اور اب بھی سنورنے کی کوئی امید دِکھائی نہیں دے رہی، جہاں آٹا، چینی، تیل، گھی، چاول، دالیں، چنے، چائے کی پتی، دودھ، دہی کی قیمتیں مائونٹ ایورسٹ سر کرچکی ہیں، اسی طرح بعض سبزیاں بھی ہوش رُبا حد تک مہنگی ہوچکی ہیں۔ پیاز جو ہر ہانڈی کا لازمی جزو ہوتی ہے، جو عام حالات میں محض 40؍50روپے کلو فروخت ہوتی ہے، اب اُس کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچادی گئی ہے۔ 350روپے فی کلو پر بک رہی ہے۔ اس پر غریب عوام خوب دُہائیاں دے رہے ہیں۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق پیاز کی قیمت 350کی سطح کو بھی چھو گئی، کئی شہروں میں فی کلو پیاز مہنگا ہونے کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے، 100کلو کی بوری 30ہزار سے بھی مہنگی ہوگئی۔ ملک بھر میں پیاز کا بحران شدّت اختیار کرنے لگا ہے، پیاز کی قیمتوں میں دُگنا اضافے کے باعث پیاز عوام کی دسترس سے باہر جبکہ ہول سیل مارکیٹ میں 100کلو پیاز کی بوری کی قیمت 31 ہزار روپے تک پہنچ گئی۔ بازاروں میں پیاز کی فی کلو قیمت 160روپے سے بڑھ کر300سے 350روپے تک پہنچ چکی ہے جبکہ 100کلو بوری کی قیمت ہول سیل مارکیٹ میں 31ہزار تک پہنچ گئی، جس کے باعث مہنگائی کے ستائے عوام کے لیے پیاز خریدنا بھی مشکل ہوگیا۔ عوام نے پیاز کی قیمتوں پر نوٹس لے کر فوری ریلیف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پیاز کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے۔ آخر اس بحران کی وجہ کیا ہے۔ یہ پتا لگایا جائے اور اس کے حل کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے درد مند دل حکمراں دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ نگراں حکومت کو پیاز اور دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں مناسب سطح پر لانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ عوام پر مہنگائی کے بہت نشتر برس چکے، اب اُن کی حقیقی اشک شوئی کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button