Editorial

مقبوضہ کشمیر، بھارتی فوج کا مذموم آپریشن

مقبوضہ جموں و کشمیر میں سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا دِکھائی دیتے ہیں۔ وادی جنّت نظیر کو دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بھارتی مظالم کا لامتناہی سلسلہ ہے۔ 8 عشروں پر محیط بدترین ظلم و ستم کی داستانیں رقم ہورہی ہیں۔ بنیادی حقوق سلب کیے جارہے ہیں۔ حقِ زیست چھینا جارہا ہے۔ 75 سال میں سوا لاکھ سے زائد کشمیری مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ وہاں کتنے ہی بچے یتیم ہوچکے، کتنی ہی عورتیں بیوہ کی جاچکیں، کتنی ہی عورتوں کی گودیں اُجاڑی جاچکی ہیں، کوئی شمار نہیں۔ کتنے ہی کشمیری مسلمانوں کو چادر اور چہار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے گھروں سے گرفتار کیا گیا اور لاپتا کردیا گیا۔ مقبوضہ کشمیر میں کتنی ہی اجتماعی قبروں کی دریافت ہوچکی ہے۔ اپنے شوہروں کے لاپتا ہونے پر کتنی ہی کشمیری خواتین نیم بیوگی کی زندگی گزاررہی ہیں، کوئی شمار نہیں۔ وہ روز اپنے شوہر کی واپسی کی امید پر بیدار ہوتی ہیں اور اُس دن کا سورج اُن کی مایوسی کے ساتھ غروب ہوتا ہے۔ عالمی ضمیر مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی ریاستی دہشت گردی پر سویا ہوا دِکھائی دیتا ہے۔ نریندرا مودی جب سے بھارت کا وزیراعظم بنا ہے، تب سے مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و ستم میں ہولناک شدّت آئی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حےثیت کا خاتمہ اسی کے دور میں ہوا۔ ہر گزرتا دن کشمیری مسلمانوں کے لیے کٹھن آزمائش میں تبدیل دِکھائی دیتا ہے۔ کرونا وبا جب آئی تو پوری دُنیا میں لاک ڈائون کی کیفیت رہی۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان تو پچھلے تین ماہ سے بدترین لاک ڈائون کا شکار تھے۔ اُن پر بھارت نے عرصۂ حیات تنگ کردیا تھا۔ اُن کے تمام حقوق سلب کرلیے تھے۔ فون اور انٹرنیٹ کی سروسز بند تھیں۔ کشمیر کو دُنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا۔ مودی دور میں نہتے دادا کو ننھے پوتے کے سامنے دہشت گرد بھارتی فوج نے شہید کردیا۔ معصوم بچے کے سامنے اُس کے باپ سے حقِ زیست چھین لیا گیا۔ پچھلے 75 سال سے اقوام متحدہ میں منظورکردہ کشمیری مسلمانوں کے حق خودارادیت سے متعلق اس مسئلے کے تصفیے پر عمل درآمد کرانے سے بھارت اجتناب کررہا ہے۔ عالمی ادارہ بھی اپنی منظور کردہ قراردادوں پر عمل کرانے سے قاصر رہا ہے۔ یہ اقوام متحدہ کی تاریخ میں بدترین ناکامی اور ناانصافی شمار ہوتی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا کہ مودی دور میں مظالم میں ہولناک شدّت آئی ہے۔ یہ روز بروز مزید شدّت اختیار کررہے ہیں۔ بھارت میں رواں سال عام انتخابات ہوں گے۔ مودی کی بی جے پی حکومت اگلے عام انتخابات میں پھر سے کامیابی کے لیے اپنی مذموم سازشوں میں مصروفِ عمل ہے۔ ایک طرف پاکستان کے خلاف سنگین الزامات عائد کرکے ووٹرز کی رائے اپنے حق میں کرنے کا مذموم منصوبہ ہے تو دوسری جانب مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ بدترین ظلم روا رکھ کے ہندو انتہاپسند رائے عامہ کو اپنے لیے ہموار کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہیں۔ بھارت کا نام نہاد یومِ جمہوریہ بھی اسی مہینے کی 26 تاریخ کو منایا جائے گا۔ اسی تناظر میں بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کردیا ہے۔ پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق وادی کشمیر کو جموں کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ملانے والے پہاڑی سلسلے پیر پنجال کے دونوں اطراف شروع ہونے والے اس آپریشن کو شکتی کا نام دیا گیا ہے۔ آپریشن بیک وقت ایک طرف شوپیاں اور پلوامہ اضلاع میں اور دوسری طرف ہمالیہ کے نشیبی اضلاع راجوری اور پونچھ میں شروع کیا گیا ہے، جس کا مقصد وادی کشمیر کے علاوہ جموں میں آزادی کی حامی آوازوں کو خاموش کرنا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی فورسز اور بدنام زمانہ بھارتی ایجنسیوں نے بھارتی یوم جمہوریہ سے چند دن قبل پورے مقبوضہ علاقے میں محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں اور گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کی آزاد جموں و کشمیر شاخ نے اسلام آباد میں ایک بیان میں مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج کی طرف سے جاری قتل و غارت، گرفتاریوں، خواتین کی بے حرمتی اور املاک کی تباہی کی شدید مذمت کی ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی دہشت گرد فوج کا آپریشن ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اور بھارت کو اس مذموم اقدام سے باز رکھنا چاہیے۔ بھارت کے ایسے اوچھے ہتھکنڈے کشمیری مسلمانوں کی آواز کو دبا نہیں سکتے، اُن کے دِلوں میں جلتی آزادی کی شمع کو بُجھا نہیں سکتے۔ کشمیری مسلمانوں کا جذبۂ حریت کسی طور ماند نہیں ہوسکتا۔ اُن کی آنکھیں آزادی کے خواب دیکھتی ہیں اور جلد اُن کی تکمیل چاہتی ہیں۔ اُن کی یہ خواہش جلد پوری ہوگی۔ ظلم کا سورج آخر ایک دن غروب ضرور ہوگا اور وہ دن جلد آئے گا۔ دُنیا کی معلوم تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جتنا زیادہ بڑھتا ہے، اُتنی جلدی مٹ جاتا ہے۔ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے۔ بھارت کے ظلم کے دن پورے ہوچکے ہیں۔ اب بھارتی مظالم کا سورج غروب ہونے کو ہے۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی رنگ لائے گی۔ بھارت خود حصّے بخرے ہوجائے گا کہ مودی دور میں وہاں بدترین ناانصافیوں کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔ اقلیتوں کے لیے بھارت کو جہنم بنادیا گیا ہے۔ وہاں علیحدگی کی ڈھیروں تحاریک تیزی سے پنپ رہی ہیں، جن سے بھارت بوکھلایا سا دِکھائی دیتا ہے۔ اب بھی اگر اُس نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو اُس کی داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
نمونیا کے بڑھتے کیسز، احتیاط ناگزیر
ملک عزیز میں صحت کے حوالے سے صورت حال کسی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی، یہاں بیماریاں انتہائی تیزی سے پھیلتی اور آبادی کے بڑے حصّے کو لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے کئی لوگ جان کی بازی تک ہار
جاچکے ہیں۔ وطن عزیز میں ہر دوسرا شخص ویسے ہی کسی نہ کسی مرض کا شکار ہے۔ یہاں شوگر، فالج، ہیپاٹائٹس، امراض گردہ، دل و جگر سمیت دیگر بیماریوں میں آبادی کا ایک بڑا حصّہ مبتلا ہے۔ ہر سال ہی ان امراض کے باعث لاتعداد لوگ اس جہانِ فانی سے کوچ کرجاتے ہیں۔ بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ بتائی جاتی ہے۔ یہاں کبھی بھی صحت کو اوّلیت دی ہی نہیں گئی۔ ملک کے سالانہ بجٹ میں اس شعبے کے لیے انتہائی معمولی رقم مختص کی جاتی ہے۔ سرکاری اسپتالوں میں بھی علاج معالجے کی سہولتوں کی مکمل فراہمی کا فقدان دِکھائی دیتا ہے۔ مہنگائی کے اس دور میں شہری پرائیویٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتے۔ اگر وہ سرکاری اسپتالوں کا رُخ کریں تو وہاں انہیں علاج کے لیے بے پناہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب جاکر اُن کا نصیب یاوری کرتا ہے۔ بہت سوں کے مقدر میں تو وہاں سے مایوس لوٹنا لکھا ہوتا ہے۔ سرکاری ادویہ کی خوردبرد عام ہے۔ شہریوں کو علاج کے لیے دوائیاں بھی اپنے خرچے پر خریدنی پڑتی ہیں۔ ان تمام خرابیوں کو درست کرنے کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے جب کہ بجٹ میں صحت کے لیے معقول حصّہ ناصرف مختص کیا جائے، بلکہ اسے شفاف بنیادوں پر بروئے کار بھی لایا جائے تاکہ خلق خدا کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہوسکے۔ ہمارے ملک میں بیماریاں تیزی سے پنپتی ہیں۔ وبائیں بہت بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں۔ اس وقت پورے ملک میں سردی کی شدید لہر ہے، جس سے نمونیا کے مریضوں کی تعداد ہوش رُبا حد تک بڑھتی دِکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب میں نمونیا کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور محض ایک ہفتے کے دوران 63 شہری جاں بحق ہوچکے ہیں۔میڈیا رپورٹس کے مطابق شدید سردی کے باعث نمونیا کے کیسز میں اضافے سے شرح اموات بھی بڑھ رہی ہے۔ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران نمونیا 4 شہریوں کی زندگی نگل گیا جب کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران صرف لاہور میں 23 افراد نمونیا کے باعث جاں بحق ہوئے۔ پنجاب بھر میں 24 گھنٹوں کے دوران 14 افراد نمونیا کے باعث جان کی بازی ہار گئے اور گزشتہ 7 روز کے دوران پنجاب بھر میں 63 افراد نمونیا کے باعث جاں بحق ہوئے۔ نمونیا کی مختلف علامات میں سینے میں تکلیف، سانس لینے میں دُشواری، زوردار کھانسی، گلے میں درد، شدید تھکاوٹ کا احساس اور بخار وغیرہ شامل ہیں۔ نمونیا سے شہریوں کی بڑی تعداد کا متاثر ہونا تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکر بھی ہے۔ احتیاط کے ذریعے ہی بیماریوں سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، شہریوں کو شدید سرد موسم میں ہر طرح سے احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ خصوصاً بزرگوں اور معصوم بچوں کو خصوصی احتیاط کرائی جائے کہ کم قوتِ مدافعت ہونے کے باعث یہ زیادہ تر اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہ بیماری بعض اوقات زندگی کے درپے بھی آجاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button