CM RizwanColumn

سوشل میڈیا پر ہیجان یا نفاذ قانون کا فقدان

سی ایم رضوان
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے، جھوٹی خبروں سے تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے ریاست وجود کھوتی جا رہی ہے۔ افواہیں اور منفی باتیں بتائی جا رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ قوم کے ساتھ مل کر ہر قسم کے مافیا کی سرکوبی کریں گے۔ آرمی چیف نے ان خیالات کا اظہار نیشنل فارمرز کنونشن سے خطاب کے دوران کیا۔ بلاشبہ آرمی چیف کا یہ کہنا درست ہے کہ ملک میں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے ذریعے نفرت، عناد مایوسی اور نظام کی کمزوری کا تاثر بڑی شدومد سے دیا جا رہا ہے۔ یہ بھی سب جانتے ہیں کہ یہ ہیجان، مایوسی اور نظام پر عدم اعتماد کی فضا ملک میں اور بیرون ممالک میں موجود کون سے عناصر قائم کر رہے ہیں۔ یہ بھی قوم کے ذی شعور لوگ جانتے ہیں کہ چند اہم اور حساس نوعیت کے ملکی مسائل پر ہر سیاسی اور سماجی طاقت کا علیحدہ علیحدہ سٹینڈ، خیال، استدلال اور محاذ بنا ہوا ہے اور ان مسائل کو لے کر پچھلے چند سالوں سے تسلسل کے ساتھ ایک روز ایک گروہ کی جانب سے حملہ کیا جاتا ہے۔ دوسرے روز دوسرے گروپ کی جانب سے ایک خطرناک پوزیشن لے لی جاتی ہے اور تیسرے روز معاملہ اس رائے کے ساتھ تقریباً سمیٹ لیا جاتا ہے کہ ملک میں قانون نام کی کوئی چیز وجود ہی نہیں رکھتی۔ بظاہر یہ تاثر کافی حد تک درست بھی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیدہ دانستہ طور پر ہر طرف سے جاری پروپیگنڈہ، دروغ گوئی اور جھوٹی الزام تراشیاں کی جاتی ہیں جو کہ نہ صرف خود آرمی چیف کو بلکہ ہر ذی شعور پاکستانی کو صاف نظر آ رہی ہوتی ہیں مگر قانون، نظام اور طاقت ور حلقوں کی جانب سے کبھی بھی سخت ترین عملی اقدام کہیں نظر نہیں آتا۔ خود آرمی چیف کی جانب سے اس طرح کی صورتحال پر سخت بیانات اور تقریروں کا تکرار تو پچھلے ایک سال میں متعدد بار سنا گیا ہے مگر ان کی سخت تقاریر اور بیانات کے بعد بھی ہر بار یہ انکشاف ہوتا ہے کہ آرمی چیف کے اس واضح استدلال اور اصولی موقف کی حمایت اور اس کے نفاذ کے حق میں سسٹم کے اندر سے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکا۔ دوسرے لفظوں میں آرمی چیف جس قباحت اور ملک دشمن پروپیگنڈے کی سرکوبی کی بات کرتے ہیں۔ ان کے اصولی موقف کے باوجود سسٹم کے اندر سے ہی اس پروپیگنڈے کی سہولت کاری بھی جاری ہوتی ہے اور رہتی ہے۔ مثال کے طور پر مختلف عدالتوں کی جانب سے پی ٹی آئی نامی اس فتنہ کی سہولت کاری، میڈیا میں نمایاں تعداد میں موجود سپیکرز کی جانب سے اس فتنہ کی طرف داری اور انتظامیہ میں موجود بعض عناصر کی جانب سے اس فتنہ کو مظلومیت کارڈز کی فراہمی اور تیاری جیسے اقدامات پچھلے چند سالوں سے نظام اور ریاست کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف جب سے آئے ہیں باوجود مکمل بااختیار، مخلص اور نیوٹرل ہونے کے اس پر ہر چند ہفتوں کے بعد ایک تقریر تو کر دیتے ہیں مگر خود ان پر تنقید اور ان کے احکامات کے برعکس اقدامات کا سلسلہ ہر بار پہلے سے بھی تیز ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہیجان، مایوسی اور افراتفری پہلے سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔
یہ حقیقت اب مان ہی لینی چاہئے کہ ملک میں اسٹیبلشمنٹ مخالف سیاست اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے۔ سابقہ اتحادی حکومت نے باقاعدہ قانون سازی سے اسٹیبلشمنٹ کو بے تحاشا اختیارات دے رکھے ہیں۔ اب جو حالات ہیں ان کے تحت معیشت، سفارت اور نفاذ قانون کے حوالے سے ملک تباہی سے دوچار ہے۔ اکثر سیاست دانوں میں اشتراک عمل اور ملک سے وفاداری کو اولیت دینے کا رجحان ہی نہیں رہا اور جن سیاسی جماعتوں نے اپنی سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ملک کو بچانے کی کوشش کی ہے ایک پراپیگنڈے کے بعد بعض سٹیک ہولڈرز کی جانب سے ان کو پسند ہی نہیں کیا جا رہا اور یہ پراپیگنڈا مسلسل جاری ہے۔ ان حالات میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے کہ ملک بچانے کے لئے ڈنڈے کا سخت ترین استعمال کیا جائے۔
یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ سے ہی اسٹیبلشمنٹ مخالف پارٹیاں سیاسی میدان میں سرگرم عمل رہی ہیں۔ ماضی میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر ہمیشہ ایک یا دو سیاسی جماعتیں ایسی رہی ہیں جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنایا اور سیاسی معاملات میں اس کی مداخلت کی بھرپور مزاحمت کی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی برسوں میں آزاد پاکستان پارٹی، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان، عوامی لیگ اور جگتو فرنٹ نے اسٹیبلشمنٹ کی ان پالیسیوں کی بھرپور مخالفت کی جو مغرب نواز تھیں۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں میں بائیں بازو کی جماعتوں نے پاور کوریڈورز کی مغرب نواز پالیسیوں کی مخالفت جاری رکھی۔ انیس سو سڑسٹھ میں جب پی پی پی آئی تو اس کا لب و لہجہ بھی سامراج مخالف اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ تھا۔ انیس سو ستر کے انتخابات میں کامیاب ہونے والی نیپ، عوامی لیگ اور پی پی پی تینوں ہی کسی حد تک جی ایچ کیو مخالف تھیں۔ تاہم ستر کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں پی پی پی کا جی ایچ کیو کی طرف رویہ نرم ہوگیا جبکہ نیپ اور کچھ قوم پرستوں نے اپنی پنڈی مخالف پالیسیاں جاری رکھیں۔ اسی کی دہائی میں بھی تقریبا تمام قومی سطح کی جماعتوں نے جی ایچ کیو کے سیاسی کردار کی مخالفت کی۔ یہاں تک کہ 80ء کی دہائی میں انتہائی کمزور سمجھے جانے والے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے بھی ایک وقت میں اسٹیبلشمنٹ کو اس کی آئینی حدود کے حوالے سے یاد دہانی کرائی جبکہ 1988ء کے انتخابات کے بعد کبھی پاکستان پیپلز پارٹی، کبھی مسلم لیگ ن، کبھی ایم کیو ایم اور سندھی، بلوچ اور پختون قوم پرست جی ایچ کیو کے خلاف بر سر پیکار رہے۔
2011 ء کے بعد سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کی اور یہ حمایت کم و بیش عمران خان کے اقتدار سے نکلنے سے کچھ عرصے پہلے تک جاری رہی۔ ان کے اقتدار سے نکلنے کے بعد تحریک انصاف نے اسٹیبلشمنٹ مخالف لائن لی اور فوج پر کھل کر تنقید کی اور اس وقت صرف پاکستان تحریک انصاف ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کی بظاہر علامت ہے، جس کے ہزاروں کارکن اس وقت پابند سلاسل بھی ہیں جبکہ اس کے سابق وزیراعظم بھی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ یہاں یہ امر وضاحت طلب ہے کہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ مخالف مہم کسی اصول یا ضابطے کے نفاذ کی خواہاں نہیں بلکہ یہ ایک بلیک میلنگ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اس سے محبت کی وہی پینگیں بڑھانے جو کبھی سابقہ ادوار میں تھیں لیکن اب فوجی اسٹیبلشمنٹ نے سابقہ پالیسی سختی سے ترک کر دی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ ماضی میں مختلف سیاسی جماعتوں کے نامور سیاستدان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کھل کر بولتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن سے پرویز رشید اور خواجہ آصف اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاستدان سمجھے جاتے تھے لیکن پرویز رشید اب کم نظر آتے ہیں جب کہ شعلہ بیاں خواجہ آصف بھی اب ہر محاذ پر اسٹیبلشمنٹ کا دفاع کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی میں فرحت اللہ بابر، رضا ربانی اور تاج حیدر بھی اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے سخت مخالف تھے لیکن اب پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی توانا اینٹی اسٹیبلشمنٹ آوازیں نہیں اٹھ رہی۔ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ محسن داوڑ اور علی وزیر کے علاوہ کوئی ایسی آواز نظر نہیں آتی۔ سیاسی جماعتوں میں موجود جی ایچ کیو مخالف سیاست دان ممکن ہو کہ پارٹی اجلاسوں میں بات کرتے ہوں لیکن عوامی سطح پر وہ خاموش ہیں، جو اس امر کا عکاس ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اب سیاست اور سیاست دانوں پر اس طرح سے اثرانداز نہیں ہو رہی جس طرح کہ ماضی میں ہوتا تھا اور اب اس کا صرف ایک ہی اصولی موقف ہے کہ سب سے بڑھ کر پاکستان کے لئے کام کیا جائے۔ خاص طور پر موجودہ آرمی چیف کا خود اپنے ادارے کو اس حوالے سے صاف کرنا اور انتہائی اقدامات سے اجتناب کرنا ثابت کرتا ہے کہ وہ سیاست پر اثرانداز ہوئے بغیر ہر حال میں ملک کو درپیش موجودہ چیلنجوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اس کے برعکس ایک سیاسی فتنہ ہے جو کہ ملک کو دائو پر لگا کر اپنی مذموم سیاست کی کامیابی کے لئے ملک میں سوشل میڈیا کے ذریعے محض جھوٹ، پراپیگنڈے اور یک طرفہ الزام تراشیوں جیسے حربے استعمال کر کے ہیجان اور مایوسی پیدا کر رہا ہی ۔ آرمی چیف کا ان حالات میں واضح طور پر یہ کہنا درست ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فتنہ کے خلاف قانون کے نفاذ اور اس کے سخت ترین استعمال کی پالیسی پر عمل کیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button