ColumnImtiaz Ahmad Shad

انصاف کا ترازو

امتیاز احمد شاد
ابن العربی لکھتے ہیں کہ انصاف کا ترازو ایک دفعہ بھی غیر متوازی ہو جائے تو ریاست اور قوم کبھی دوبارہ نہیں اٹھ سکتی۔ کسی بھی معاشرے، کسی بھی سلطنت اور کسی بھی حکمران کے اقتدار کی بقاء کے لیے جو چیز لازم اور ضروری ہے، وہ عدل و انصاف ہے۔ خود نبی کریمؐ عدل و انصاف کی بالادستی کے لیے کوشاں رہتے۔ کتبِ سیرت میں لکھا ہے کہ بعثت نبویؐ سے قبل اہل مکہ نے باہمی طور پر ایک معاہدہ کیا کہ اب ہم عدل و انصاف کے قیام کی کوشش کرتے ہیں، اور مظلوموں کی حمایت کریں گے، کسی کے ساتھ ناانصافی ہوتو ہم اسے انصاف دلائیں گے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک تاریخ ساز معاہدہ نامہ تیار کیا تھا، خود نبی کریمؐ بھی اس معاہدے کا حصہ تھے اور یہ معاہدہ’’ حِلْفُ الفضُول ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، اس وقت رسولؐ اللہ کی عمر مبارک پندرہ برس تھی، چنانچہ ذوالقعدہ کے مہینی میں عبداللہ بن جُدعان کے مکان پر یہ معاہدہ طے پایا اور اس میں یہ لکھا گیا تھا کہ: ہم سب مظلوم کی حمایت و نصرت کا عہد کرتے ہیں، مظلوم کا ساتھ دیں گے یہاں تک کہ وہ اپنا حق پالے۔ قرآن کریم کی تعلیم یہ ہے کسی قوم سے آپ کی دشمنی ہے، تو اس حال میں بھی، حالانکہ یہ بڑا مشکل کام ہے، اس دشمنی میں بھی عدل و انصاف سے انسانی قدم ڈگمگا نہ جائیں۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! اللہ کے واسطے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جائو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو، یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو جو کچھ تم کرتے ہو، بیشک، اللہ اس سے خبردار ہے۔
عدل و انصاف کا ترازو ایسا صحیح اور برابر ہونا چاہیے کہ عمیق سے عمیق محبت اور شدید سے شدید عداوت بھی اس کے دونوں پلڑوں میں سے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔ رسولؐ اللہ کو سن سات ہجری، محرم الحرام کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ حکم ملا کہ آپ خیبر کی طرف پیش قدمی فرمائیں، اور وہاں جو یہود غدار موجود ہیں، جنہوں نے موقع موقع پر مسلمانوں سے بدعہدی کی، غداری کی، کفار کو مسلمانوں کے خلاف اکساتے رہے، ان کے خلاف آپ جہاد کریں۔ چنانچہ رسولؐ اللہ تقریباً سولہ سو صحابہؓ کے ہمراہ خیبر کے لیے روانہ ہوئے، وہاں یہود مختلف قلعوں میں بند ہوگئے تھے، کئی دن کے بعد جاکر خیبر فتح ہوا۔ تو یہود نے نبی کریمؐ سے درخواست کی کہ آپؐ ہمیں یہاں سے جلاوطن نہ کریں، ہمیں یہیں رہنے دیں، ہم یہیں زراعت کریں گے، اور جو پیداوار ہوگی، اس کا نصف حصہ آپؐ کو دیا کریں گے، رسولؐ اللہ نے ان کے ساتھ اس معاہدے کو قبول فرمایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی صراحت فرما دی: جب تک ہم چاہیں گے تمہیں یہاں رکھیں گے، اور جب ہم چاہیں یہاں سے جلاوطن کر دیں۔ اس معاہدے پر اتفاق ہوگیا۔ اب یہ لوگ زراعت کرتے اور آدھا حصہ مسلمانوں کو دیتے۔ ابن ماجہ شریف کی روایت میں ہے کہ جب یہ لوگ زراعت سے فارغ ہوتے اور پیداوار کی تقسیم کا وقت آتا تو اندازہ لگانے اور وصولی کے لیے رسولؐ اللہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو خیبر بھیجا کرتے۔ یہ وہاں جاکر ان یہودیوں کی اس پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کرتے، اور دو حصوں میں تقسیم کر کے، یہ نہیں کہ اچھی اچھی خود لے لی اور باقی یہودیوں کو دے دی، بلکہ ان کا عدل و انصاف دیکھیے وہ بھی دشمن کے ساتھ، کہ پیداوار کے دو حصے کرنے کے بعد یہودِ خیبر کو اختیار دیتے کہ ان دونوں میں سے جو حصہ تم چاہو، لے لو اور جو چاہو ہمیں دے دو۔ اور ساتھ ہی یہ جملہ ارشاد فرماتے: اے یہود کی جماعت! ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تم مجھے ناپسندیدہ ہو، کیوں کہ تم نے اللہ کے رسولوں کو شہید کیا ہے، اللہ کی ذات پر جھوٹ باندھا ہے، لیکن اس کے باوجود تمہارا بغض مجھے اس پر آمادہ نہیں کر سکتا کہ میں تم پر ظلم کروں۔ یہود جب دیکھتے کہ ایسا عدل و انصاف! وہ بھی ہمارے ساتھ تو بے ساختہ ان کی زبانوں سے یہ جملہ نکلتا تھا: ایسے ہی عدل و انصاف سے آسمان وزمین قائم ہیں۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عدل و انصاف اسلامی تاریخ میں ایک مستقل باب اور مستقل موضوع ہے، جن کے ہاں امیر و غریب، آقا وغلام عدل کے ترازو میں برابر ہوتے تھے، عدل و انصاف میں دوست و دشمن کی کوئی تمیز نہ ہوتی، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں مدینہ منورہ میں زلزلہ آیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی، زمین کی جنبش بدستور باقی تھی، آپ کے ہاتھ میں درّہ تھا، وہ زمین پر مارا اور زمین سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: اے زمین! اللہ کے حکم سے ساکت ہوجا! ٹھہر جا! کیا عمر ؓنے تجھ پر عدل و انصاف کو قائم نہیں کیا؟! بس یہ کہنا تھا کہ زمین ساکت ہوگئی، اور زلزلہ ختم ہوگیا۔ یہ ہے عدل و انصاف کی برکت۔ آج ہمارے معاشرے میں، انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عدل و انصاف اٹھ چکاہے، نظامِ عدل کو زنگ لگ چکا ہے، نہ حکمران عادل رہے، نہ قاضی عادل رہے، نہ معاشرے کا عام فرد اس عدل و انصاف کے پیمانے پر قائم رہا۔ جس کی وجہ سے ہم تنزلی کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر جس کو جہاں کچھ طاقت حاصل ہوتی ہے، وہ وہاں ظلم اور افراط و تفریط کا شکار ہو جاتاہے۔ اس کے بہت سارے مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں۔ کوئی عہدے کی بناء پر عدل سے ہٹ جاتا ہے، کوئی اپنی چودھراہٹ کی بناء پر عدل سے ہٹ جاتاہے، کوئی وڈیرہ ہے تو اسے یہ زعم عدل و انصاف پر قائم رہنے نہیں دیتا، کسی کے پاس وزارت ہے، کسی کے پاس مال ہے، کسی کے پاس تعلقات ہیں، اور ان چیزوں کی وجہ سے انسان مغرور ہوکر دوسروں کے حقوق کو پامال کر رہاہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ ایک ایسی طاقت موجود ہے، ایک ایسی ذات موجود ہے، جو سب طاقتوں سے بڑھ کر ہے، جس کے سامنے ساری مخلوق کا جاہ و جلال، رعب و دبدبہ ہیچ ہے، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا، اور وہ ذات جب کسی کو اس کے ظلم اور ناانصافی کی وجہ سے پکڑتی ہے تو پھر مہلت نہیں دیتی۔ ہمارا مذہب، ہر ہر فرد کو، چاہے وہ حاکم ہو، پھر حاکمِ اعلیٰ سے لے کر اس شخص تک جو ایک یا دو افراد کا ذمہ دار ہو، ہر ایک کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ اور عدل و انصاف زندگی میں ہر ہر شعبہ میں مقصود ہے، چاہے گواہی کی صورت ہو، تقسیم کی صورت ہو، گفتگو کی صورت ہو، فیصلے کی صورت ہو یا اس کے علاوہ۔
اس لیے رسولؐ اللہ نے ایسے لوگوں کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے، صحیح مسلم کی روایت میں رسولؐ اللہ نے فرمایا: وہ لوگ جو انصاف کرنے والے ہیں، وہ قیامت کے دن اللہ رحمٰن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر ہوں گے، اور حدیث کے آخر میں فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے فیصلوں میں، اپنے متعلقین میں، اور اپنے ماتحتوں، اور ذمہ داریوں کے لحاظ سے عدل و انصاف سے کام لینے والے تھے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف موجود ہے؟ اگر نہیں ہے تو سمجھ جائیں ہماری بربادی کے اسباب میں سے سب سے بڑا سبب نا انصافی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button