Column

ہوشیار! آسان قرضوں کے جال میں مت پھنسیں

رفیع صحرائی
آج کل سوشل میڈیا پر ایسی ایپس متعارف کرائی جا رہی ہیں جن کے ذریعے آپ چند منٹ میں ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ حاصل کر سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کو اس کے لیے نہ تو کوئی ڈاکومنٹیشن کرنا پڑتی ہے نہ ہی ضمانتی دینے پڑتے ہیں۔ آپ خود ہی اپنے ضامن ہوتے ہیں۔ آپ ویب سائٹ پر جا کر ممبرشپ حاصل کیجیے۔ اپنے متعلق آسان سی معلومات مہیا کیجیے۔ رقم جھٹ پٹ آپ کے اکائونٹ میں منتقل کر دی جاتی ہے۔ بقول قرض خواہ کے آپ کو اس رقم پر روزانہ کے حساب سے ’’ معمولی سا منافع‘‘ یعنی سود ادا کرنا پڑے گا۔
آئیے پہلے اس معمولی سے منافع کا جائزہ لیتے ہوئے ان لوگوں کے طریقہ کار کو محترم حاشر ابنِ ارشاد کے شکریے کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان دنوں کثرت سے متعدد آن لائن ایپ کے اشتہارات دکھائی دیتے ہیں۔ جو لوگوں کو ’’ آسان‘‘ قرضے فراہم کرتی ہیں
اگر آپ فائن پرنٹ میں دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ اوسط شرح سود %0.8روزانہ ہے۔ اب اس کا مطلب کیا ہے۔
ایک سادہ لوح آدمی کو یہ شرح سود بہت کم لگے گی لیکن یہ ایک ٹریپ ہے۔ یاد رکھیے کہ مالیات کی دنیا میں شرح سود ہمیشہ سالانہ ہوتی ہے۔ اگر کوئی ماہانہ یا روزانہ کی بنیاد پر شرح سود بتا رہا ہے تو اصل شرح سود دکھائی دینے والی شرح سود سے بہت زیادہ ہو گی۔
زیادہ پیچیدگی میں جائے بغیر، اس وقت عام بینک سالانہ کنزیومر لون پر کوئی %26کے قریب شرح سود رکھے ہوئے ہیں۔ چونکہ کمپائونڈنگ روزانہ کی بنیاد پر ہے اس لیے اصل میں آپ کو سال میں کوئی %29سود دینا پڑتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے ایک لاکھ قرضہ لیا تو سال بعد آپ 129000روپے بینک کو دینے کے پابند ہوں گے۔
اس کے مقابلے میں اس’’ آسان‘‘ قرضہ سکیم پر نظر ڈالیے۔ اگر روزانہ کا سود الگ لگایا جائے تو ایک لاکھ روپے کے بدلے %0.8 کا مطلب ہے روز کے 800روپے اور سال بھر میں صرف سود کی مد میں رقم292000بن جائے گی یعنی اصل زر ایک لاکھ ملا کر ایک سال بعد ادا کی جانے والی رقم 392000ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سود کی حقیقی شرح %292ہے۔
اگر واقعی کسی ’’ خوش قسمت‘‘ کو %0.3پر بھی قرضہ ملے تو بھی افیکٹو شرح سود %109ہو گی یعنی سال بعد 100000کے بدلے 209000کی واپسی کرنا ہو گی۔
اور کہیں %0.8 روزانہ پر سود مرکب لگے تو پھر آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ سود کہاں جائے گا۔ سود مرکب کا فارمولا یہ کہتا ہے کہ یہ شرح %1732 ہو جائے گی۔ اس لیے ہم اسے ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ گرچہ کم مدتی قرضوں پر بعید نہیں کہ یہ شرح لگا کر سود وصول کیا جائے۔ یعنی ایک روپے پر سالانہ 1732 روپے۔ اور ایک لاکھ قرض لے کر آپ کے ذمہ سال کے آخر میں جو رقم واجب الادا ہو گی وہ سترہ کروڑ بتیس لاکھ روپے (173200000) بن جائے گی
سو مختصر موازنہ یہ رہا۔
بینک کی سالانہ شرح سود %26
بینک کی افیکٹو شرح سود %29
ایپ کی روزانہ شرح سود %0.8
ایپ کی افیکٹو شرح سود سالانہ %292
ان ایپس کی ترغیبات سے بظاہر تو لگتا ہے کہ ہم انہیں لوٹ رہے ہیں لیکن ان کا شکار ہونے والے بتاتے ہیں کہ جو ایک بار ان کے چنگل میں پھنس جائیں وہ زندگی بھر اس سے نکل نہیں پاتے گویا یہ جدید دور کے بنیئے ہیں جو اپنے شکار کو ڈھیل تو دیتے رہتے ہیں مگر رسی کو اتنا دراز کبھی نہیں کرتے کہ شکار ان کی دسترس سے دور نکل جائے۔ ان کی ڈھیل شکار کی آسانی کے لیے نہیں بلکہ جال کی مزید مضبوطی کے لیے ہوتی ہے جس میں انہوں نے شکار کو جکڑا ہوتا ہے۔ لوگوں نے اپنی کل جائیدادیں بیچ کر تمام جمع پونجی ان لوگوں کے حوالے کر دی مگر پھر بھی ان کے قرض کی پوری ادائیگی نہ کر سکے۔ کچھ تو تنگ آ کر خودکشی جیسا انتہائی قدم بھی اٹھا بیٹھے۔
اسی لیے تو سُود کو حرام ہی قرار نہیں دیا گیا بلکہ اللّٰہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ جنگ کہا گیا ہے۔
یاد رکھیے! قناعت پسندی زندگی گزارنے کا سنہرا اصول ہے۔ جتنی چادر ہو اتنے ہی پائوں پھیلائیں۔ اپنی آمدنی میں گزارا کرنا سیکھیں۔ خواہشات اور تعیشات کو ضروریات مت بنائیں۔ کوشش کریں کہ اپنی آمدنی کا پندرہ سے بیس فیصد ہر ماہ بچا کر رکھتے جائیں تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ اپنے اندر قربانی دینے کا جذبہ پیدا کریں۔ ترجیحات کی فہرست بنایا کریں۔ فوری ضروریات کو فوقیت دیں۔ دیگر ضروریات فوری طور پر پوری نہ ہوں تو صبر سے کام لیں۔ حتی الوسع کوشش کریں کہ کسی سے قرض مانگنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ تاہم قرض لینا ناگزیر ہو جائے تو کسی رشتہ دار یا جاننے والے سے قرض لینے کی کوشش کریں اور مقررہ مدت میں ادائیگی کا بندوبست کریں۔ کچھ بھی ہو جائے، سود خور ایپس کے قریب بھی مت جائیں۔ ورنہ یہ لوگ ایسی امبربیل ثابت ہوں گے جو آپ کی رگوں سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ لیں گے۔
ہوشیار رہیے۔ ان ’’ آسان‘‘ قرضوں کے جال میں مت پھنسیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button