ColumnImtiaz Aasi

اقوام متحدہ کو ہماری مشکلات کا احساس نہیں؟

امتیاز عاصی
مملکت خداداد کو اس وقت کئی ایک چیلنجز کا سامنا ہے۔ دہشت گردی کے آئے روز واقعات اور عشروں سے قانونی اور غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کے قیام نے معاشی اور داخلی مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ فیصلہ سازوں کے غلط فیصلوں نے افغان مہاجرین کو آزادانہ نقل حرکت کی آزادی دے کر مملکت کے لئے نہ ختم ہونے والے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ ہمسایہ ملک ایران میں ہم سے زیادہ افغان مہاجر کیمپوں میں قیام پذیر ہیں جنہیں کسی صورت کیمپوں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستانیوں کو شناخت دینے کے لئے رجسٹریشن کا ادارہ قائم کیا تاکہ مملکت کے شہریوں اور غیر ملکیوں میں تمیز کی جا سکے۔ اس ادارے کے قیام سے پانچ سال بعد روس نے افغانستان پر جارحیت کی تو خدائی خدمت گاروں نے بلاسوچے سمجھے افغان مہاجرین کو یہاں آنے کی اجازت دے دی۔ شناختی کارڈ بنانے کے ادارے کے بعض بے ضمیروں نے روپے پیسے کے لالچ میں کئی لاکھ افغانوں کو شناختی کارڈ بنا دیئے جس کے بعد مہاجرین نے کاروبار اور جائیدادیں خریدنا شروع کر دی۔ افغان مہاجرین کو کیمپوں تک محدود رکھا جاتا وہ نہ جائیدادیں خرید سکتے نہ ہی آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب اقوام متحدہ اور دیگر ملکوں سے ڈالر کی ریل پہل تھی۔ آخر دنیا کے ملک کب تک مہاجرین کے لئے ڈالر بھیجتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مہاجرین ہمیں اچھے نہیں لگنے لگے۔ ملک کے دہشت گردی کے بڑھتے واقعات میں افغان باشندوں کے ملوث ہونے نے حکومت کو انہیں واپس بھیجنے پر مجبور کر دیا۔ نگران حکومت نے افغان مہاجرین کو وطن واپسی کے لئے مناسب وقت فراہم کیا کہ وہ اپنے ملک باعزت طریقے سے جا سکیں۔ سوال ہے پاکستان سے افغانستان کی مسافت ہی کیا ہے دونوں ملک آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا تھا عشروں یہاں قیام کے باوجود انہیں ایک سال وطن واپسی کی مہلت دی جاتی۔ چاروں صوبوں میں سب سے زیادہ افغانوں کی وطن واپسی بلوچستان سے ہوئی ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومت تمام صوبوں سے اس معاملے میں سبقت لے گئی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ آر پر حیرت ہے کہ افغانستان کے لوگوں کی وطن واپسی انسانی بحران میں اضافہ کر رہی ہے۔ کوئی یو این ایچ آر سے پوچھے چوالیس سال سے ایک غریب ملک میں قیام پذیر مہاجرین سے کیا یہاں مسائل پیدا نہیں ہوئے ہیں؟ انسانی حقوق کے علمبردار ان اداروں سے کوئی پوچھے کوئی ملک دوسرے ملک کے شہری کو بغیر کسی دستاویز قیام کی اجازت دیتا ہے؟ یو این ایچ آر کی رپورٹ کے مطابق اب تک تین لاکھ چوہتر ہزار افغان پناہ گزیں وطن واپس جا سکے ہیں۔ چالیس لاکھ سے زیادہ افغانوں سے پونے چار لاکھ مہاجرین کی واپس بڑی بات نہیں۔ تعجب ہے افغان پناہ گزینوں کو ایک ماہ کا وقت دینے کے باوجود اس میں جلد بازی کا کون سا پہلو نکلتا ہے جس پر اقوام متحدہ کو تشویش ہے۔ یو این ایچ آر کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر میں کہا گیا ہے کے پی کے اور بلوچستان میں رہنے والے افغان پناہ گزیں گرفتاری کے خوف سے جلد بازی میں وطن واپس جا رہی ہیں۔ بلوچستان کے وزیر جان اچکزئی کے مطابق دو لاکھ جعلی شناختی کارڈوں کا اب تک انکشاف ہو چکا ہے۔ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے دورے مرحلے میں بلوچستان سے دس لاکھ افغانوںکو واپس بھیجنے کا ہدف مقر ر کیا گیا ہے۔ اللہ کے بندوں کون سی جیلیں افغان پناہ گزینوں سے بھری ہیں۔ چند افغانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیجا بھی گیا تو انہیں وطن واپس بھیج دیا گیا۔ یو این ایچ آر نے کئی عشروں بعد افغانوں کو پاکستان میں قیام کی اجازت دینے کے لئے نئے میکنزم کی پیش کش کی ہے۔ اخلاقی اور اصولی طور پر طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد وہاں کی حکومت کو پاکستان سے درخواست کرکے اپنے باشندوں کی واپسی کے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے خفیہ اداروں نے دہشت گردی میں ملوث کئی ایک افغانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ حیرت اس پر ہے پاکستان نے رجسٹرڈ اور قانونی طور پر یہاں رہنے والے افغان شہریوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے بلکہ غیرقانونی طور پر قیام کرنے تارکین وطن کو ملک چھوڑنے کی مہلت دی خواہ ان کا تعلق کسی بھی ملک سے تھا۔ حال ہی میں کے پی کے حکومت کی داخلہ کمیٹی نے کئی ہزار جعلی شناخت کارڈ کے حامل افراد کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے لئے نادرا سے درخواست کی ہے۔ داخلہ کمیٹی نے ہزاروں ایسے افراد کا سراغ بھی لگایا ہے جنہوں نے اقوام متحدہ کے جعلی پی آر او کارڈ بنا رکھے ہیں ۔ ان حالات میں حکومت پاکستان کو غیر قانونی افغان باشندوں کی وطن واپسی کا کام مزید تیز کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں جہاں کئی افغان باشندے قیام پذیر ہیں ان کے پی آر او کارڈ اور دیگر دستاویزات کی فوری طور پر چھان بین کا کام ہنگامی بنیادوں پر شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جعلی کارڈ کے حامل افغانوں اور ان کی اعانت کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکی۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سربراہان کو چاہیے وہ سرحد پر افغان باشندوں کے آمد و رفت پر کڑی نظر رکھنے کے لئے باقاعدہ نظام ہونا چاہیے ۔ سرحد پر باڑ لگانے کے باوجود غیرقانونی افغانوں کی آمد اداروں پر سوالیہ نشان ہے۔ ہم تو کہیں گے مملکت کو دہشت گردی سے پاک کرنا مقصود ہے تو افغانوں کو وطن واپس بھیجنے میں ہماری فلاح ہے ۔ اسلامی بھائی چارے کے تحت افغانوں کی پاکستان اور یہاں کے عوام نے بہت خدمت کرلی اس کے باوجود افغانستان کے لوگوں سے خیر کی توقع رکھنا ہماری خام خیالی ہے۔ پاکستان کے علاوہ دنیا میں اور بھی 56ملک ہیں انہیں بھی اسلامی بھائی چارے کے تحت افغانستان کے لوگوں کو اپنے ہاں رکھنا چاہیے۔ افغانستان میں امن قائم ہو چکا ہے ۔ کوئی ملک کسی ملک کے شہری کو صرف انہی حالات میں پناہ دے سکتا ہے جب اسے اپنے ملک میں جان کا خطرہ ہو لہذا پاکستان اور عوام کی بقاء افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں مضمر ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button