Editorial

امارات اسلامیہ کا پاکستان مخالف کردار، کتنا سچ کتنا فسانہ؟

پاکستان نے پڑوسی ہونے کے ناتے افغانستان کی ہر ہر قدم پر بھرپور مدد کی ہے۔ امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا میں پاکستان کا کلیدی کردار تھا۔ پاکستان نے دامے، درمے، سخنے ہر میدان میں افغانستان کو بھرپور سہارا دیا ہے۔ اُس کو سہارا دینے کے لیے خود کو سنگین خطرات سے دوچار کیا۔ افغانستان میں خوراک کی فراہمی کے لیے بڑھ چڑھ کر مدد و معاونت فراہم کی۔ افغانستان کو خوراک کی فراہمی میں آج بھی پاکستان کا بڑا ہاتھ ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد اُس کا ہر قدم پر مددگار رہا۔ قبل ازیں 43برس سے افغان مہاجرین کی میزبانی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ ان کی تین نسلیں پروان چڑھ چکی ہیں۔ اُنہوں نے یہاں ناصرف رہائش اختیار کی بلکہ روزگار کمایا، تعلیم حاصل کی، لاکھوں غیر قانونی مقیم افغان باشندوں کی میزبانی کے باعث ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ وسائل پہلے ہی کم یاب ہیں، اُن کا بڑا حصّہ ان مہمانوں کی نذر ہوجاتا ہے۔ ملک میں منشیات اور اسلحہ کلچر کو بڑھاوا دینے میں افغان باشندوں کا ہاتھ رہا ہے۔ اسمگلنگ اور دیگر جرائم پیشہ سرگرمیوں میں یہ بڑی تعداد میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض میں ڈکیتی، چوری، لوٹ مار اور دیگر جرائم میں زیادہ تر غیر قانونی مقیم افغانیوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ملک میں پچھلے سال بھر سے دہشت گردی کا عفریت پھر سے سر اُٹھا رہا ہے اور اس میں غیر قانونی مقیم باشندوں کے ملوث ہونے کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ اس کے لیے افغان سرحد کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستان مخالف کارروائیوں میں مسلسل مصروفِ عمل ہے۔ سیکیورٹی فورسز کو تسلسل کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہمارے کئی جوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ بارہا افغانستان سے اپنی سرحدیں پاکستان کے خلاف استعمال نہ کرنے دینے کے مطالبات کیے جاچکے ہیں۔ طالبان کی افغان حکومت کی جانب سے اس کی یقین دہانیاں کرائی گئیں، لیکن ہوتا اس کے بالکل برعکس ہے۔ سرحد پار سے حملوں کا سلسلہ رُکا نہیں۔ دہشت گردی کے واقعات پے درپے رونما ہورہے ہیں اور امن و امان کی صورت حال تہہ و بالا کی جارہی ہے۔ گو سیکیورٹی فورسز ان کے تدارک کے لیے مصروف عمل ہیں اور جلد اس حوالے سے قوم کو خوش خبری سننے کو ملے گی۔ معاشرے میں تیزی سے پیدا ہونے والی خرابیوں، معیشت کی مشکلات، وسائل کی کمی اور دیگر وجوہ کی بناء پر گزشتہ ماہ نگراں حکومت نے تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کو پاکستان بدر کرنے کا بڑا فیصلہ کیا اور تمام غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کی انتہائی عزت و احترام کے ساتھ اُن کے وطنوں کو واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ بہرحال پاکستان نے افغانستان کی مدد و معاونت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت اُٹھا نہیں رکھا اور اُس کی مخلصانہ کوششوں کو ناصرف اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے بلکہ مطالبات کو بھی کسی خاطر میں نہیں لایا جاتا۔ اب امریکی ساختہ ہتھیار ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کا بڑا انکشاف سامنے آیا ہے۔ امریکہ کی ہائوس کمیٹی برائے خارجہ امور میں انکشاف ہوا ہے کہ امارت اسلامیہ (افغان طالبان) کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو پاکستان کے خلاف مسلح کرنے میں مدد فراہم کررہی ہے، امریکی انخلا کے بعد یہ ہتھیار امارت اسلامیہ کی نگرانی میں آگئے اور بعد ازاں پاکستان مخالف گروہوں کے ہاتھوں تک پہنچ گئے، امریکی ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو عسکری طور پر مضبوط کیا۔ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کیخلاف امریکی ساختہ اسلحے کے استعمال سے متعلق امریکا کی ہائوس کمیٹی برائے خارجہ امور میں بڑے انکشافات سامنے آگئے۔ امریکی ہائوس کمیٹی برائے خارجہ امور کے چیئرمین مائیکل میکول نے کہا کہ امارت اسلامیہ ٹی ٹی پی کو پاکستان کے خلاف مسلح کرنے میں مدد فراہم کررہی ہے۔ مائیکل میکول کے بیان کے ردعمل میں امارت اسلامیہ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے امریکی بیان کی تردید کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ دوسری طرف پینٹاگون کی رپورٹ نے بھی کالعدم ٹی ٹی پی کا پاکستان کے خلاف امریکی ہتھیار استعمال کرنے کا راز فاش کیا تھا۔ پینٹاگون نے کہا کہ 30اگست 2021میں امریکی انخلا کے بعد 7.12ارب ڈالر کا دفاعی سامان افغانستان میں رہ گیا تھا، امریکہ نے افغان فوج کو کل 427300جنگی ہتھیار فراہم کیے، جس میں سے 300000انخلا کے وقت باقی رہ گئے۔ رپورٹ کے مطابق امریکی انخلا کے بعد یہ ہتھیار امارت اسلامیہ کی نگرانی میں آگئے اور بعدازاں پاکستان مخالف گروہوں کے ہاتھوں تک پہنچ گئے، امریکی ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی اور بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کو عسکری طور پر مضبوط کیا۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ اس بنا پر خطے میں گزشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا، امریکہ نے 2005سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو 18.6ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ رپورٹ میں مزید کہا کہ امارت اسلامیہ کی کھلی چھوٹ کی وجہ سے ٹی ٹی پی کو جدید اسلحہ میسر آیا، جس میں M24اسنائپر رائفل، M4کاربائنز اور M16 A4جیسے جدید اسلحے شامل ہیں۔ امارت اسلامیہ کے سابق کمانڈروں نے رضامندی سے ان ہتھیاروں کی کافی مقدار ٹی ٹی پی کے حوالے کی ہے، ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار کارروائی کرنے میں مدد دی ہے، خطے میں گزشتہ دو سال کے دوران دہشت گردی میں وسیع پیمانے پر اضافہ دیکھا گیا۔ اگست 2022میں ٹی ٹی پی کی جانب سے نشر ایک ویڈیو میں یہ ہتھیار دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے ٹی ٹی پی نے پشاور، لکی مروت، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دہشت گرد کارروائیاں کیں اور پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جب کہ 2022میں خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 118پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔ رواں سال کے 2023کے پہلے چار ماہ میں پولیس کے 120اہلکار ٹی ٹی پی کا نشانہ بنے، بلوچ لبریشن آرمی نے بھی انہی ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے فروری 2022میں نوشکی اور پنجگور اضلاع میں ایف سی کیمپوں پر حملے کیے۔ 12جولائی 2023کو ژوب گیریژن پر ہونے والے حملے میں بھی ٹی ٹی پی کی جانب سے امریکی اسلحے کا استعمال کیا گیا، اس واقعے سے قبل 16مئی 2023کو ٹی ٹی پی نے چند تصاویر شیئر کی، جن میں ٹی ٹی پی دہشت گردوں کو ٹریننگ کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ امارت اسلامیہ ناصرف ٹی ٹی پی کو مسلح کررہی، بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کیلئے محفوظ راستہ بھی فراہم کررہی ہے۔ اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا بھلا کون کرتا ہے، جس ملک نے ہر مشکل وقت میں ساتھ نبھایا، اپنی استطاعت سے بڑھ کر کاوشیں کیں، اُس کے ساتھ ایسی محسن کشی کسی طور مناسب قرار نہیں پاتی۔ گو افغانستان کی طالبان حکومت اس کی تردید کرتی نظر آرہی ہے اور ان الزامات کو بے بنیاد قرار دے رہی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ثابت کرکے دِکھائے۔ واضح رہے کہ مہذب قومیں کبھی بھی اپنے محسنوں کے ساتھ ایسا سلوک ہرگز نہیں کرتیں۔ وہ محسنوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں، محسن کشی پر آمادہ اور کمربستہ نہیں ہوتیں۔
پنجاب میں ماسک پہننا لازم قرار
ماحولیاتی آلودگی کی تباہ کاریوں سے وطن عزیز بے پناہ متاثر ہے۔ انتہائی وسیع پیمانے پر موسمیاتی تغیر رونما ہورہے ہیں۔ آفات کا زور بڑھ رہا ہے۔ سیلاب اور زلزلے معمول بن گئے ہیں۔ اس کی وجہ ماحولیاتی آلودگی کے عفریت کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ کیا جانا ہے۔ اس باعث وقت گزرنے کے ساتھ حالات سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ موسم سرما میں اسموگ کا چیلنج درپیش ہوتا ہے۔ امسال بھی ملک کے اکثر حصّوں میں اسموگ کا مسئلہ بڑی شدّت سے سر اُٹھا چکا ہے۔ ملک کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ، سب سے زیادہ متاثر دِکھائی دیتا ہے، وہاں اسموگ کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ پنجاب میں اس حوالے سے پچھلے دنوں اسکول اور دیگر اداروں کی تعطیلات بھی دی گئیں۔ اسموگ سے عوام کو بچانے کے لیے نگراں صوبائی حکومت نے کچھ اہم اقدامات بھی کیے۔ اب بھی اسموگ کے حوالے سے صورت حال کوئی تسلی بخش نہیں ہے۔ حالات روز بروز سنگین شکل ہوتے چلے جارہے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اسموگ سے عوام کو بچانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اسی تناظر میں پنجاب کے 10اضلاع میں ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا لازم قرار دے دیا گیا ہے۔ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کہا ہے کہ صحت کو ترجیح دینا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ پنجاب میں ایک ہفتے کے لیے ماسک پہننا لازم قرار دے دیا جب کہ ملتان میں 8سال سے تعطل کا شکار انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا توسیعی منصوبہ 5ماہ میں مکمل ہوگیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم کے بعد پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر نے پنجاب کے 10اضلاع میں ایک ہفتے کے لیے ماسک پہنا لازم قرار دے دیا ہے۔ وزیر پرائمری و سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈاکٹر جمال ناصر نے بتایا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے۔ فضا میں بڑھتی ہوئی آلودگی کے باعث حکومت پنجاب نے اسموگ سے متاثرہ اضلاع میں تمام لوگوں کے لیے ماسک پہننا لازم قرار دے دیا ہے۔ ماسک کی پابندی کا اطلاق لاہور، شیخوپورہ، قصور، ننکانہ صاحب، گوجرانوالا، حافظ آباد، سیالکوٹ، ناروال، گجرات اور منڈی بہائو الدین میں ہوگا۔ ماسک پہننا لازم قرار دینا احسن اقدام قرار پاتا ہے۔ عوام کو ماسک کی پابندی پر سختی سے عمل درآمد کرنا چاہیے۔ اسموگ کے موسم میں شہریوں کو تمام تر احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔ غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نکلنے سے گریز کیا جائے۔ اگر باہر جانا ضروری ہو تو ماسک کا استعمال کریں۔ کم رفتار میں ڈرائیونگ کریں کہ اسموگ کے باعث حادثات کی شرح خاصی بڑھ جاتی ہے۔ احتیاط کے ذریعے اسموگ سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ دوسری جانب اس میں شبہ نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اسموگ کا مسئلہ ہر سال شدّت اختیار کررہا ہے۔ دُنیا بھر میں فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے اقدامات جاری ہیں جب کہ یہاں بیانات در بیانات کے سلسلے ہیں، عملی اقدامات کا فقدان ہے۔ یہ امر کسی طور مناسب قرار نہیں پاتا۔ ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت کے ساتھ تمام شہری اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔ زیادہ سے زیادہ پودے لگائے جائیں۔ اس کے لیے حکومت باقاعدہ شجر کاری مہمات کا سلسلہ شروع کرے۔ تمام شہری اس میں بھرپور حصّہ لیں اور اپنے حصّے کا پودا لگائیں اور اس کی آبیاری کی ذمے داری نبھائیں۔ گھروں کی طرح گلی محلوں اور عوامی مقامات پر گند پھیلانے سے گریز کریں۔ کچرا ڈسٹ بن میں ڈالیں۔ آبادی کے تناسب سے جنگلات کا رقبہ بڑھایا جائے۔ انسان دوست ماحول کو پروان چڑھانے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کرسکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button