ColumnImtiaz Ahmad Shad

ویلکم نواز شریف!

امتیاز احمد شاد
ہلکی بارش اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ماحول کو معطر کر چکے۔ گلوں پر نکھار، چڑیوں کا چہچہانا، لہلہاتے کھیت اور دریائوں کی موجیں سب کے سب ونجلی کی تان پر کانوں میں رس گھولتے ہوئے 24کروڑ عوام کو ذہنی و قلبی سکون فراہم کر رہے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ دریائوں کے پانی میں مٹھاس دن بدن بڑھتی جارہی ہے اور عوام سجدہ شکر بجا لانے میں ایک دوسرے سے سبقت لیجاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دکھ بھرے دن ہوا ہوئے، غموں کے بادل چھٹ چکے۔ معیشت، تجارت، زراعت اور روزگار سب درستی کی جانب رواں دواں ہیں۔ بس کچھ پل کا اور انتظار، قوم کو اب مہینوں نہیں چند دنوں میں وہ سب ملنے والا ہے جس کا یہ ناشکری قوم دہائیوں سے شکوہ کرتے دکھائی دیتی ہے۔ یہ سچ ہے، اب فیصلہ نہیں بدلے گا۔ فیصلہ حتمی ہے کہ نوازشریف 21اکتوبر کو پاکستان آ رہے ہیں۔ پاکستان میں نگران حکومتیں قائم ہو چکیں، بڑی عدالت اہم فیصلہ کر چکی، میاں صاحب کے بد ترین مخالف انہی جیلوں میں بند ہو چکے جہاں سے میاں صاحب چھٹی لے کر دوائی لینے گئے تھے۔ یقینا لیول پلینگ فیلڈ کا دیرینہ مطالبہ پورا ہو چکا۔ میدان صاف،گلیاں سنجھیاں ، اور پھولوں سے دھرتی سج چکی۔ جہاں تک نظر جاتی ہے میاں صاحب کی تصویر والے پرچم ہلکی ہوا میں لہراتے ہوئے دلکش منظر پیش کر رہے ہیں۔ گلیوں، چوکوں اور چوراہوں پر بڑے بڑے بورڈ آویزاں ہو چکے۔ ایسے لگ رہا ہے جیسے اگلے چند لمحوں میں آسمان سے من و سلوا اترے گا اور پھر یہ تسلسل جاری رہے گا۔ مریم نواز نے بہت اہم بات کی ہے کہ عوام مہنگائی کی لپیٹ میں ہے اور گزشتہ حکمرانوں نے عوام کا کچومر نکال دیا، نواز شریف کے علاوہ سب نالائق ثابت ہوئے ۔ مریم نواز کے اس بیان نے واضح کر دیا ہے کہ ان کے چچا محترم شہباز شریف کا شمار بھی ان نالائقوں میں ہوتا ہے جنہوں نے عوام پر مہنگائی مسلط کی، کیونکہ ابھی جو تازہ تازہ مسند سے اترے ہیں وہ سابق وزیر اعظم شہباز شریف ہی ہیں۔ بہرحال ان باتوں کا ذکر کر کے بطور قوم ہمیں اپنی خوشیاں برباد نہیں کرنی چاہئے۔ خدا کا لاکھ شکر ہے کہ میاں صاحب نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ قوم کی دعائیں رنگ لے آئیں۔ یاد ماضی عذاب ہے یا رب کے مصداق ہمیں مستقبل کا سوچنا ہو گا۔ پاکستان اور 24کروڑ عوام کے مستقبل کا آغاز 21اکتوبر کو اسی مینار پاکستان کے سائے تلے ہوگا جہاں 23مارچ1940 کو برصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کیا گیا تھا۔21اکتوبر کی صبح دس بجے جب میاں صاحب کا طیارہ اسلام آباد کی سر زمین کو چھوئے گا تو منظر دیدنی ہو گا۔ اسلام آباد کے ہوائی اڈّے سے باہر عوام کا جم غفیر ہو گا وکلا کالے کوٹ پہنے ملک کی بڑی عدالت سے ضمانت نامہ لئے عوامی سمندر کو چیرتے ہوئے اسلام آباد ہوائی اڈے میں داخل ہو ں گے۔ طیارے کا دروازہ کھلے گا وکیل اندر جائیں گے، ضمانت نامہ میاں صاحب کو پیش کیا جائے گا اور پھر میاں صاحب جہاز کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس بازو کو ہوا میں لہرائیں گے جس ہاتھ میں میاں صاحب نے اپنی آزادی کا پروانہ تھام رکھا ہو گا۔ دروازہ بند ہو گا اور طیارہ لاہور کی جانب اڑان پکڑے گا۔ لاہور کی حدود میں داخل ہوتے ہی میاں صاحب نیچے زمین کی جانب نگاہیں کریں گے تو ان کی خوشی دیدنی ہو گی۔ ہلکی بارش سے سُرخ اینٹوں، سفید کھڑکیوں والے دُھلے دھلائے گھروں کے اَنگ انگ سے لاہور پھوٹ رہا ہو گا۔ جوں جوں طیارہ زمین کی جانب بڑھے گا میاں صاحب کا حوصلہ بڑھتا چلا جائے گا۔ طیارہ لاہور ہوائی اڈے پر لینڈ کرے گا۔ میاں صاحب کے پاس طیارے میں موجود خدمتگاروں میں سے سب سے اعلیٰ خدمتگار تشریف لائے گا اور بیرونی منظر کا جائزہ لینے کے لئے خود باہر جا نے کی اجازت طلب کرے گا۔ اجازت ملتے ہی وہ باہر نکلے گا۔ جس طرف اس کی نظر جائے گی عوامی سر ہی سر ہوں گے۔ اسے بتایا جائے گا کہ ہوائی اڈے سے مینار پاکستان تک کا سفر اگر میاں صاحب بذریعہ سڑک کریں گے تو یقینا جلسہ گاہ تک پہنچنے میں کئی دن لگ سکتے ہیں۔ لہذا فیصلہ ہو گا کہ بذریعہ ہیلی کاپٹر جلسہ گاہ پہنچا جائے۔ دوسری جانب مینار پاکستان میں لاکھوں کا مجمع ہو گا، لوگ گھروں کی چھتوں پر موجود ہوں گے۔ رنگ برنگے غبارے فضائوں میں رقص کر رہے ہوں گے۔ شہر لاہور کے داخلی و خارجی راستے قافلوں کی آمد سے لبریز ہوں گے جب کہ ہر گھر میں عید کا منظر ہو گا۔ میاں صاحب مینار پاکستان کے گرد ہیلی کاپٹر پر تین چکر لگائیں گے۔ ہیلی کاپٹر زمین پر اترے گا۔ سٹیج تک میاں صاحب کے جانشین رہنمائوں کی لمبی قطار ہو گی۔ ہاتھ ملانے کا تو شاید موقع نہ مل سکے مگر آنکھوں آنکھوں میں سب پیغام ملیں گے۔ ہر طرف میاں دے نعرے وج رہے ہوں گے۔ میاں صاحب جب اپنی قوم سے مخاطب ہوں گے تو ہر طرف سناٹا چھا جائے گا۔ بس میاں صاحب کا پر جوش خطاب ہو گا اور عوام کی آنکھوں میں آنسو۔ اس کے بعد میاں صاحب جاتی عمرہ تشریف لے جائیں گے جہاں ان کی پسند کے کھانے تیار ہوں گے۔ انہیں پاکستان کی مشکلات کا چونکہ ادراک ہے تاہم رات کو ہی ہنگامی ملاقاتوں کا اہتمام ہو گا۔ الیکشن کمیشن بلے کا نشان ختم کرے گا اور پھر ایک دفعہ ہر جانب شیر ہی شیر ہو گا۔ اس طرح میاں صاحب بھاری اکثریت سے چوتھی بار وزیر اعظم پاکستان منتخب ہوں گے اور حلف اٹھاتے ہیں وہ پہلا اعلان یہ فرمائیں گے کہ آج کے بعد ملک میں مہنگائی کا خاتمہ کیا جاتا ہے۔ تمام اشیاء کی قیمتوں کو 1999کے دور پر واپس لایا جائے۔ ان کا پہلا حکم نامہ ہر سو آویزاں ہو گا کہ آج سے تمام اشیاء کی نئی قیمتیں ختم اور وہی پرانی قیمتیں بحال ہو چکیں۔ عوام کو شاید معلوم نہیں کہ میاں صاحب اپنی مرضی سے کبھی ملک چھوڑ کر نہیں گئے، ہمیشہ کوئی نہ کوئی ایسی مجبوری آڑے آتی رہی جس نے میاں صاحب کو اپنے وطن سے دور رکھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ نوازشریف کی جلاوطنیوں کا دورانیہ، اُن کے اقتدار کے عہد سے کہیں زیادہ ہے۔ شاید عوام کو یہ معلوم ہی نہیں کہ وہ کل ملا کر کوئی سوا نو برس وزیراعظم رہے لیکن قیدوبند کی علاوہ کوئی گیارہ سال جلا وطن رہنا پڑا۔ پہلی بار وہ 10دسمبر2000سے 25نومبر2007تک، تقریباً سات برس جبری طورپر ملک بدر رکھے گئے۔ اگست 2007میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ کسی پاکستانی شہری کو اپنے وطن آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ اِس فرمان کا پروانہ تھامے میاں صاحب وطن آئے۔ افسوس اُنہیں لائونج سے باہر نہ نکلنے دیا گیا۔ کمانڈوز دھکے دیتے ہوئے ایک اور طیارے تک لے گئے جو اُنہیں ایک بار پھر جدہ کے کنگ عبدالعزیز ہوائی اڈے کے شاہی ٹرمینل ( جدہ) پر لے گیا۔ اکتوبر2007میں محترمہ بے نظیر بھٹو جلاوطنی ترک کرکے پاکستان آگئیں تو مشرف کی تمام تر کوششوں کے باوجود، سعودی عرب نے میاں صاحب کو پاکستان جانے کی اجازت دے دی اور وہ 25نومبر2007کو لاہور پہنچ گئے۔ شدید بیماری کی حالت میں حکومت اور عدلیہ نے انہیں 19نومبر2019کو لندن جانے کی اجازت دے دی۔ صحت کے گونا گوں مسائل اور پاکستان کے نواز دشمن، انصاف کُش ماحول نے اس جلاوطنی کو چار سال تک پھیلا دیا۔ مگر اب تمام مخالف قید ہو چکے، مخالف جج رخصت ہو چکے۔ گلیاں سنجھیاں اور مرزا یار میدان میں۔ قوم کو اب فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس شیر اک واری فیر کا ورد جاری رکھیں تاکہ ترقی کا سفر نہ رک سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button