Columnمحمد مبشر انوار

صف بندی

محمد مبشر انوار ( ریاض)
مشرق وسطیٰ میں جاری بحران نہ صرف گہرا ہو رہا ہے بلکہ اس کے طویل ہونے کے امکانات بھی واضح ہو رہے ہیں۔ امریکی و مغربی ممالک کی اسرائیلی ریاست کی تقریبا غیر مشروط حمایت نے اسرائیل کو اس قدر منہ زور کر رکھا ہے کہ وہ کسی منصفانہ حل کی طرف توجہ دینے پر تیار ہی نہیں جبکہ اس غیر مشروط حمایت کا نتیجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں قیمتی انسانی جانیں رزق خاک بنتی چلی جا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں امریکی حکام نے اسرائیل کی حمایت و دفاع کا دوٹوک اعلان کر دیا ہے اور کسی بھی قیمت پر اسرائیل کو تنہا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں کہ اس کے پس پردہ امریکہ کے مشرق وسطیٰ میں ریاستی مفادات بھی پنہاں ہیں تو دوسری طرف امریکہ خطے میں مسلسل بدامنی اور اپنی اہمیت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ لہذا جب تک مشرق وسطیٰ میں فلسطین و اسرائیل تنازع موجود ہے، امریکی موجودگی و مداخلت اس خطے میں رہے گی جبکہ امریکی عزائم مسلمانوں کے حوالے سے ہمیشہ آشکار رہے ہیں کہ امریکہ نے کبھی بھی انصاف پسندی سے کام نہیں لیا بلکہ مسلمانوں کی حق تلفی ہی کی ہے۔ موجودہ صورتحال میں بھی امریکی حکام کی جانب سے یہ دعوی کیا گیا ہے کہ جاری جنگ میں پچیس امریکی شہری اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس کے علاوہ کوئی چھ سو کے قریب امریکی شہری غزہ کی پٹی میں موجود ہیں، جن کی جان کو خطرہ ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی مجاہدوں کے حملوں سے اسرائیل کو اپنے دفاع میں مہنگے ترین میزائل داغنا پڑے ہیں، جس سے اسرائیل کو نہ صرف اسلحہ کی مد میں بلکہ مالی طور پر بھی اچھا خاصہ نقصان ہو چکا ہے، جو بالعموم جنگوں میں ہوتا رہتا ہے البتہ یہ ممکن ہے کہ نقصان کو دانستہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو تا کہ امریکی امداد کے ساتھ ساتھ اسلحہ کی کثیر مقدار کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ اسرائیلی واویلے پر امریکہ نے فوری طور پر اسرائیل کو اسلحہ کے ساتھ ساتھ مالی امداد کا اعلان تو کیا ہی ہے اس کے ساتھ اس کے دفاع میں ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان بظاہر اخلاقی طور پر نظر آ رہا ہے کہ امریکی فوج کے میدان میں شواہد نظر نہیں آرہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیا واقعی امریکہ میدان جنگ میں اترنے کے لئے تیار ہے اور کیا واقعی اسے اس میدان جنگ میں اترنا چاہئے؟ شام میں بنی درگت کے بعد، کیا امریکہ فلسطین میں اسرائیل ی فوج کے شانہ بشانہ کھڑا ہو سکے گا؟ یہاں یہ حقیقت واضح ہے کہ اسرائیلی فوج کی دلیری و بہادری بس اتنی ہی ہے کہ وہ نہتے عوام پر گولیاں برسا سکتی ہے، بچوں کو انیوں پر چڑھا سکتی ہے یا پھر بوڑھوں کو اپنی بندوقوں کے زور پر ہانک سکتی ہے لیکن جیسے ہی اس کا سامنا بغیر کسی بیرونی مدد ( دوست ممالک کی فوج کے بغیر) مجاہدین سے ہوتا ہے، ان کی دوڑیں دیکھنے والی ہوتی ہیں۔ امریکہ یوں تو ہر صورت اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہونے کا دعویدار ہے لیکن موجودہ صورتحال میں کیا اپنے دیگر حمایتیوں کی فوج کے ساتھ اس خطے میں میدان جنگ میں اتار سکتا ہے؟ ماضی کی شدید ترین سبکیوں نے ، امریکی بات میں وہ اثر نہیں رہنے دیا کہ دیگر حمایتی اس کی ہر بات بے چوں و چرا تسلیم کر کے، اندھا دھند میدان جنگ میں کود پڑیں، لہذا امریکہ کو اس خطہ میں بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔
اس کے برعکس مسلم دنیا میں دیکھیں تو فلسطینی مجاہدوں کے ساتھ دنیا بھر کے مجاہدین ساتھ دینے کے لئے بیتاب نظر آتے ہیں اور ان کی یہ شدید خواہش دکھائی دیتی ہے کہ اس معرکہ میں یہودیوں کی حد بندی کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور انہیں فلسطینیوں کے قتل عام سے مستقلا روکا جا سکے۔ مسلم ممالک کے رہنماؤں کی اس سلسلے میں آپس میں گفت و شنید انتہائی خوش آئند ہے اور تقریبا تمام مسلم رہنما اس اہم ترین مسئلے پر یک زبان اسرائیل کو حد میں رہنے پر زور دے رہے ہیں۔ مسلم رہنمائوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے مابین ہونے والی گفتگو کو انتہائی اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے، علاوہ ازیں! طیب اردووان کی قطر لور سعودی عرب کے رہنماؤں سے گفتگو بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ ان رہنمائوں کی طرف سے ایک طرف فوری جنگ بندی کرنے کی کوششیں کی جار ہی ہیں تو دوسری طرف دو ریاستی حل کو پائیدار امن کا ضامن قرار دیا جار ہا ہے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ خطے میں مستقل امن کے لئے فی الفور دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد کروایا جائے۔ علاوہ ازیں! اسرائیل کا رفاع سرحد پر بمباری سے ہونے والے جانی نقصان کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور اسرائیل پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی جیسی بربریت سے باز رہے۔ عرب و عجم ریاستیں فلسطین کے حوالے سے اس وقت واضح موقف اپنائے ہوئے ہیں اور کسی بھی اختلاف کا شکار دکھائی نہیں دے رہی البتہ بدقسمتی سے فلسطینیوں کی مدد میں کوئی بھی راست اقدام کرنے سے گریزاں نظر آ رہی ہیں۔ تاہم دیگر حریت پسند تنظیمیں تما م تر صورتحال کو بغور دیکھ رہی ہیں اور امریکی و اسرائیلی گٹھ جوڑ میں کسی بھی وقت، اس کھیل میں کود سکتی ہیں بالخصوص لبنان اور شام کی جانب سے ان تنظیموں کی جارحیت قطعی خارج از امکان نہیں ۔ ان دو ریاستوں میں، اسرائیل اور امریکہ نے یوں بھی بہت تباہی مچا رکھی ہے اور ان ریاستوں کی کسی بھی صورت مستحکم نہیں ہونے دے رہی، لہذا ان ریاستوں کے پاس بظاہر کھونے کے لئے کچھ خاص نہیں ہے، دائو پر لگانے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نظر نہیں آتا کہ اگر دائو لگ گیا تو آسانی و آزادی کے آثار میسر ہو سکتے ہیں وگرنہ پٹے ہوئے تو ہیں ہی۔
اسرائیل کو اس مرتبہ بہت سوچ سمجھ کر کارروائی کرنی پڑ رہی ہے کہ ماضی کے برعکس، اس مرتبہ صرف امریکہ ہے ایک کھلاڑی میدان میں نہیں ہے بلکہ اس کے مقابل روس و چین بھی خطے میں اپنے بھرپور قدم جما چکے ہیں لہذا اب یہ ممکن نہیں رہا کہ اکلوتا امریکہ اپنی من مانی کر سکے۔ چین اپنی معاشی حیثیت میں ساری دنیا میں داخل ہو چکا ہے اور تقریبا ہر خطہ میں چین کی مفادات اور اس کا اثر و رسوخ موجود ہے، فلسطین و اسرائیل کے حوالے سے چین کی دوٹوک پالیسی بھی سامنے آ چکی ہے لہذا اسرائیلی نسل کشی کی کوئی بھی کوشش، اسرائیل کے خلاف جا سکتی ہے۔ دوسری طرف ماضی کے برعکس مسلم ممالک کا وزن بھی اب امریکی خواہشات کے الٹ، روس و چین کے پلڑے میں دکھائی دیتا ہے، لہذا یہاں مقامی ہمدردوں کی مخالفت مول لے کر امریکہ اسرائیل کی حمایت ایک حد تک ہی کر پائے گا۔ مشرق وسطیٰ میں معاملات خاصے الجھے ہوئے لگ ر ہے ہیں اور صف بندیاں نئے سرے سے ترتیب پا رہی ہیں، جس میں امریکی مفادات کی نگہبانی بعینہ ہوتی دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی اسرائیل ماضی کی طرح شتر بے مہار فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی کر پائے گا۔ گزشتہ چند سالوں میں چین نے کئی ایک امریکی منصوبوں کو انتہائی مہارت ، خوبصورتی اور نرمی کے ساتھ ناکام بنایا ہے اور اپنی ساکھ کو بہتر بنایا ہے، جس کے باعث بیشتر ممالک چین کے ساتھ معاملات کرنے میں اس لئے آسانی محسوس کرتے ہیں کہ چین ناانصافی کی بجائے، منصفانہ انداز میں معاملات طے کرتا نظر آتا ہے۔ فلسطینی مجاہدوں نے علم آزادی بلند رکھا اور معاملات اس نہج تک لے آئے کہ آج اسے آزادی نصیب ہونے کے آثار نظر آتے ہیں جبکہ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہے کہ علم آزادی بلند ہونے کے باوجود، بے تحاشہ قربانیاں دینے کے باوجود، عزتیں، عصمتیں لٹانے کے باوجود اقوام عالم کشمیریوں کو آزادی دلانے کی صف بندی کرتی دکھائی نہیں دیتی کہ اس میں پاکستانی ارباب اختیار کے بے حسی شامل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button