CM RizwanColumn

امن کی اک کمزور سی شمع

سی ایم رضوان
بے شرم امریکی صدر جو بائیڈن کی انسان دشمنی کی انتہا ملاحظہ ہو کہ ایک طرف وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی آبادیوں میں تباہی مچانے کے لئے فاسفورس بم تک چلا دینے پر اسرائیل کی سرکوبی کرنا تو کجا اس کی خطرناک اور جدید ترین اسلحہ سے مدد کی یقین دہانی کروا رہا ہے اور دوسری طرف حماس کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ بے شرمی، ڈھٹائی اور بے غیرتی کی حد تک بے بسی پر مبنی دنیا بھر کے حکمرانوں کا رویہ ملاحظہ ہو کہ دونوں اطراف انسانیت مر رہی ہے مگر مجال ہے کہ کسی ملک کا حکمران صرف اس ایک نقطے پر متحرک ہوا ہو کہ انسانوں کا مرنا مارنا دونوں طرف سے ناجائز ہے اور اس کو فوری طور پر بند ہونا چاہیے یا اس تنازع کے حل کے لئے کسی ایک بھی عالمی لیڈر نے مذاکرات، ثالثی، ضمانت یا امن کی یقین دہانی کا سلسلہ شروع کیا ہو۔ گویا ہر کوئی آگ لگانا، بھڑکانا اور بڑھانا چاہتا ہے، ان میں سے کچھ بے بس ہیں۔ کچھ بے غیرت ہیں اور کچھ بے شرم۔ کئی طاقتوں کو لالچ ہے کہ ان کا اسلحہ فروخت ہو گا۔ کچھ نتائج اور پراپیگنڈے کے نتیجے میں سیاسی جوڑ توڑ کر لیں گے اور کچھ اپنے تجارتی اور کاروباری مراسم کو تقویت دے لیں گے۔ انہی سربراہان عالم کی وجہ سے تو آج دنیا کی آدھی سے زائد خلق خدا بھوک سے مر رہی ہے، آدھی سے کم بدامنی اور انتشار میں غلطاں ہے اور باقی طبقات انہی بدکردار حکمرانوں کی چاپلوسی، مدارت اور خدمت پر لگے ہوئے ہیں۔ کم علم، کمزور اور غریب طبقات پر دنیا بھر میں ہر جگہ زمین تنگ ہے اور شاطر، موقع پرست، ابن الوقت اور لوٹ کھسوٹ کرنے والے دنیا بھر میں موج میلے کر رہے ہیں۔ خود کشمیر، روہنگیا، میانمار، فلسطین، شام، عراق، افغانستان اور پاکستان جیسے مجموعی طور پر غریب، کنگال، مظلوم اور پسماندہ شمار کئے جانے والے معاشروں میں یہ تفاوت آپ کو عام نظر آئے گی کہ لوٹ مار کرنے والے ہر جگہ اور معاشرے میں عیش و آرام سے رہ رہے ہیں اور غریب ہر ملک اور ہر مقام پر مر رہے ہیں اور ان کو ہر جگہ مسلسل ظلم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دوسری جانب اس وقت اسرائیل اور فلسطینی غزہ میں جنگ اور بمباری سے جس قسم کی تباہی اور ہلاکت کا سلسلہ جاری ہے اسے فورآ اور ہر صورت بند کرنے کی کوشش، ضرورت اور منصوبہ بندی کا مطالبہ کرنے کی بجائے عالمی میڈیا اس طرح خبریں دے رہا ہے جیسے کسی کرکٹ میچ کی کوریج کر رہا ہو۔ روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتوں کی گنتی، بموں کی ساخت اور نوعیت اور اس جنگ میں استعمال ہونے والے اسلحہ کے فضائل و کمالات سے متعلق کمنٹری کرتا عالمی میڈیا ایسے لگ رہا ہے جیسے وہ اسلحہ ساز کمپنیوں اور ملکوں کا نمائندہ اور پیش کار ہو۔ جنگوں کی تاریخ اور تنازعات کے تناظر میں ہلاکتوں کو ایسے گنوایا جاتا ہے جیسے کسی کرکٹ میچ کے سکور بنائے جاتے ہیں۔ ایسے میں چند ممالک کے حکمرانوں کی بالمشافہ اور ٹیلی فونک ملاقاتوں کے احوال اور ماضی حال اور مستقبل کے تناظر میں تنازع کے جائزے، تجزیے اور تبصرے پیش کرتے ہوئے یہ یکسر فراموش کر دیا گیا ہے کہ فلسطین اور غزہ میں ایک انسانی المیہ جنم لے چکا ہے اور یہ المیہ حالیہ جنگ کی بنا پر سنگین سے سنگین تر ہوتا جا رہا ہے۔
جہاں تک مسلم میڈیا کا تعلق ہے تو اس نے پچھلی ایک صدی سے یہ پروپیگنڈہ کامیابی کے ساتھ متعارف کروا دیا ہے کہ تمام تر یہودیوں کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ ہے اسلام اور مسلمانوں کو ختم کرنا اور دنیا بھر میں کہیں بھی موجود مسلمان ملک یا آبادیوں کو تباہ کرنا۔ اس خبررسانی کے نتیجے میں اب ہمارے ایک ایک بچے کو یقین ہو گیا ہے کہ یہودی ہمارے دشمن نمبر ایک ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ان پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ان سے دوستی نہیں کی جا سکتی اور ہمیں یہ سب بچپن سے ہی سکھا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف یہودی میڈیا یہ تاثر قائم کرنے میں کم از کم یہودیوں کی اکثریت کی حد تک کامیاب ہو چکا ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہو جیسا بھی ہو جس سطح پر ہو وہ دہشت گرد ہے اور یہودیوں کا دشمن ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس پراپیگنڈے کو تقویت دینے کے لئے نائن الیون جیسے واقعات کو حوالہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس طرح کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکہ اور اس کے اتحادی اب تک نہ صرف کئی مسلم ممالک کو تباہ کر چکے ہیں بلکہ سیاسی جوڑ توڑ کی صورت میں فوائد بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمان کی حیثیت سے ہم فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کی بہادری کے قصے سن کر خوش ہوا کرتے تھے، ان کی تنظیم اور ان کی تحریک کے رہنما ہمارے لئے ہیرو تھے۔ پھر یہ خبریں بھی سننے کو ملیں کہ یاسر عرفات فلسطینی عوام کے خون کا تاجر ہے۔ پھر حماس میدان میں آئی تو اس کے متعلق بھی یہ تاثر قائم ہوا کہ یاسر عرفات کو ناکام کرنے کے لئے اسرائیل نے ہی حماس کو کھڑا کیا ہے اور وہ اس کی فنڈنگ بھی خود کرتا ہے پھر حماس کے بھی دو دھڑے بن گئے۔ اب ایک صرف ویلفئیر کے کام کرتا ہے جبکہ دوسرا عسکری کارروائیاں۔ اب اسی حماس نے اس جنگ کی ابتدا کی ہے جس میں اب تک سیکڑوں لوگ دونوں طرف سے لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ بہرحال ایک بات طے ہے کہ اس سارے کھیل میں اب فلسطینی مظلوم ہیں اور اسرائیلی حکومت ظالم ہے۔
اب جلتے ہوئے غزہ کی تصاویر اور ویڈیوز دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے اور اسرائیل مخالف جذبات بھی بڑھکتے ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اسرائیل کی یہودی برادری کے اکثر بنیاد پرست لوگ بھی اس طرح کے تشدد کے حق میں نہیں۔ جتنے کچھ ایرانی اور ترک نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیل میں زیادہ تر لوگ دو ریاستی نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں جس کے تحت اسرائیل اور فلسطین دو اقوام کی حیثیت سے ساتھ ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس پالیسی پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔ یہ تصور بھی مکمل درست نہیں کہ اسرائیل کے تمام لوگ اسرائیلی حکومت کی غزہ کے شہری علاقوں میں حالیہ خطرناک بمباری کے حامی ہیں۔ اسرائیل کے بہت سے لوگ اپنی حکومت کی پُرتشدد جارحیت کے مخالف ہیں، یہاں تک کہ بہت سے یہودی اسرائیلی فلسطینیوں کے انسانی حقوق کے لئے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہاں ایک عرصہ سے ایک مہم جاری ہے جس میں اسرائیلی، یہودی اور مسلمان فلسطینی دونوں شامل ہیں۔ اس مہم کا مقصد امن قائم کرنا ہے۔ وہ اپنے اہل اقتدار کی غلط پالیسیوں پر مستقل طور پر سوال اٹھاتے ہیں۔ القصہ دونوں اطراف ایسے لوگ موجود ہیں جو امن اور ہم آہنگی چاہتے ہیں اور انہوں نے ماضی قریب میں اس کی ایک مثال بھی پیش کی ہے۔ انہوں نے ایک علاقے میں مل کر رہنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ 1974میں انہوں نے مل کر ایک گائوں بسایا اور اس کا نام ’ نوئو شلوم واح السلام‘ رکھا۔ یہ ایک عبرانی اور عربی نام ہے اور دونوں کو ملا کے معنی بنتا ہے ’ امن کا نخلستان‘۔ اس گائوں میں ماضی میں ایک دوسرے کو باہمی طور پر شدید ترین دشمن سمجھنے والے ایک ساتھ رہ رہی ہیں۔ اس گائوں میں مشترکہ کمیونٹی سنٹر بھی ہے، گائوں کے تھیٹر کے باہر دونوں برادریوں اور مذاہبِ کے لوگ امن کے دنوں میں اکٹھے بیٹھ کر گفتگو بھی کرتے ہیں، ایک سکول بھی ہے جہاں یہودی اور مسلمان بچے ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اس مثالی گاں کے سکول میں پڑھنے والے دو بچوں کی جن میں ایک مسلم اور دوسرا یہودی ہے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے تصویر بھی دو سال قبل وائرل ہو چکی ہے۔ پہلی نظر میں یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس سکول میں پڑھنے والے ان بچوں میں سے کون یہودی ہے اور کون مسلمان۔ سب ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ بچی آہستہ آہستہ امن اور باہم مل کر رہنے کی کوئی قابل عمل منصوبہ بندی کر لیں اور کل کلاں ایک دوسرے کے حقوق کے معترف اور فرائض کے عامل بن جائیں اور دنیا کو یہ پیغام باہم مل کر دے دیں کہ کسی عالمی بدمعاش اور خطہ کے کسی اجارہ دار کو ان دونوں ممالک اور اقوام کے آپسی اختلاف کو ہوا دینے یا اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ ہو سکتا ہے کل کلاں یہ سکول دونوں ممالک کے مابین امن فارمولا طے کرنے کا مرکز بن جائے۔ ہوسکتا ہے یہ سکول جنگ کی بجائے امن کی شمع جلانے میں کامیاب ہو جائے۔ کیونکہ اس سکول میں پڑھنے والے دونوں برادریوں کے نونہالان باہمی دشمنی کی غرض و غایت اور مقصد و نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کی اس طرح کی کوشش شروع ہو چکی ہو کہ وہ یہ تنازع گفتگو سے حل کر کے دنیا میں امن اور بقائے باہمی کو ممکن بنائیں گے۔ اس سکول کے بچوں کے ساتھ ساتھ خواتین اساتذہ بھی امن کے قیام کی مہم کو چلا رہی ہیں۔ دو سال قبل اس سکول کی پرنسپل جو ایک یہودی خاتون تھیں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ ان کی مہم اب اسرائیلی یونیورسٹی کے کچھ کیمپسز میں بھی پھیل رہی ہے اور متعدد امریکی یونیورسٹیوں میں اس تجربے کو بطور ایک مضمون پڑھایا جا رہا ہے۔ بچے میوزک کلاس میں امن کے گیت گاتے ہیں اور میدان میں مل جل کر فٹ بال بھی کھیلتے ہیں۔ سبھی بہت خوش ہیں۔ کسی کے دل میں مذہبی اور سیاسی تلخی نہیں۔ یقین جانیں فلسطین اور اسرائیل میں یہ کوششیں موجود ہیں لیکن یہ سب محدود اور کمزور ہیں کیونکہ ان دونوں ممالک کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کی ترجیحات و ضروریات کچھ اور ہیں۔ باہمی امن کی یہ کوششیں صرف متوسط طبقے اور ان میں بھی دونوں طبقوں کے آزاد خیال لوگوں تک محدود ہیں۔ لبرل یہودی اپنے نیک ارادوں کے باوجود اپنے یہودی بھائیوں کی جانب سے قدرے شک کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔ ادھر فلسطینی مسلمانوں میں سے بھی جو تھوڑا لبرل اور سیکولر ہے اور جنگ پر امن کو ترجیح دینے کی بات یا کوشش کرتا ہے وہ کسی نہ کسی حوالے سے خود کو تنہا محسوس کرنے لگتا ہے۔
یہاں تاریخی فصیل بند شہر مشرقی یروشلم میں دونوں مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ پرانا یروشلم ’ دیوار گریہ‘ سے زیادہ دور نہیں۔ یہ مقام یہودی اور مسلمان دونوں ہی کے لئے مقدس ہے۔ یہیں مسجد اقصیٰ بھی ہے جہاں اکثر پرتشدد واقعات ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک طرف دنیا بھر سے آنے والے سیکڑوں یہودی دیوار کو چومتے اور دعائیں کرتے نظر آتے ہیں جبکہ اسی دیوار کے پیچھے مسجد اقصیٰ ہے، جہاں دنیا بھر سے آنے والے مسلمان اپنے مقامی ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ یہ دونوں ایک اللّٰہ کے پجاری ہیں لیکن بوجوہ ایک دوسرے سے متحارب اور ایک دوسرے کے دشمن۔ حالیہ جنگ جہاں دیگر تباہیاں برپا کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے متذکرہ بالا گائوں اور سکول بھی اس بمباری سے صفحہ ہستی سے مٹ جائیں جہاں امن کی یہ کمزور سی شمع روشن ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button