ColumnImtiaz Ahmad Shad

اطمینان کا فقدان

امتیاز احمد شاد
بے جا سوچنے اور ضرورت سے زیادہ پریشان کن خیالات انسان کو ڈپریشن کا شکار بنا سکتے ہیں۔ یہ کیفیات بے چینی اور تشویش میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ ضرورت سے زیادہ پریشان ہونا اور سوچنا دراصل انسان کو ایک تشویش ناک کیفیت میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ان کیفیات کے باعث سب سے پہلے انسان بے آرامی کا شکار ہوتا ہے اور پھر وہ ذہنی اور قلبی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ زیادہ سوچ و بچار اور پریشان کن خیالات دراصل سوچ کو اس جانب لے جاتے ہیں جہاں منفی خیالات حاوی ہوجاتے ہیں اور انسان کسی معاملے کے صرف برے پہلوں پر ہی بے جا غور و فکر شروع کر دیتا ہے حالانکہ ابھی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہوتا۔ اگر انسان اپنی سوچوں کو قابو میں نہیں کرتا تو وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔ سوچوں اور خیالات پر کنٹرول دراصل پرسکون زندگی کا ایک اہم کلیہ قرار دیا جاتا ہے۔ ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل وہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انہیں انتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیے جائیں تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔ دنیا کی جتنی مرضی ادویات استعمال کر لیں جب تک اطمینان قلب نہیں ہوتا ذہنی تنائو ختم نہیں ہو سکتا اور اطمینان قلب کے لئے ذکر الٰہی لازم ہے۔ موجودہ وقت میں جو حالات چل رہے ہیں ہر شخص پریشان ہے بے چینی بے سکونی اور اضطراب کا شکار ہے کوئی مالی پریشانی کا شکار ہے تو کوئی جسمانی بیماریوں کا کوئی گھریلو تنازعات کا شکار ہے تو کوئی نجی پریشانیوں کا شکار ہے، کوئی بیروزگاری کا شکارہے تو کوئی اپنے کاروبار، مال و تجارت کے باعث پریشان ہے، ہر بندہ کسی نہ کسی چھوٹے بڑے دکھ یا غم میں مبتلا ہے۔ ہر شخص سکون قلب چاہتا ہے انسان جب اپنا دکھڑا کسی سے بیان کرتا ہے تو جب سامنے والا اپنا دکھڑا سناتا ہے تو بندہ اپنا دکھ بھول جاتا ہے۔ کیا ہم نے ٹھنڈے دل و دماغ سے کبھی سوچا ہے کہ یہ دل کی ویرانی، بے چینی، اضطراب، یہ پریشانیاں، یہ غم، یہ بیقراری، لوگوں کی زندگی میں اطمینان کا فقدان کیوں ہے حالانکہ آج کے انسان کو راحت اور آسائش کے وہ وسائل اور سامان حاصل ہے جس کا اس کے آبائو اجداد نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا ۔ سکون قلب، راحت اور دل کو خوشی کیسے ملے گی اس کا طریقہ کیا ہے یہ سب کس قیمت پر ملے گا؟۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الرعد کی ایک آیت میں فرماتے ہیں، ترجمہ: جان لو کہ اللہ کی یاد کے ساتھ دلوں کا سکون اطمینان وابستہ ہے‘‘۔ اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو راحت چین سکون ملے گا۔ جس بندے کا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو تو پریشانی کبھی اس کے نزدیک بھی نہیں آتی۔ جس کا دل ہر وقت اللہ کے ذکر سے آباد ہوگا تو پریشانی کا اس کے ذہن میں کیا کام ہے۔ انسان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس کا اختیار کسی چیز پر نہیں۔ اس دنیا میں آنا اور اس دنیا سے جانا ہماری مرضی سے نہیں بلکہ حکم الٰہی پر منحصر ہے۔ پریشان حال لوگوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ خوشی اور غم لازم و ملزوم ہیں۔ ان کی تبدیلی انسان کے اختیار میں بالکل نہیں۔ یہ کوئی اور طاقت ہے جس کی قدرت بڑی کامل ہے جس پرجو حال چاہتا ہے، لے آتا ہے۔ جس طرح چاہتا ہے دنوں کو پھیر دیتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی ایک آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیںکہ، ترجمہ: ’’ یہ دن ہمارے ہاتھ میں ہے ہم جیسے چاہیں پھیر کے رکھ دیں‘‘۔ مال سے کوئی خوشیاں خرید نہیں سکتا کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے سوا نہیں آتی۔ قرآن مجید کی سورۃ النجم کی ایک آیت کا ترجمہ ہے: ’’ اور یہ کہ وہی ( اللہ) ہنساتا اور ر لاتا ہے‘‘۔ اسی سورۃ کی ایک اور آیت کا ترجمہ ہے کہ : ’’ وہی مارتا ہے اور جگاتا ہے‘‘ جبکہ قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ کہہ دو کون ہے جو تمہیں اللہ سے بچا سکے‘‘۔ قرآن مجید کی سورۃ یونس کی ایک آیت کا ترجمہ ہے : ’’ اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کو کچھ تکلیف پہنچائے تو کوئی اس کے سوا ہٹانے والا نہیں‘‘۔ قرآن مجید میں آئے اتنے واضح احکامات کے باوجود اگر انسان حقیقت نہیں سمجھ سکتا تو پھر بد بختی سے کچھ نہیں۔ اطمینان قلب فقط ذکر الٰہی میں ہی موجود ہے۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی تسکین و راحت اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے، یہی ایمان ہے جو بندے کو بہار و خزاں و ہر قسم کے حالات میں مطمئن رکھتا ہے۔ ایک مسلمان کو ایمان کی برکت سے زندگی میں قدم قدم پر جو سکون و راحت نصیب ہوتی ہے اس کا اندازہ ہر کوئی نہیں کر سکتا۔ قلبی سکون کے لیے دل میں ایمان کا ہونا شرط ہے اور ایمان کامل کی چار علامتیں ہے۔1، جب دے تو اللہ کے لیے۔ 2، اگر روکے تو اللہ کے لیے۔3، اگر کسی سے محبت کرے تو اللہ کے لیے۔4، بغض و غصہ بھی اللہ کے لیے ہی ہو۔ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضورؐ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ نجات کا راستہ کیا ہے؟۔ اس سوال کے جواب میں حضورؐ نے تین نصیحتیں فرمائیں۔ ایک اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ دوسری بلا ضرورت گھر سے مت نکلو۔ تیسری اپنی خطائوں پر روتے رہو‘‘۔ اللہ تعالیٰ کو وہ دل بہت محبوب ہے جس میں اس کا ذکر ہو۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ جب بھی بندہ اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے وہ ذات اقدس بھی اپنے بندے کو یاد کرتی ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ البقر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ترجمہ: ’’ تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا‘‘۔ یہ بات واضح ہے کہ جب بندے کو خالق یاد کرے تو مشکلات اس کے قریب تک نہیں آسکتیں۔ بہرحال ذہنی تنائو اور دلی بے چینی میں اضافہ ہمیشہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان فطرت کے خلاف جا کر مقدر میں تبدیلی کرنے کی سعی میں لگتا ہے۔ زیادہ کے حصول میں موجود کی قدر نہ کرنا انسان کو قلبی بے سکونی کا شکار کرتا ہے اور اس کیفیت میں گھریلو ناچاقیاں جنم لیتی ہیں اور پھر معاشرے افراتفری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ موجودہ دور میں پرسکون رہنے کے لئے لازم ہے کہ پیغام قرآن کو سمجھا جائے اور اسی سے راستے تلاش کئے جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button