Columnمحمد مبشر انوار

روپے کی مضبوط قدر

محمد مبشر انوار( ریاض)
ریاست کی معاشی حیثیت کا تعین اس کی کرنسی سے کیا جاتا ہے جس میں کئی ایک عوامل کو ملحوظ رکھا جاتا ہے ، ماہرین معیشت ان عوامل پر سیر حاصل بحث کرتے رہتے ہیں لیکن افسوس کہ ہمارے ارباب اختیار، سیاسی و ذاتی مصلحتوں کے باعث، ان عوامل کو خاطر میں نہیں لاتے اور یوں ریاست پاکستان کی معیشت دن بدن دگر گوں ہوتی چلی گئی ہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ دیگر ممالک پاکستان کے ترقیاتی پروگرامز سے مستفید ہو کر اپنی معیشت کو صحیح ڈگر پر لا چکے ہیں اور اقوام عالم میں اپنی حیثیت منوا چکے ہیں لیکن پاکستان میں معاشی صورتحال کو کوئی پرسان حال نہیں کہ یہاں ذمہ داران اپنی معیشت ٹھیک کرنے میں مشغول رہے اور پاکستانی معیشت کو بیڑا ڈبوتے رہے ۔ بعد از آزادی اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہے کہ پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں اپنی حیثیت مستحکم رکھتا رہا ہے، ابھی کل کی بات ہے کہ پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے تب ڈالر کی قیمت اڑتالیس روپے کے برابر تھی لیکن دو ماہ کے اندر ڈالر کی قیمت اڑسٹھ روپے تک جا پہنچی۔ اس کی سادہ سی وجہ بس اتنی تھی کہ بہت سے مالداروں نے اوپن مارکیٹ سے لاکھوں کے حساب سے ڈالر اٹھا لیا اور دیہاڑی لگانے سے نہیں چوکے، اس روئیے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستانیوں کو پاکستان پر ہی یقین و اعتبار نہیں، اس کی وجہ حکمرانوں کا اپنا رویہ بھی تھا، جس نے دیگر افراد کو بھی اس پر مائل کیا اور یوں ڈالر کی قیمت بڑھتی رہی۔ جبکہ دوسری طرف ہندوستان، جس کے مقابلے میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کئے تھے، وہاں ڈالر آج بھی بیاسی روپے کے برابر ہے، گو کہ وہاں بھی دیہاڑی باز ہیں لیکن وہاں پر ڈالر کی قیمت اتنی زیادہ نہیں بڑھی۔ مضبوط معیشت کا ایک بنیادی عنصر برآمدات ہوتی ہیں کہ جن سے ریاست زر مبادلہ کماتی ہے اور باقی دنیا سے لین دین کرتی ہے، اس عمل میں نہ صرف ملکی صنعت کو فروغ ملتا ہے، روز گار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور اقوام عالم میں آپ کی پہچان آپ کی پیداواری صلاحیت اور پیداوار سے ہوتی ہے۔ بدقسمتی دیکھئے کہ پاکستان وہ ملک ہے کہ جس کی صنعت ابتدائی انتہائی مخدوش حالات میں بھی، کامیابی سے نمو پذیر رہی، اور دنیا بھر میں اپنا الگ مقام بنائے رکھا تآنکہ اولا یہاں سوشلزم کا بیج بویا گیا اور چلتی ہوئی صنعت کو بیک جنبش قلم روک دیا گیا، آج اتنا وقت گزر جانے کے بعد یہ کہنا آسان ہے کہ اسے بیک جنبش قلم روک دیا گیا، لیکن تب کے حالات میں ممکنہ طور پر فوری تقاضہ ہی اس عمل کا تھا، دوئم یہاں ایک صنعتکار کو حکومت میں لانے کا تجربہ تھا، جس نے رہی سہی امید بھی ختم کردی۔
مزید صنعت کو تو کیا فروغ ملتا، جو صنعت باقی بچی تھی، اسے جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ صنعتکار نے سیاست کے نام پر جو لوٹ مار کی ہے، اس کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی پاکستانیوں کی بے بسی کا منہ چڑا رہی ہیں لیکن آج بھی اس کے متوالے موجود ہیں، جن کے نزدیک ایک صرف وہی ہے جو پاکستان کو ہر قسم کے بحران سے نکال سکتا ہے۔ اس نے پاکستانی معیشت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے، وہ صرف کسی ایسے شخص سے ہی متوقع ہے، جو پاکستان سے شدید نفرت رکھتا ہو، اس سے توقع اس بات کی تھی کہ وہ بطور صنعتکار ملک میں صنعت کو فروغ دے گا لیکن اس نے ملکی معیشت کو قرض کے نشے پر لگا دیا، جس نے ملکی معیشت کی سانسیںاکھیڑ کر رکھ دی ہیں۔ پیتے تھے قرض کی مے ، لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں۔۔۔ رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن، عالمی مالیاتی اداروں سے اندھا دھند قرض لئے گئے اور ان قرضوں سے بجائے اصلاحات کی جاتی، بھاری بھرکم رقوم اللے تللوں میں اجاڑ دی گئی یا ان سے اپنے لئے بیرون ملک کاروبار اور جائیدادیں بنا لی گئی۔ حیرت تو ان سپورٹرز پر ہوتی ہے کہ جو سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی، آنکھیں بند کئے بیٹھے، آج بھی اس کی مالا جپ رہے ہیں، عوام کو خوب لالی پاپ دے رکھا ہے کہ ملکی عدالتیں اور نظام چونکہ اس کے خلاف ہے، اس لئے انصاف نہیں ملتا، لہذا جان بچانے کے لئے بیرون ملک رہائش رکھنا ضروری ہے۔ افسوس ہوتا ہے کہ نجانے یہ کیسے حکمران ہے کہ حکومت کرنے کے لئے پاکستان کی سرزمین لیکن زندگی گزارنے کے لئے انہیں انگلینڈ کی سرزمین اچھی لگتی ہے۔ گزشتہ حکومت کے دوران ہی، بلند و بانگ دعوئوں کے ساتھ ایک مفرور، سرکاری جہاز میں بیٹھ کر ملک واپس آتا ہے، اگلے دن سینیٹ کا حلف اٹھاتا ہے، اور ساتھ ہی وزیر خزانہ کا حلف بھی اٹھا لیتا ہے۔ بہت شور و غوغا تھا کہ اس کے آتے ہی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو بریک لگ جائے گی لیکن ہوا اس کے برعکس، کہ ڈالر بجائے رکنے کے تیزی کے ساتھ نئی سے نئی حدیں پھلانگنے لگا، حکومت ختم اور وہ صاحب بہادر، پھر واپس برطانیہ جا پہنچے۔ کیا ان لوگوں سے ملکی معیشت سدھر سکتی ہے؟ ایسے ایسے منصوبے لگائے گئے ہیں کہ الامان الحفیظ، شنید تو یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی ایک ذیلی تنظیم بھی نجی بجلی گھروں میں پارٹنر ہے، یعنی انگریزوں کو بھی، بہتی گنگا سے ہاتھ دھونے کا موقع فراہم کیا گیا ہے۔ بارہا یہ لکھا جا چکا ہے کہ ان بجلی گھروں سے کئے گئے معاہدوں پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے لیکن ایسا ہو گا نہیں کہ اس سے بہت سے پردہ نشینوں کے مالی مفادات وابستہ ہیں جو پاکستانی اپنے خون پسینے کی کمائی سے ادا کر رہے ہیں۔
موجودہ نگران حکومت کے شروع میں ڈالر کے پر پرزے، ویسے ہی نکل رہے تھے لیکن پس پردہ اصل حکومت کی انگڑائی نے، ڈالر کی اڑان کو روکا ہے۔ ایک طرف اصل حکومت نے کرنسی کا کاروبار کرنے والوں کی مشکیں کسنا شروع کی ہیں تو دوسری طرف سمگلنگ کے راستے بند کرنے کی کوششیں بھی شروع ہو چکی ہیں،نتیجہ یہ ہے کہ چند دنوں میں ہی ڈالر تین سو سے نیچے آ چکا ہے اور شنید یہ بھی ہے کہ اولا اس کو اڑھائی سو تک لانا تھا لیکن اب ڈالر کو دو سو تک لانے کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سوال یہاں یہ ہے کہ اگر ڈالر کی اڑان نیچے آ چکی ہے تو اس کا فائدہ عام شہری کو کیوں نہیں مل رہا؟ اس کا جواب واضح ہے کہ چونکہ قرض اتنے زیادہ لئے گئے تھے، جن کی واپسی واجب الادا ہو چکی ہے، لہذا یوں سمجھئے کہ نہ صرف اس وقت بلکہ اگلے چند اور سال اسی طرح سختی کے گزارنے ہوںگے بشرطیکہ بیرونی قرضے واپس دئیے گئے اور مزید قرضوں کا حصول نہ ہوا۔ بصورت دیگر ہماری سیاست کے جو انداز ہیں، ان سے واضح ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ممکن ہے کہ جیسے آج انہی لوگوں کو پھر اقتدار کے لئے چنا جا رہا ہے کہ جن کی وجہ سے پاکستان کی یہ معاشی حالت ہو چکی ہے، کیسے بہتر کریں گے؟ بہرکیف یہ حقیقت ہے کہ اصل حکومت نے مختلف جہات پر کام شروع کر دیا ہے اور ان کے اقدامات کا ثمر نظر بھی آ رہا ہے لیکن یہ ثمر عوام تک پہنچنے سے پہلے اگر پھر انہی لوگوں کو اقتدار میں لایا گیا، جو اس کے ذمہ دار رہے ہیں، تو اس کا رتی برابر فائدہ نظر نہیں آتا۔ پاکستانیوں نے بھی کیا قسمت پائی ہے کہ آج جب بیرونی قرض ادا کرنے کی باری آئی ہے، ڈالر کی نسبت پاکستانی روپیہ مضبوط ہوا ہے، تب بھی اس کا ثمر عوام کے نصیب میں نہیں اور جب اصل حکومت اپنے منصب سے ہٹ جائیگی، تو پاکستان پر قرضہ چڑھانے والے دوبارہ اقتدار پر براجمان نظر آئیں گے۔ فی الوقت عارضی طور پر ہی سہی، روپے کی قدر میں مضبوطی سے محظوظ ہوں کہ نجانے یہ مضبوطی کتنے دنوں، مہینوں یا سالوں کے لئے ہے؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button