ColumnNasir Naqvi

’’شارٹ اینڈ سویٹ‘‘ فیصلہ

ناصر نقوی
بہادر، دلیر، اصول پرست، یاروں کے یار، ساسو ماں کے تابع دار سابق چیف جسٹس آف پاکستان اپنے وعدے کے مطابق اپنی ذمہ داری اور منصب کا آخری فیصلہ آخری دن دے کر رخصت ہو گئے، لیکن فیصلہ ان کے وعدے کے حوالے سے نہ ’’ شارٹ‘‘ ہے اور نہ ہی ’’ سویٹ‘‘ ۔۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم اور آپ‘‘ قانون اور عدالتی معاملات سے بے خبر ہونے پر ایسا اندازہ لگا رہے ہوں لیکن ’’ نیب‘‘ ترامیم کی دس میں سے 9کالعدم ہونے کے باوجود ملک کے طول و عرض میں کہیں بھی خوشی کی لہر نہیں دیکھی جا رہی، البتہ چیئرمین پی ٹی آئی اور ان کے حواری چہک ضرور رہے ہیں کہ ان کی رٹ پر یہ بڑا فیصلہ بڑی عدالت کے بڑے جج نے دے کر حق اور انصاف کی جیت کا ڈنکا بجا دیا ہے، کیونکہ غیر آئینی نیب ترامیم کے ذریعے نئے سرے سے قومی خزانہ لوٹنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ماضی کی اتحادی حکومت نے ترامیمی سازش سے قومی اداروں کو اپنے سیاسی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ترامیم حکومت کی اتحادی جماعتوں نے اپنے لیے کیں لیکن پہلا فائدہ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو ہوا۔ پرانے قوانین کے تحت 90روزہ ریمانڈ پہلے ہی مرحلے میں تھا جو ترامیم نے 30روز کر دیا تھا۔ یہ تاریخی فیصلہ تین رکنی بینچ نے دو ایک سے دیا۔ اختلافی نوٹ جسٹس منصور علی شاہ کا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ سوال پارلیمنٹ کی بالا دستی کا تھا۔ اکثریتی فیصلہ آئین میں دی گئی اختیارات کی تقسیم کو سمجھنے میں ناکام رہا، چیئرمین نیب کی چار سالہ مدت بھی بحال کر دی گئی جس میں ایک سال کی کمی کی گئی تھی۔ اسی طرح 50کروڑ مالیت سے کم کرپشن کیسز کے اختیارات بھی واپس ’’ نیب‘‘ کو مل گئے۔ ’’ شارٹ‘‘ فیصلہ صرف 58صفحات پر مشتمل ہے جن میں دو صفحات اختلافی نوٹ کے بھی ہیں جبکہ یہ ’’سویٹ‘‘ اس قدر ہے کہ اب گڑے مردے اکھاڑے جائیں گے۔ چھ سابق وزرائے اعظم، ایک سابق صدر، ایک سابق وزیراعلیٰ اور کئی وفاقی وزیر ’’ نیب‘‘ کے نرغے میں دوبارہ آ گئے ہیں جبکہ سینکڑوں دوسرے بھی شامل ہوں گے۔ یقینا میری طرح آپ کو بھی ان سب کی پکڑ اور جکڑ بندی پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن اس بات کی گارنٹی کون دے گا کہ ماضی کی طرح اس بار کوئی نہیں بچ پائے گا۔’’ کڑا احتساب‘‘ پوری قوم کی خواہش اور سابق وزیراعظم عمران خان کا ایجنڈا ہے جبکہ اس وقت وہ خود ’’ نیب‘‘ کے ملزموں میں شمار کئے جا رہے ہیں یہی نہیں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بھی ’’ نیب‘‘ زدہ ہیں، سوال اٹھا تو فوراً وضاحت آئی کہ ان کے خلاف میرٹ پر تحقیقات ختم کر دی گئی تھی کیونکہ اثاثہ جات کا کیس کھولا گیا لیکن اثاثے ملے ہی نہیں، ترامیمی بل کی منظوری کے بعد اور اس سے پہلے بھی جن جن کو ’’نیب‘‘ نے فارغ کیا تھا اس کے لیے بھی تو قانون ضابطہ ہو گا۔ اندازہ یہی لگایا جا رہا ہے کہ سابقہ چیف عمربندیال کچھ نیا کرنے کا وعدہ نبھاتے ہوئے جس سے بھی وفاداری کر گئے آنے والے وقت میں شاید اس کو بھی کوئی فائدہ نہ ہو سکے لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس اقدام سے نئے چیف صاحب کے لیے نت نئے مسائل ضرور جنم لیں گے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ بالکل مختلف انداز میں حالات کا جائزہ لیں گے اور وہ لارجر یا فل کورٹ سے اس کا دائمی حل نکال لیں گے، کیونکہ وہ کسی بھی صورت ’’ ہم خیالی‘‘ کی بیماری نہیں پالیں گے تاہم اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عمر عطا بندیال کو عشق عمران اور ہم خیالوں کے مشوروں نے اپنی ساکھ بحالی کا کوئی موقع نہیں دیا۔ وہ مختلف مقدمات کی فائلوں میں محبت بھری ’’ خصوصی بارودی پڑیاں‘‘ بڑی ذمہ داری سے رکھ گئے ہیں کہ ’’ عدلیہ ٹکر ‘‘ سے وقتاً فوقتاً چھوٹے موٹے دھماکوں کی آوازوں کی دھمک آتی رہے گی۔
قاضی آگیا، قاضی چھا گیا کہ نہیں، اس کا فیصلہ بھی جلد ممکن ہے کیونکہ عدلیہ میں بچھائی گئیں بارودی سرنگیں نہیں ، پھلجڑیاں جتنی جلدی وہ صاف کر کے آئین و قانون کی بالا دستی قائم کریں گے اتنا ہی بول بالا اور اقبال بلند ہو گا اور اگر روایت کے مطابق ’’ اقبال‘‘ نے مصلحت پسندی اور تاخیری حربوں سے کام لیا تو پھر قاضی کو ناکام کرنے کی خواہش رکھنے والے کامیاب ہو جائیں گے اور مایوسی چار سو پھیلتی دکھائی دے گی جس سے مثبت نہیں، منفی اثرات میں اضافہ ہو گا یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے سابق چیف صاحب سے امید لگا رکھی تھی کہ وہ جاتے جاتے کوئی ایسا کام ضرور دکھائیں گے کہ جس بنا پر انھیں خاصا عرصہ بھلایا نہیں جا سکے گا، دھماکہ کر دیا، مضبوط اختلافی مؤقف منصور علی شاہ نے اختیار کیا۔ مطلب سیدھا سادھا تھا کہ عدالت عظمیٰ اور اس کے فیصلوں کو متنازعہ نہ بنایا جائے بلکہ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے اجتماعی مفادات کے کام کئے جائیں جن سے مستقبل میں نظام عدل کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو، لیکن زور، طاقت، منصب اور محبت انسان کو کب انسان رہنے دیتا ہے، دعوے تو درشنی ہوتے ہیں اس لئے بندیالی انصاف بھی ماضی کے ثاقب نثار، کھوسہ اور گلزار سے آگے نہیں بڑھ سکا، وعدہ تھا کہ عدالت عظمیٰ کی نہ صرف ساکھ بحال کر کے جائوں گا بلکہ زیر التواء مقدمات کی تعداد بھی اپنے زور باز سے کم کر کے جائوں گا لیکن دونوں بازو ہم خیالی طاقتوں نے ’’ شل‘‘ کر دئیے، بظاہر تو بڑا وڈا، خوبصورت بندہ ریاست کے سب سے محترم ادارے کا چیف تھا لیکن وہ عملی اعتبار سے ’’ چییک‘‘ نکل گیا اس کی یقین دہانیوں پر جس جس نے اعتماد کیا مارا گیا، جو باقی بچے وہ جانے کے بعد مارے جائیں گے۔ اپنے بھی ناراض، پرائے بھی ناراض، اب صرف تادم حیات وضاحتیں دیں گے اور ان کے پاس دینے کے لیے کچھ بچا ہی نہیں، ہاں البتہ بیمار’’ ساسو ماں‘‘ کے سرہانے بیٹھ کر یہ قصّے ضرور سنائیں گے کہ اگر آپ بیمار ہیں تو آپ کے داماد نے ایسا کام دکھایا کہ جنہوں نے مجھے آپ کے مطلب کا فیصلہ نہیں کرنے دیا میں ان کا سارا نظام ہی بیمار کر آیا ہوں ’’ اے ہتھی لائیاں گنڈاں دنداں نال وی نئیں جے کھلنیاں‘‘۔
نئے چیف جسٹس ہوں کہ چیف آف آرمی سٹاف دونوں انتہائی مشکل رکاوٹوں کی دوڑ عزم و ہمت سے جیت کر ’’ وکٹری سٹینڈ‘‘ تک پہنچے ہیں لیکن جب اللہ عزت دے وہ کیسا ہو تا ہے؟ مشکل وقت اور چیلنجز دونوں کو ہیں تاہم قوم کی امیدوں کا محور بھی یہی دونوں شخصیات ہیں اس لیے کہ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران ’’ دیو‘‘ بن چکے ہیں اگر دیکھا جائے تو جمہوریت میں آسان پکڑ سیاستدانوں کی ہے انہیں عوامی، ریاستی اور اللہ کی عدالت میں جواب دینا ہوتا ہے سیاسی پارٹی بلا امتیاز معصوم جمہور کو اگر مگر اور سبز باغ دکھا کر گزار لیتی ہے لیکن جونہی پارٹی گرفت کمزور ہوتی ہے ریاستی
عدالتیں اسے قابو کر لیتی ہیں اس لیے کہ وقت کے حکمرانوں کی منشا و مرضی کے خلاف چلا نہیں جا سکتا۔ ہم جیسے لوگ اس صورت حال سے ہمیشہ کے لیے نمٹنے کے لیے مستحکم اور خودمختار اداروں کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن حالات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ جسٹس منیر سے لے کر عمر عطا بندیال تک 76سال سہولت کاری سے ایسے ناجائز کو جائز کہا گیا کہ آج جائز ناجائز کی تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ اسی لیے ادارے تباہ ہوئے اور کسی نے نہیں پوچھا کہ اگر قومی ادارے عدم استحکام کا شکار ہو جائیں گے تو ریاست کیسے مستحکم ہو گی، آسان فارمولا کہ جو اقتدار سے اترے اسے الزامات کی زد میں لا کر عوامی توجہ وقتی طور پر’’ ایشوز سے نان ایشو ز‘‘ کی جانب موڑ دو کیونکہ جمہور کا حافظہ بھی کمزور ہوتا ہے اور اسے روٹی، کپڑا، مکان کی پریشانی بھی مستقل بنیادوں پر حاصل ہے۔دوسری جانب ’’ پارلیمنٹ‘‘ اور پارلیمنٹرین کے وقار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ منتخب نمائندوں اور سیاسی رہنمائوں کو ریاستی بدحالی، عوامی مشکلات اور عالمی چیلنجز کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے رویوں اور کردار کو ’’ اَپ ڈیٹ‘‘ کرنا پڑے گا اگر ماضی میں ایسا ہو جاتا تو آج منتخب نمائندوں کے منظور شدہ قانون کی دھجیاں کوئی مخصوص ٹولہ نہ اڑا پاتا، پارلیمانی نظام میں ’’ پارلیمنٹ‘‘ ہی حقیقی طور پر بالادستی رکھتی ہے لیکن ہمارے ہاں معاملات اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ ریاستی ’’ سپریم کمانڈر‘‘ صدر مملکت بھی ریاست کی بجائے سیاسی پارٹی کی وفاداری کا دم بھرتے نظر آتے ہیں۔ آئین ، قانون، ضابطے اور ضابطہ اخلاق موجود ہے پھر بھی عمل درآمد تمام تر پارلیمانی روایات کی پاسداری کے برعکس ہے۔ حالانکہ سب یہ جانتے ہیں کہ ظلم کا نظام چل سکتا ہے، نا انصاف ریاست نہیں چل سکتی۔ یہ دیدہ دلیری اور ہڈدھرمی نہیں تو اور کیا ہے؟ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ قاضی آئین و قانون کی طاقت سے حقیقی قاضی بنیں اور ایسی روایات قائم کر جائیں کہ ماضی کی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا کسی حد تک ازالہ ہوجائے اور عدالت عظمیٰ کا وقار بحال ہی نہ ہو جائے بلکہ ایسے انتظامات کر دئیے جائیں کہ ان کے بعد آنے والے اصولی بندشوں کو توڑ نہ سکیں۔ آئین ساز اسمبلی اور قانون کی بالادستی قائم ہو، پارلیمنٹ صرف نظریہ ضرورت پر وقتی قانون سازی نہ کرے بلکہ مستقبل کے تقاضوں کے مطابق ذمہ داری نبھائے بلکہ آئینی عدالتی تشریح کا دروازہ بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جائے۔ قانونی ابہام کا جائزہ لینے کے بعد تشریح اور ترمیم کے لیے اسے واپس قانون ساز اسمبلی میں بھیجا جائے تاکہ غیر منتخب لوگ کسی بھی صورت اپنی مرضی کی تشریح کر کے سارے نظام کی تباہی کا باعث نہ بن سکیں۔ قاضی فائز عیسیٰ اپنے وعن اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنے ناپسندیدہ پیش رو کے الفاظ کو ’’ وقت کم مقابلہ سخت‘‘ کے پیش نظرفارمولا بنا لیں اور ’’شارٹ اینڈ سویٹ‘‘ فیصلے دے کر زیادہ سے زیادہ فیصلے کر کے قوم کا عدلیہ پر اعتماد بحال کر دیں بلکہ ’’ مستقبل کی ترقی، خوشحالی، جلد انصاف اور عوامی ریلیف‘‘ کی راہیں فعال کر دیں تاکہ انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے کہ اس سیاسی اور بے انصافی دنیا میں ایک ’’ قاضی‘‘ بھی تھا۔ بشری خامیوں کے باوجود ہمیں یقین ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اپنی خدا داد صلاحیتوں اور اصولی موقف سے کچھ نیا ضرور کریں گے جو ’’شارٹ بھی ہو گا اور سویٹ بھی‘‘۔ پہلا فل کورٹ فیصلہ ایک اچھی ابتداء ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button