ColumnRoshan Lal

بحکم سپریم کورٹ، پروڈا چلتا رہے گا

روشن لعل
پاکستان میں سیاستدانوں کی مبینہ کرپشن کے خاتمے کے نام پر بنائے گئے قوانین میں سے جس قدر ایوب خان کا بنایا ہو قانون ایبڈو بدنام ہوا اتنی بدنامی شاید ہی ا س طرح کے کسی دوسرے قانون کے حصے میں آئی ہو۔ ایوب خان کا ایبڈو بدنام تو بہت ہوا مگر یہ اپنی طرز کا پاکستان میں بنایا گیا پہلا قانون نہیں تھا۔ جس کام کے لیے ایبڈو بنایا گیا اسی مقصد کے تحت پاکستان بننے کے بعد جنوری 1949میں پروڈا کا قانون نافذ ہوا تھا۔ پروڈا کے اصل مقاصد کیا تھے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا نفاذ تو 14جنوری 1949کو ہوا مگر اطلاق 14 اگست 1947سے کیا گیا۔ پروڈا اور ایبڈو کے درمیان ، پوڈو کے نام سے بھی مذکور ہ قوانین کی طرز کا ایک قانون نافذ کیا گیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان قوانین کو بنانے کا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاستدانوں کو بلیک میل کرتے ہوئے ان سے اپنی مرضی کے کام کروانا تھا۔ جو سیاستدان مرضی کے کام کرنے کے لیے تیار نہ ہوتا تو اس کے خلاف پروڈا ، پوڈو یا ایبڈو کے تحت کاروائی کر کے اسے دوسروں کے لیے نشان عبرت بنادیا جاتا۔ اس طرح کے قوانین کا مقصد چونکہ کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ سیاستدانوں کو کنٹرول کرنا تھا اس لیے یہاں کرپشن تو دن دگنی ، رات چوگنی ترقی کرتی رہی مگر سیاسی اور جمہوری نظام ارتقائی مراحل طے کرنے کی بجائے گندے جوہڑ کی مچھلی بن کر رہ گیا۔ پروڈا ، پوڈو اور ایبڈو تو ماضی کی کہانیاں بن گئے مگر نیب کا قانون آج بھی موجود ہے جسے اسی روح کا حامل سمجھا جاتا ہے جو اس طرح کے سابقہ قوانین کا خاصہ تھی۔
اسی نیب کے قانون میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم میں سے زیادہ تر کو سابقہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے دو روز قبل سنائے گئے فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے دو ، ایک کے فرق سے ختم کر دیا۔ سابقہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے عین قبل جو فیصلہ کیا اس پر ہونے والے تبصروں میں جہاں کئی لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا وہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو اسے تسلی بخش سمجھتے ہیں۔ نیب قانون میں کی گئی ترامیم کو ختم کرنے کا فیصلہ چاہے کسی کے لیے تسلی بخش ہو یا نہ ہو مگر اس سے متعلق یہ بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جب سے یہ قانون نافذ ہوا اس وقت سے اسے غیر جانبدار حلقوں کی طرف سے پروڈا اور ایبڈو جیسے بدنام زمانہ قوانین کا تسلسل قرار دیا جا رہا ہے۔ نیب قانون میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترامیم کو سپریم کورٹ نے جس فیصلے کے تحت ختم کیا اس پر سامنے آنے والے تحفظات میں سب سے اہم یہ ہے کہ پارلیمنٹ کیونکہ آئینی طور پر اس ملک کا سب سے برتر ادارہ ہے لہذا سپریم کورٹ کو کسی طرح بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے کسی قانون کو ختم یا اس میں اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی کرے۔اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کرنے والے بعض لوگوں نے تو یہ خواہش ظاہر کر دی ہے کہ الیکشن کے بعد جب نئی پارلیمنٹ معرض وجود میں آئے تو اسے سب سے پہلے سابق چیف جسٹس کو ایوان میں بلا کر ان سی ان آئینی و قانونی توجیہات کی وضاحت طلب کرنی چاہیے جن کے تحت انہوں نے پارلیمنٹ کے برتر ہونے کے باوجود اس کے فیصلے کو رد کیا۔ خیر اس خواہش کے جائز ہونے کے باوجود اسے ابھی یہاں قابل عمل نہیں سمجھا جاسکتا مگر اس کے باوجود یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ نیب قانون سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کیحق میں چاہے جو بھی توجیہات پیش کی گئی ہوں ، مورخ اسے ان توجیہات کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے عدلیہ میں موجود اس دھڑے بندی کا نتیجہ قرار دے گا جو یہاں ایک عرصہ سے نظر آرہی ہے۔
نیب قانون میں کی گئی ترامیم پر آنے والے سپریم کورٹ فیصلے کے بعد اگرچہ کئی سیاستدانوں کے وہ کیس دوبارہ کھل جائیں گے جو یا تو تفتیش کے مرحلے پر نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہو گئے تھے یا پھر عدالتوں میں زیر سماعت تھے اور فاضل ججوں نے انہیں ایف آئی اے جیسے اداروں کے سپرد کرنے کا حکم جاری کر کے واپس بھیج دیاتھا ۔ ان مقدمات کے دوبارہ نیب کے دائرہ اختیار میں آنے کے بعد بھی زیادہ تر قانونی ماہرین کا یہی خیال ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا ان کیسوں پر اس سے زیادہ کوئی اثر نہیں ہوگا جو اثر چیف جسٹس ( ر) افتخار چودھری کی طرف سے این آر او ختم کیے جانے کے بعد آصف علی زرداری کے کیسوں پر ہوا تھا۔ واضح رہے کہ چیف جسٹس ( ر) افتخار چودھری نے این آر او کو جس حد تک بھی ممکن تھا سکینڈلائز کر کے ختم کیا مگر اس طرح کی کارروائیوں کے باجود بھی نیب آصف علی زرداری پر اپنا بنایا ہوا کوئی ایک کیس درست اور سچ ثابت نہیں کر سکا تھا۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی طرف سے پارلیمنٹ میں کی گئیں نیب ترامیم ختم کیے جانے کے بعد کچھ سیاستدانوں کے دوبارہ کھلنے والے کیسوں کا فیصلہ چاہے جو بھی آئے مگر فی الوقت ان سیاستدانوں کا مخالف دھڑا مذکورہ فیصلے سے بہت خوش نظر آرہا ہے۔ اس دھڑے کے خوشیاں منانے کے دوران ہی یہاں مخفی رکھی جانے والی یہ حقیقت سامنے آئی کہ پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر عرصہ دراز سے جاری ا سمگلنگ کی وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں ، کھربوں روپے کا نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ صاحب فہم لوگ اس بات پر قطعاً حیران نہیں ہوتے کہ جو نیب بڑی آسانی سے سیاستدان حکمرانوں کی مبینہ کرپشن تک پہنچ جاتا ہے اس کی دسترس سے پاک ایران اور پاک افغان سرحدوں کو اسمگلنگ جیسی کرپشن کے لیے استعمال کرنے والے کیسے محفوظ رہ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی نیب ترامیم ختم کر کے جو تیر مارا گیا ہے اس کے بعد بھی یہی امکان ہے کہ جو پہلے نیب کی گرفت میں آتے تھے وہی اب بھی قابل گرفت رہیں گے اور جو قبل ازیں محفوظ تھے وہ آئندہ بھی کسی کے تحفظ میں ہی رہیں گے۔
وطن عزیز کے متعلق اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہاں ایمانداری رائی اور کرپشن پہاڑوں کی طرح بلند قامت ہے ۔ بدقسمتی سے یہاں کسی شعبہ زندگی کو کرپشن سے پاک قرار نہیں دیا جاسکتا مگر اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی جائز نہیں سمجھی جاسکتی کہ دیگر تمام شعبوں سے وابستہ لوگوں کو استثنیٰ دے کر صرف ناپسندیدہ سیاستدانوں کو نیب جیسے ادارے کے سامنے آسان شکار بنا کر پیش کر دیا جائے۔ کرپشن کے خاتمہ کے لیے نیب کا قانون بدترین اور نیب کا ادارہ ناکام ترین ثابت ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد بھی نیب کی ناکامیوں کے کامیابیوں میں تبدیل ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ، جو بات نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کا نیب ترامیم ختم کرنے سے متعلق حکم پروڈا کا تسلسل جاری رکھنے کے پروانے کے علاوہ کچھ اور ثابت نہیں ہو سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button