ColumnTajamul Hussain Hashmi

ہنری کی زندگی اور میرا کزن

تجمل حسین ہاشمی
ہنری کا انتہائی مختصر تعارف تاکہ بات کو آگے بڑھایا جائے۔ ہنری مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو مینجر تھا، بعد میں اس نے مائیکروسافٹ میں ملازمت کر لی، ہنری دنیا میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت تھی، مائیکروسافٹ کا کہنا تھا جب تک ہنری سافٹ ویئر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے، اس وقت تک مائیکرو سافٹ اس کو مارکیٹ نہیں کرتا۔ ہنری دن میں 18گھنٹے کام کرتا، اس کا ایک ہی بیٹا تھا، صبح ہنری سویا ہوتا اور بیٹا سکول چلا جاتا اور رات کو بیٹا سویا ہوتا جب ہنری گھر واپس آتا۔ چھٹی کے دن وہ سارا دن سوتا اور بیٹا اپنی گیم کے لیے گرائونڈ میں ہوتا تھا۔ ایک دن ٹی وی پر ہنری کا انٹرویو تھا، ہنری کی بیوی اور بیٹا دونوں پروگرام کے منتظر تھے۔ میزبان نے اعلان کیا کہ آج ہمارے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہیں، ہنری مسکرا رہا تھا، پروگرام کے بعد اس کے بیٹے نے اپنا منی باکس کھولا اور اس میں کوئی ساڑھے چار سو ڈالر جمع کئے ہوئے تھے۔ بیٹے نے رقم جیب میں ڈالی اور اسی رات باپ کا انتظار کر رہا تھا۔ بیٹے نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کو خوش آمدید کہا اور بیگ پکڑ کر اندر لے آیا۔ محبت سے باپ کو کہنے لگا ڈیڈی کیا آپ مجھے 50ڈالر ادھار دے سکتے ہیں۔ ہنری مسکرا کر کہنے یہ ساری دولت تمہاری ہے۔ جیب سے 50ڈالر نکال کر اپنے بیٹے کو دے دیتا ہے۔ بیٹے نے 50کا نوٹ پکڑا اور اپنی جیب سے ریزگاری اور نوٹ نکال کر سامنے رکھے دئیے اور اس کے اوپر 50کا نوٹ بھی رکھا۔ ہنری یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا، بیٹے نے محبت بھری آنکھوں سے باپ کی آنکھوں میں دیکھا اور پیار سے کہا کہ کیا سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا آدمی ان پانچ سو ڈالر کے بدلے میں مجھے ایک گھنٹہ دے سکتا ہے۔ میں ڈیڈی آپ سے صرف ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے ان نوٹوں کے بدلے میں ایک گھنٹہ دے سکتے ہیں۔ ہنری بیٹے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ڈیڈی کیا میں آپ کو ایک گھنٹہ جی بھر کر دیکھ سکتا ہوں؟۔ میں آپ کو چھونا چاہتا ہوں ؟ ہنری کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ہنری نے اپنے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ دنیا میں سب سے بڑی خوش اور سب سے بڑا اطمینان ہمارا خاندان ہوتا ہے۔ ہنری کا کہنا تھا کہ دنیا کی سب سے بڑی بے وفا چیز نوکری، پیشہ اور کاروبار ہوتا ہے۔ آج ہمیں کچھ ہو جائے، یہ سب ختم ہو جائے گا۔ اچھے سے اچھا دوست آپ سے دور ہو جائے گا۔ میں نے ایسا ہی کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ میرا کزن جس کا نام نہیں لکھ سکتا۔ سنہ 1990ء سے کپڑے کا کاروبار کر رہا تھا ، پورے علاقے میں سب سے بڑا کاروبار تھا۔ ہمارے قریبی رشتہ داروں نے اس کی دکان کے سامنے ایک اور دکان کھول لی، وقت گزرتا گیا، سب سے بڑی مسجد کا امام بھی کزن کے پاس آتا، وہ مولانا کی بڑی تعظیم کرتا، دکان پر دعوت کرتا، ہر طرح سے مولانا کی خدمت کرتا تھا، وہ خود بھی مذہبی ذہن رکھتا تھا۔ خاندان والوں کی عزت کرتا، قرضہ پر سب کو کپڑے دیتا، سب کا خیال رکھتا، اس دور میں لوگوں کے پاس پیسہ زیادہ نہیں تھا اور چیزیں بھی سستی تھیں۔ پانی، چائے، بوتل اور کھانے سے کسٹمر کی خاطر مدارت کرتا۔ پھر ایک دن تین ڈاکو دکان میں آئے ، اس پر گولی چلا ی۔ سامنے کی دکان رشتہ داروں کی تھی، وہاں کھڑے کزن نے اس کو خون کی حالت میں دیکھ اور فورا اس کی مدد کے لیے آیا۔ پورا بازار دیکھ رہا تھا اور وہ روڈ پر زخمی پڑا آخری سانسیں لے رہا تھا ۔ اللہ نے جان بچا لی لیکن دماغ میں خوف بیٹھا گیا، آہستہ آہستہ اس کا دماغ ڈس آرڈر ہو گیا۔ حالات بدل گئے، اس کے دوست، رشتہ دار سب خاموش ہو گئے ۔ کسی کو اس کی شرافت، خدمت یاد نہیں رہی۔ کرونا کے دوران دنیا سے چلا گیا، لوگوں کی بے رخی تو سمجھ آتی تھی لیکن دین کی سمجھ رکھنے والا مولانا جو اس کے بہت قریب تھا، اس نے تیمارداری تو دور، اس کا جنازہ بھی ادا نہ کیا۔ حالانکہ اس کا جنازہ بھی اسی مسجد میں ہوا جہاں مولانا کی ڈیوٹی تھی لیکن جناب نے شرکت نہیں کی، وہ رشتہ دار جن کی وہ ہر وقت خدمات کرتا، خوش آمدید کہتا تھا، وہ بھی اس کے یتیم بچوں سے دور ہو گئے۔ ہنری نے جو کہا بالکل درست کہا ہے۔ ہم دنیا کی سب سے زیادہ بے وفا چیز کو زیادہ وفا دیتے ہیں۔ ہم اپنی بہترین توانائیوں کو اس بے وفا دنیا پر خرچ کرتے ہیں ۔ جبکہ وہ لوگوں جو ہمارے دکھوں کے ساتھی ہیں جن سے ہماری خوشیاں وابستہ ہیں، جو ہمارے انتہائی وفا دار ہیں، جو ماں، بیٹا، بہن، ماموں، چچا ہیں، ہم اپنی زندگی میں ان کو انتہائی کم وقت دیتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرتے، ہم لوگ زندگی بھر گھاٹے کے سودے کرتے ہیں، ہم اپنی زندگی میں ان لوگوں کو اہمیت دیتے ہیں جو صرف آپ کی دولت ، پاور اور سیٹ کو سلام کرتے ہیں، وہ آپ سے نہیں، آپ کے مرتبہ سے لگائو رکھتے ہیں لیکن کچھ بھی ہو آپ کی فیملی ، آپ کے بیوی، بچے اور بہن بھائی ہی آپ کے غم میں شریک ہوتے ہیں۔ زندگی میں غیروں کی خوشامد کے چکر میں خود کو تنہا کر لیتے ہیں، تنہائی ایسا عذاب ہے جو اس وقت آتا ہے جب آپ کی ٹانگوں میں ہمت اور غیروں کو آپ سے مفاد ختم ہو جاتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ کسی کو سمجھا نہیں سکتے۔ حضورؐ کی زندگی سب سے بڑی مشعل راہ ہے، ہمارا دین سب سے افضل ہے لیکن ہم اس کو صرف زبان کی حد تک تسلیم کرتے ہیں، اگر سچے دل سے اسلام پر عمل پیرا ہوں تو یقینا مسائل ختم ہو جائیں گے۔ سیاسی ٹچ ڈالنا بھی ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے حلف اٹھا لیا، چیف صاحب کی ساتھ ان کی بیوی کھڑی تھیں۔ سوشل میڈیا پر طوفان جاری تھا ہم آپس میں نفرتوں کو بڑھا رہے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب وہی فیصلہ کریں گے جس کی اجازت قانون میں موجود ہے۔ آپ اپنی محبتوں کو سیاسی آگ میں مت ڈالیں، ہنری کا میسج آپ کو اس غلامی اور آگ سے نجات دے گا، جس کے پیچھے اپ دن بھر خوار ہیں اور اس رب کو بھی یاد نہیں کرتے جس نے آپ کو دنیا میں اشرف المخلوقات بنایا ۔

جواب دیں

Back to top button