تازہ ترینخبریںروشنی

واقعہ کربلا کے شہدا کا چہلم: کیا اربعین ایک صحابی رسول ﷺ کی روایت ہے؟

اربعین اہل تشیع مسلمانوں کے لیے ایک اہم دن ہے۔ یہ اس واقعے کے چالیس روز مکمل ہونے کی یاد ہے جب نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، امام حسین علیہہ سلام، اہل بیت النبی یعنی کہ ان کے خاندان اور ان کے ساتھیوں کو کربلا کے مقام پر یزیدی افواج نے شہید کیا تھا۔ اسلام کی تاریخی روایات کے مطابق امام حسین، لوگوں کی طرف سے دعوتیں ملنے کے بعد یزید بن معاویہ کی حکومت کے خلاف حجاز سے اپنے اہلخانہ اور ساتھیوں کے ہمراہ عراق کے اہم شہر کوفہ کی جانب روانہ ہوئے مگر کربلا کے مقام پر انھیں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیا گیا جبکہ خاندان کی خواتین اور بچوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

اہل تشیع ’اربعین‘ کے موقع پر اُس مقام کی زیارت کرنا باعثِ ثواب مانتے ہیں۔
اربعین کا سلسلہ شروع کب ہوا؟ اگر اس روایت کے تاریخی حوالوں کی بات کی جائے تو دنیا کی مشہور ترین تاریخی کتاب طبری میں ایک روایت ملتی ہے ۔

طبری اپنی سند کے ساتھ عطیہ عوفی سے نقل کرتے ہے کہ عطیہ عوفی نے کہا کہ: عن عطیّة العوفی: خَرَجتُ مَعَ جابِرِ بنِ عَبدِ اللّه ِ الأَنصارِیِّ زائِرَینِ قَبرَ الحُسَینِ بنِ عَلِیِّ بنِ أبی طالِبٍ علیه السلام، فَلَمّا وَرَدنا کَربَلاءَ دَنا جابِرٌ مِن شاطِئِ الفُراتِ فَاغتَسَلَ، ثُمَّ اتَّزَرَ بِإِزارٍ وَارتَدى بِآخَر، ثُمَّ فَتَحَ صُرَّةً فیها سُعدٌ فَنَثَرَها عَلى بَدَنِه، ثُمَّ لَم یَخطُ خُطوَةً إلّا ذَکَرَ اللّه َ تَعالى. حَتّى إذا دَنا مِنَ القَبرِ قال: ألمِسنیهِ فَأَلمَستُهُ فَخَرَّ عَلَى القَبرِ مَغشِیّا عَلَیهِ فَرَشَشتُ عَلَیهِ شَیئا مِنَ الماءِ فَلَمّا أفاقَ قال: یا حُسَینُ ثَلاثا ثُمَّ قال: حَبیبٌ لا یُجیبُ حَبیبَهُ. ثُمَّ قال: وأنّى لَکَ بِالجَوابِ وقَد شُحِطَت أوداجُکَ عَلى أثباجِک، وفُرِّقَ بَینَ بَدَنِکَ ورَأسِک، فَأَشهَدُ أنَّکَ ابنُ خاتَمِ النَّبِیّین وَابنُ سَیِّدِ المُؤمِنین وَابنُ حَلیفِ التَّقوى وسَلیلِ الهُدى وخامِسُ أصحابِ الکِساءِ وَابنُ سَیِّدِ النُّقَباءِ وَابنُ فاطِمَةَ سَیِّدَةِ النِّساءِ وما لَکَ لا تَکونُ هکَذا وقَد غَذَّتکَ کَفُّ سَیِّدِ المُرسَلین ورُبّیتَ فی حِجرِ المُتَّقین ورُضِعتَ مِن ثَدیِ الإِیمانِ وفُطِمتَ بِالإِسلام فَطِبتَ حَیّا وطِبتَ مَیِّتا غَیرَ أنَّ قُلوبَ المُؤمِنینَ غَیرُ طَیِّبَةٍ لِفِراقِک ولا شاکَّةٍ فِی الخِیَرَةِ لَکَ فَعَلَیکَ سَلامُ اللّه و رِضوانُهُ وأشهَدُ أنَّکَ مَضَیتَ عَلى ما مَضى عَلَیهِ أخوکَ یَحیَى بنُ زَکَرِیّا.

میں جابر بن عبد اللہ انصاری کے ساتھ حسین بن علی علیہ السلام کی قبر کی زیارت کرنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ جب ہم کربلا پہنچے تو جابر فرات کے ساحل کے قریب گیا اور غسل انجام دیا اور محرم افراد کی طرح ایک چادر پہنا، پھر ایک تھیلی سے خوشبو نکالا اور اپنے آپ کو اس خوشبو سے معطر کیا اور ذکر الہی کے ساتھ قدم اٹھانا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ حسینؑ ابن علیؑ کے مرقد کے قریب پہنچا۔ جب ہم نزدیک پہنچے تو جابر نے کہا: میرا ہاتھ قبر حسینؑ پر رکھو۔ میں نے جابر کے ہاتھوں کو قبر حسینؑ پر رکھا۔ اس نے قبر حسینؑ ابن علیؑ کو سینے سے لگایا اور بے ہوش ہو گیا۔ جب میں نے اس کے اوپر پر پانی ڈالا تو وہ ہوش میں آیا۔ اس نے تین مرتبہ یا حسین کہ کر آواز بلند کیا اور کہا: (حبیب لا یجیب حبیبه) کیا دوست دوست کو جواب نہیں دیتا؟ پھر جابر خود جواب دیتا ہے کہ آپ کس طرح جواب دو گے کہ آپ کے مقدس کو جسم سے جدا کیا گیا ہے؟، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ پیغمبر خاتم اور امیر المومنین علی ابن ابی طالب اور فاطمہ زہرا کے فرزند ہیں اور آپ اس طرح کیوں نہ ہوں، کیونکہ خدا کے رسولؑ نے اپنے دست مبارک سے آپ کو غذا دیا ہے اور نیک لوگوں نے آپؑ کی پرورش اور تربیت کی ہے۔ آپؑ نے ایک پاک اور بہترین زندگی اور بہترین موت حاصل کی ہے، اگرچہ مومنین آپ کی شہادت سے محزون ہیں۔ خدا کی رضایت اور سلام شامل حال ہو اے فرزند رسولؑ خدا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ کو ایسی شہادت نصیب ہوئی، جیسے یحییٰ بن زکریا کو نصیب ہوا تھا۔

 

جیسا کہ بتایا ہے گیاہے کہ پہلی مرتبہ کربلا میں پیش آئے واقعے کے چالیس دن مکمل ہونے پر پیغمبر اسلام کے اصحاب میں سے ایک، جابر بن عبداللہ الانصاری، اُس مقام پر پہنچے تھے اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ گو کہ تاریخ میں عام حوالے ملتے ہیں کہ مختلف مسلم حکومتوں کے دوران شیعہ زائرین کو اکثر ان مقامات کی زیارت سے روکا جاتا رہا

ماضی قریب میں عراق میں سیاسی جماعت ’بعث‘ کی حکمرانی کے دوران اربعین کے لیے آنے والوں اور اربعین واک میں ان کی شمولیت کو روکنے کی کوششوں کی وجہ سے زیادہ تعداد میں زائرین عراق کا رخ کرنے سے گریز کرتے تھے۔ سابق عراقی صدر صدام حسین کے دور میں، اس زیارت کی غرض سے دنیا بھر سے آنے والوں کے لیے حالات کشیدہ تھے کیونکہ زائرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان بار بار ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے معاملات خراب رہے۔ تاہم زائرین کی امام حسین سے محبت نے یہ سلسلہ جاری و ساری رکھا۔ سنہ 2003 میں بعث پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق میں ایران کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا اور اسی کے ساتھ اربعین کے زائرین کی تعداد میں بڑا اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔

اور آج اربعین کی زیارت صرف شیعہ مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی شرکت کرتے ہیں۔ جف اور کربلا کے شہروں کے درمیان راستے کے ساتھ ہوسٹل یا رہائشگاہیں بھی موجود ہیں، جو زائرین کے استقبال کے لیے بنائی گئی ہیں۔ یہاں زائرین کو مفت کھانا اور رہائش فراہم کیا جاتا ہے۔

اس موقع پر عراقی اپنے گھر اربعین کے زائرین کے لیے کھول دیتے ہیں۔ اس راستے پر ہر عمر کے لوگ اپنے ہاتھوں میں کھانے پینے کی اشیا پکڑے کھڑے ہوتے ہیں جو وہ زائرین کو بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button