تازہ ترینخبریںدنیا

چند کروڑ ڈالرز اور مغربی کنارہ کے عوض فلسطینی لیڈرز مزاحمت ترک کرنے پر تیار؟

تازہ ترین خبروں کے مطابق فلسطینی حکام نے چند شرطوں کے عوض اسرائیل سعودیہ تعلقات کی بحالی کوتسلیم کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ ان شرائط میں چند کروڑ ڈالروں کی امداد کی بحالی، اور وسیٹ بینک میں اسرائیلی سرگرمی کو روکنا ہے۔ بدھ کے روز اسی سلسلے میں فلسطینی حکام پر مشتمل ایک وفد نے سعودی دارالحکومت ریاض میں اپنے سعودی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات کی ہے۔ فلسطینی حکام کی امریکی حکام سے بھی ملاقات متوقع تھی یاد رہے کہ عرب دنیا میں فلسطینی کاز کے پیچھے سعودی حمایت ہی ہے جو اسے اس وقت تک سفارتی محاذ پر عملی سپورٹ دے رہی ہے۔ اگر اسرائیل سعودیہ تعلقات بحال ہو گئے تو اس کا مطلب ہوگا کہ فلسطین کا مسئلہ مسئلہ نہیں رہا۔ اس ضمن میں یہ بھی اہم ہے کہ تاریخی اور عوامی طور پر فلسطینی حکام اسرائیل سے مکمل آزادی اور سرحدوں کے پار آزاد آمد و رفت کو ہی اپنا سیاسی مقصد بتاتے رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق جو شرائط فلسطینی اتھارٹی نے رکھی ہیں وہ کچھ یوں ہے۔
مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو جو اس وقت مکمل اسرائیلی کنٹرول میں ہیں (سنہ 1990 کے اوسلو امن معاہدے کے تحت جنھیں ایریا ’سی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے) کو فلسطینی اتھارٹی کی حکمرانی والے علاقوں میں منتقل کیا جائے گا
مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری کی ’مکمل بندش‘ کی جائے
تقریباً 200 ملین ڈالر سالانہ کی فلسطینی حکام کو سعودی مالی امداد دوبارہ شروع کر دی جائے، جو 2016 سے سست ہو گئی تھی اور تین سال پہلے مکمل طور پر بند ہو گئی تھی
مقبوضہ مشرقی بیت المقدس میں امریکی قونصل خانے کو دوبارہ کھولا جائے جو فلسطینیوں کے لیے سفارتی مشن تھا اور جسے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بند کر دیا تھا
اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امریکہ کی ثالثی میں مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں جہاں سے وہ سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیر خارجہ جان کیری کی قیادت میں رک گئے تھے۔

خبر کے مطابق امریکی حکام ان شرائط کو بھی حد سے زیادہ قرار دے رہے ہیں تاہم ان پر بات بھی جاری ہے۔ یہ معاہدہ امریکہ کی ثالثی میں ہو گا اور اس کے تحت سعودی عرب امریکہ سے بڑی دفاعی حاصل کر پائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button